گلگت پیکیج یا تقسیم کشمیر

گلگت بلتستان کو الگ صوبائی حیثیت دینے کی تجویز کئی دہائیوں سے زیرغور ہے اور اب سی پیک کی چادر میں اسے لپیٹ کر پیش کیا جارہاہے۔ سی پیک خود کیا ہے، پاکستانی قوم کو ابھی تک اس بارے میں کچھ بھی نہیں بتایا جارہا، ایسٹ انڈیا کمپنی کی برصغیر میں آمد بھی ایسا ہی سہانا خواب تھا۔ افغانستان میں روسی افواج بھی ایسی ہی خواہشات سے داخل کی گئیں تھیں۔ اب سی پیک کا لالچ دے کر وحدت کشمیر کو چھیڑا جا رہا ے۔ یہ دراصل لائن آف کنٹرول کو مستقل سرحد بنانے کا پرانا فارمولا ہے۔ حیرت یہ ہے کہ پاکستان کے لیے اپنا سب کچھ قربان کرنے والے کشمیریوں کو اس معاملے میں شریک نہیں کیا گیا۔

گلگت بلتستان کے عوام کو دور غلامی کے نظام سے جکڑرکھا گیا ہے۔ وہ تو اس تجویز کو خوش آمدید ہی کہیں گے کہ صوبہ بننے یا ریاست انہیں بنیادی انسانی حقوق تو ملیں۔ مسئلہ جموں کشمیر پر پاکستان کا اہل کشمیر اور دنیا کے سامنے ایک مسلمہ موقف تھا، جس سے دستبرداری پوری سفارتی تاریخ کو پلیٹ دینے کے مترادف ہے۔ یہ محض سی پیک روڈ کو تحفظ دینے کا مسئلہ نہیں اور نہ کوئی جغرافیائی تنازعہ ہے بلکہ یہ ایک انسانی مسئلہ ہے۔ جس کے ساتھ ستر سالہ قربانیوں کی طویل جدوجہد شامل ہے۔ لاکھوں انسان اس میں لقمہ اجل بنے ہیں، کتنے ہیں جنہوں نے ساری زندگی جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزاری ہے۔ مقبول بٹ شہید،افضل گرو شہید،برہان وانی شہید، سید علی گیلانی، یاسین ملک اور ان جیسے سینکڑوں فرزندان کشمیر نے بے مثال قربانیاں دی ہیں ۔ ہماری عزت ماب ماوں اور بہنوں کی عصمتیں قربان ہوئی ہیں۔ ہمارے بچے اور بزرگ تاحیات اپاہج ہوئے، کوئی گھر ایسا نہیں جو اس جدوجہد میں زخم آلودہ نہ ہوا ہوں۔

گزشتہ سوا سال سے اہل کشمیر مسلسل محاصرے میں ہیں۔ پاکستان کو اس مشکل گھڑی میں محصورین کشمیر کی داد رسی کرنا تھی، وہ تو ان پر نمک پاشی کرنے لگا ہے۔ آگ اور خون کے دریاوں سے گزرنے والوں کے مستقبل کا فیصلہ راولپنڈی اور اسلام آباد میں بیٹھ کرکرنا شاید آسان تو ہے لیکن قومی زندگی کا ایک شرمناک موڑ ضرور ہے۔

چین اپنی شاہراہ کی حفاظت کرنا جانتا ہے، اس کو صوبہ بنانے اور ریاست جموں کشمیر کی آئینی اور اصولی حیثیت کو چھیڑنا مناسب نہیں۔ کیا شہدائے کشمیر نے اس لیے خون دیا تھا کہ مشکل گھڑی میں اہل کشمیر کے گلے پر چھری چلائی جائے۔ یہ ایک کروڑ کشمیریوں کے جذبات سے کھیلنے کے مترادف ہے۔ ان ظالموں کو سید علی گیلانی کی زندگی میں یہ ظلم نہیں کرنا چاہیے۔ وہ مرد درویش پوری زندگی پاکستان کی وکالت کرتا رہا ، آج اس بزرگی میں انہیں موقف تبدیل کرنے پر مجبور نہ کیا جائے۔

مفادات پرستوں کادل نہیں ہوتا، وہ نہ دل سے سوچتے ہیں اور نہ جذبوں کی اہمیت جانتے ہیں۔ جو کشمیری پاکستانی پرچم میں دفن ہونے کو سب سے بڑا اعزاز سمجھتے ہیں، ان کے جذبوں ، امیدوں اور خواہشات کو مفاد پرست کیا جانیں۔ ملک اور قوم مفادات سے نہیں بنتے، قومیں نظرئیے، عقیدے، عزم و استقلال سے عبارت ہوتی ہیں۔ مفاد پرستانہ بندر بانٹ ہی کرنا تھی تو نوے کی دہائی میں عسکری جدوجہد کی حوصلہ افزائی کیوں کی گئی۔ اہل کشمیر کو آگ اور خون کے سمندر میں چھوڑ کر کوئی انسان تو جانہیں سکتا۔ لیکن مجھے حیرت ہے کہ جو لوگ ۱۹۴۷ اور ۱۹۶۵ میں کشمیریوں کو تنہا چھوڑ کر بھاگ آئے تھے، وہ کتنے سنگ دل ہیں کہ اپنے پیش رووں کی یقین دہانیوں کو پس پشت ڈال کر وہ ایک بار پھر اہل کشمیر کو بھارتی افواج کے سپرد کرنے کا فیصلہ کرچکے ہیں۔

سی پیک کے فضائل و برکات پر آنکھیں بند کرکے ہم یقین کربھی لیں تو یہ وحدت کشمیر کی قیمت پر قبول کرلینا ہمارے لیے ممکن نہیں۔ آپ کو گلگت بلتستان کے عوام سے کوئی دلچسپی ہوتی تو باہتر سال انہیں دور غلامی میں نہ رکھا ہوتا۔ چلیے آپ اہل گلگت کو دستوری اور آئینی حقوق دینا چاہتے ہیں تو وحدت کشمیر کو چھیٹرے بغیرانہیں آزاد کشمیر جیسا سیٹ اپ بنانے دیں۔

جہاں تلک سی پیک کے تحفظ کی بات ہے تو بھارت اگلے سو سال تک اس طرف دیکھنے کی ہمت نہیں کرسکتا ہے۔ چند سو نہتے کشمیریوں نے گزشتہ تیس سالوں سے بھارت کو الجھائے رکھا ہے۔کشمیریوں کو بین الاقوامی تعاون مل جائے تو وہ بھارت کی ساری فوج کو کشمیر میں الجھائے رکھیں گئے۔ تیس سال تک جدوجہد کرنے والی کشمیر ی قوم ایسے کسی حل کو قبول نہیں کرے گی اور وہ آخری کشمیری تک جدوجہد کا عزم کرچکی ہے۔ پاکستان کو کسی بھی قیمت پر کشمیریوں کے جذبات سے نہیں کھلینا چاہیے۔ جب کشمیر ی پوری ریاست کو پاکستان سے الحاق چاہتے ہیں تو پھر پاکستان جموں کشمیر کے ٹکڑے کرکے کشمیریوں کے ارمانوں کا خون کیوں کرنا چاہتا ہے؟
 

Ata Ur Rehman Chohan
About the Author: Ata Ur Rehman Chohan Read More Articles by Ata Ur Rehman Chohan: 10 Articles with 8364 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.