ملک بھر میں اس وقت لاک ڈائون کا سلسلہ ختم ہونے کو ہے،
جیسے جیسے لاک ڈائون کا سلسلہ ختم ہوتے جارہاہے،اسی رفتار سے تقریبات،جلسے
و اجلاس بھی منعقد ہورہے ہیں،پچھلے چالیس پچاس دنوںمیں اردو زبان کی کئی
کتابوں کااجراء ہواہے،اب بھی کئی کتابیں منظر عام پر آنے جارہی ہیں۔لاک
ڈائون اورسیل ڈائون کے ایام میں بھی اردو زبان کے مشاعرے،ویبینار اور بحث
ومباحثے زوروں پر رہے ہیں،تنقیدی مطالعہ،لسانی جائزہ اور اردوزبان کے ادباء
اور شعراء پر ویبناربھی بڑے پیمانے پر منعقدکئے گئے،لیکن افسوس کی بات یہ
رہی ہے کہ پچھلےتین مہینوں سے قومی تعلیمی پالیسی(نیشنل ایجوکیشن پالیسی)
سے جس طرح اردو زبان کو غائب کردیاگیاہے اس بات کو لیکر شائد ہی کسی
پروفیسر، انجمن یا ادارے کی جانب سے بحث و مباحثے منعقد کرتے ہوئے حکومت کی
اس لاپرواہی کے خلاف آواز اٹھانے کی کوشش کی ہے۔29جولائی 2020 کو قومی
تعلیمی پالیسی کو منظوری دی گئی ہےاور اس پالیسی کو تاریخ ساز پالیسی کانام
دیاگیاہے ،لیکن اردو دانوںنے اردو زبان کو تاریخ میں ڈھکیلنے کاپورا ارادہ
کرلیاہے اسی وجہ سے یہ لوگ قومی تعلیمی پالیسی سے اردو غائب ہونے کے باوجود
زبان تک نہیں کھول رہے ہیں۔درحقیقت نئی تعلیمی پالیسی میں سے اردو کا غائب
ہونا اردو کےحال اور مستقبل کیلئے خطرناک بات ہے۔یہ زبان ہندوستانی ہونے کے
باوجوداسے ہندوستان میں جگہ نہیں مل رہی ہے ،اس تعلیمی پالیسی کے مشورے میں
کہیں بھی اردو کانام نہیں ہے۔حالانکہ 2قومی کائونسل کے ڈائریکٹرکی جانب سے
کہاگیاہے کہ اردو زبان نئی تعلیمی پالیسی کی وجہ سے خطرے میں نہیں ہے،پیش
کردہ تعلیمی پالیسی کے پیاراگراف12۔4۔6 میں وضاحت ہوئی ہے کہ یہ زبان دستور
ہند کے شیڈول 8 میں بھی شامل ہے،اس وجہ سے اردو کو کوئی خطرہ نہیں ہوگا۔نئی
تعلیمی پالیسی کے مطابق مقامی اور مادری زبانوںمیں تعلیم دینے پرزور
دیاگیاہے،لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اردو زبان اب تک کسی بھی ریاست کی
سرکاری زبان نہیں بن پائی ہے۔تعلیمی پالیسی میں کلاسکی زبانیں مانے جانے
والی تمل،کنڑا،تلگو،ملیالم،اڑیا،سنسکرت،تالی اور فارسی زبانوں کو بھی فروغ
دینے کی بات کہی گئی ہے لیکن اردو جو خود بھی ایک کلاسکی زبان بھی ہے،لیکن
اس کو اس پالیسی سے غائب کردیاگیاہے۔بہرحال اس وقت اردو زبان کی حالت سنگین
ہوچکی ہے،اب مشاعروںمیںوقت گنوانے اور جلسوںمیں ایک دوسرے کی تعریفیں
ومرثیے پڑھنے کے بجائے اردو تنظیموں،اداروں،انجمنوں کی سب سے اولین ترجیح
یہ ہونی چاہیے کہ کم ازکم قومی تعلیمی پالیسی میں اردو کو شامل کرنے کیلئے
حکومتوں پر زور ڈالیں،نمک حلالی کاثبوت دیں اور جو پروفیسران و اردودان
اردوکی روٹیاںتوڑکر ڈکار دیکراژدھوںکی طرح بیٹھے ہوئے ہیں وہ باہر نکل کر
اردو کی بقاء کیلئے اب تو کام کریں۔
|