کافی سال پرانی بات ہے. آر سی سی پل گلگت سے گزر رہا تھا
کہ سامنے سے کامریڈ بابا جان کچھ کھاتے ہوئے آرہے تھے. سوچا سلام کرتا
جاؤں. قریب پہنچا تو کیا دیکھا کہ وہ کیلے کھائے جارہے تھے. دوپہر کا وقت
تھا شاید بھوک مٹا رہے ہونگے. سلام کیا تو بے تکلفی سے کیلے کا تھیلا میرے
سامنے پیش کیا. معذرت چاہی.یہی پہلی اور اخری ملاقات تھی. وہ مجھے شاید
نہیں پہچانتے تھے. خیریت دریافت کرکے چل دیا. مجھے لگا بہت سادہ دل انسان
ہے.تکلفات کی دنیا سے دور.
کئی سالوں سے سیاسی اسیر ہے. اب ان کے حق میں خلق خدا سڑک پر آگئی ہے.
طاقتور طبقوں کو دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کامریڈ اور اس کے ساتھیوں
کو رہا کرنا چاہیے. عبدالحمید خان صاحب خیریت سے گھر آئے ہیں. ماضی میں ان
سے منسلک تمام افراد سرکار کے اچھے عہدے اور نوکریاں انجوائی کررہے ہیں.
کامریڈ بابا جان بھی اسی دھرتی کا سپوت ہے. ان کے اور ان کے ساتھیوں کو بھی
زندگی انجوائی کرنے کا موقع دیا جائے. ان کی زندگی اجیرن بنانا نہ علاقے کے
مفاد میں ہے نہ حکومت کے. انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ ان کیساتھ نرمی برتی
جاوے. تو
احباب کیا کہتے ہیں؟
|