عالی مسجد اور مدرسے پر سوال کیوں ؟

علماء پیغمبروں کی میراث ہیں اوریہ قابل احترام و قابل تخلیلد ہیں ، مساجد اللہ کے گھر ہیں یہاں پر مسلمان عبادتیں کرتے ہیں ، مدارس دین کے قلعے ہیں یہاں سے فارغ ہونے والے طلباء ونوجوان آگے چل کر مسلمانوں کی امامت و قیادت کی ذمہ داری سنبھالتے ہیں ۔ یہ تینوں زمرے مسلمانوں کیلئے بے حد اہم ترین زمرے ہیں ان زمروں کو ہر مسلمان قابل احترام مانتا ہےاوران تینوں چیزوں کو کسی بھی طرح سے داغدار ہونے نہیں دیتا ، لیکن جب تینوں شعبوں میں وہ باتیں سامنے آتی ہیں جن کا مسلمانوں کو کوئی گمان نہیں رہتا اوریہ تینوں حلقے منفی راہ پر چل نکلتے ہیں تو اس پر سوال اٹھانا ہی پڑتا ہے۔ اکثرکہا جاتا ہے کہ علماء پر سوال نہیں کرنا چاہئے، علماء کے تعلق سے بدظن وبدگمان نہیں ہونا چاہئے، یقیناً علماء کے تعلق سے ایسی کوئی رائے نہیں رکھنی چاہئے جس سے کہ علماء پر سوالیہ نشان اٹھنے لگیں، لیکن جہاں تک ہماری سوچ اور عقل ہے اس سوچ کے مطابق تو علماء کی ذات بھی بنی نوع انسان میں سے ہی ہےاوروہ بھی غلطیاں کرتے ہیں اورانکی غلطیاں بھی دنیا وآخرت میں سوالات کے دائرے میں آتے ہیں، ایسے میں کسی کی غلطی پر سوال لگایا جائےتو اس میں غلطی کہاں سے آگئی؟ ۔علماء میں بھی دو زمرے ہیں ایک زمرہ علماء حق کا اوردوسرا زمرہ علماء سوء کا ہے، جو حق پرست ہیں وہ اپنی غلطی کو مان لیتے ہیں اوراسکی اصلاح کیلئے ضروری اقدامات اٹھالیتے ہیںجبکہ علماء سوء حق پر نہیں ہوتے اورہر حال میں اپنی غلطی کو ماننے کیلئے تیار نہیں ہوتے ، یہ لوگ ان پر اٹھنے والے سوالات پر بھڑک جاتے ہیں اورسوالات اٹھانے والے کو ہی موردالزام ٹہراتے ہیں۔ بالکل اسی طرح مدارس اسلامیہ کے نظام پر جب سوالات اٹھتے ہیں تب بھی اہل علم حضرات کو اعتراض ہوتا ہے کہ چہرے پر داڑھی نہ رکھنے والے، ان شرٹ کرکے گھومنے والےبھی اب مدرسوں پر سوال اٹھارہے ہیں۔ بے شک ان شرٹ کرنے والے اورچہرے پر داڑھی نہ رکھنے والے عالم دین تو نہ ہوتے ہوں گے لیکن کافی حدتک حالات حاضرہ سے آشنا ضرور ہوتے ہیں۔ اس لئے وہ ان مدارس اسلامیہ کو اپنا سمجھ کر ان میں تبدیلیاں ، ترمیم اور طریقہ کار کو بدلنے کی خواہش رکھتے ہیں تاکہ مدارس اسلامیہ بھی عروج پر پہنچیں اور یہاں سے فارغ ہونے والے علماء مسلمانوں کے داعی، مربی، مرشد وقائد بن سکیں۔صرف پنچ وقتہ نماز وں کی امامت کے علاوہ ماہر علم ، ماہر معاشیات، ماہر قانون وماہر ادب بھی یہ علماء بن سکیں یہ فکر بھی نظام تعلیم میں لانے کی ضرورت ہے۔ اب بات کرتے ہیں مساجد اسلامیہ کی جب بھی مساجد اسلامیہ کی افزودتعمیر ات کے تعلق سے سوالات کئے جاتے ہیں تو یہ طبقہ یہ کہتا ہے کہ مدرسے اور مسجد اورعالم ہی سوالات کے دائرے میںہی کیوں، جبکہ بے تحاشہ شادیاں اصراف کے ساتھ ہورہی ہیں، لوگ اپنے اپنے گھر لاکھوں کروڑوں کی لاگت سے تعمیر کرتے ہیں، اپنی بچیوں کی شادیوں میں کروڑوں روپئے خرچ کرتے ہیں غرض کہ کچھ لوگ دنیا کو ہی جنت بنانے میں لگے ہوتے ہیں۔ان پر سوالات کیوں نہیں کئے جاتے ؟۔بے شک یہ لوگ سوالات کے ہی اہل نہیں بلکہ دین کے مطابق گنہگار بھی ہیں لیکن کیا گوبر اورسونے کی قیمت ایک ہی ہوتی ہے؟۔ علماء وجہلا میں بہت بڑا فرق ہے، لاکھوں کے مکان اور کروڑوں کی مسجد میں بہت بڑا فرق ہے، مدارس اسلامیہ کے نظام اور عام لوگوں کے روز مرہ کی زندگی میں بہت بڑا فرق ہے۔ علماء ، مساجد اورمدارس کا تعلق روحانی ہےتو اسے داغدار ہونا نہیں چاہئے۔ اگر کوئی اپنی بچی کی شادی میں کروڑوں روپئے خرچ کرتا ہے تو وہ اسکا ذاتی پیسہ ہے اسکا جوابدہ وہ خود ہوگا،لیکن ایک گلی میں الگ الگ مسلکوں کے ایک محلے میں الگ الگ عقائد کے مسجدیں تعمیر ہوتی ہیں تو ملت کے سرمائے میں بنائی جانے والی مساجد ہوںگی اس لئے اس پر سوال کرنا ضروری ہوگا۔ مسجد یں نہ بنائیں ، یہ ہم ان شرٹ والے لوگ ہرگز نہیں کہتے لیکن مسجدوں کی حرمت کو پہنچانے والی نسلیں بنائیں ہم یہ کہتے ہیں۔ علامہ اقبالؔ نے کہا ہے کہ
مسجد تو بنادی شب بھرمیں ایمان کے حرارت والوں نے
من اپنا پرانا پاپی ہے برسوں میں نمازی بن نہ سکا

اسطرح سے مساجد ، مدارس اسلامیہ کی بنیادیں رکھنے کیلئے دوڑ چل رہی ہے اسی طرح سے اگر ملت اسلامیہ کی نسلوں کو دیگر علوم کا سہارا دیا جائے تو یقیناً بہت بڑا کام ہوسکتا ہے۔ یہی ہماری خواہش ہے اور یہی ہماری آرزو ہے ۔


 

Muddasir Ahmed
About the Author: Muddasir Ahmed Read More Articles by Muddasir Ahmed: 269 Articles with 197688 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.