آج کل ہم پاکستان کے ان ٹھگوں کاتزکرہ کرتے رہتے ہیں
جنھوں نے ماضی میں ریاست اور پاکستانی عوام کو خوب چونا لگایااور ملک سے
باہر دولت اکٹھی کی ،ٹھگی کا یہ پیشہ برصغیر میں چودھویں صدی سے شروع
ہوتاہے ہمارے پاکستان کے موجودہ ٹھگوں نے ماضی کے امیر علی ٹھگ،لطف اﷲ ٹھگ،
جمعہ ٹھگ اور دیگر نامور ٹھگوں کے قصے کہانیوں کو بھی بہت پیچھے چھوڑ دیاہے
یہاں تک پاکستان کے ان ٹھگوں نے بھارت کے قدیم شہر بنارس کے ان ٹھگوں کو
بھی مات د ے ڈالی ہے جنھیں آج کل ہم محاروں میں بنارسی ٹھگوں کے نام سے یاد
کرتے ہیں،ان پاکستانی ٹھگوں کے پرکھوں نے قیام پاکستان میں جب قدم رکھا تو
یہاں پر موجود غریب لوگوں کی زمینوں اورجاگیروں پر قبضے جمائے اور اور
چندہی دن میں ان میں سے کچھ لوگ جو کبھی لٹے پٹے تھے اس ملک کے سرمایہ دار
اور جاگیر دار کہلانے لگے ،ان میں سب ہی ایسے نہیں تھے کچھ ایسے بھی تھے
جنھوں نے اپنی محنت اور لگن کے بل بوتے پر اپنا مقام حاصل کیا مگر کچھ لوگ
ایسے بھی تھے جو پیشے کے لحاظ سے عوام کو بہلا پھسلا کر لوٹنے کا کاروبار
کرتے تھے آج ان ہی کی نسلوں نے ماضی کے ان ٹھگوں کو بھی مات دے ڈالی ہے
جنھوں نے برصغیر میں کئی صدیوں تک کافی ادھم مچائے رکھا تھا،آج کل ٹھگ اس
قدر ہوشیار اور چالاک ہیں کہ پورا ملک لوٹ کر بھی ہر وقت اپنی مظلومیت کا
ڈھنڈورا پیٹتے رہتے ہیں ایسا لگتا ہے کہ موجودہ ٹھگوں کا ایک زہنی رابطہ
ماضی کے ان واقعات سے جڑا رہتاہے جب برصغیر میں ٹھگی زوروں پر تھی ، پرانے
وقتوں میں انگریزوں نے بھرپور کوشش کی کہ ٹھگی کی اس برائی کو کسی نہ کسی
طرح سے محدودکردیا جائے ،اس سلسلے میں تاریخ میں آتاہے کہ گورنر جنرل
ہندوستان نے اپنے ایک فوجی افسر کو ٹھگوں کے خاتمے کے لیے مقررکیا،جس نے
ایک منعظم طریقے سے یہ ذمہ داری نبھائی اور 1831سے1837تک ٹھگوں پر مقدمہ
چلا کر انہیں سزادی جن کی سزاؤں میں زیادہ تر ٹھگیوں کو پھانیسوں لٹکادیا
گیا،انگریزوں کے زمانے میں ٹھگوں کی اس قدر بھرمار تھی کی ان سے نمٹنے کے
لیے ایک الگ محکمہ بنانا پڑااور وہ ہی محکمہ آج کل انٹیلی جنس بیورویا آئی
بی کے نام سے جانا جاتاہے،جن ٹھگوں سے اس دور میں خوف وہراس پایا جاتاتھا
وہ ٹھگ بہت خطرناک ہوا کرتے تھے کیونکہ یہ لوگ قافلوں کو لوٹنے کے بعدلوگوں
کو قتل بھی کردیا کرتے تھے یہ ٹھگ مختلف روپ دھارنے کے ساتھ زبردست قسم کے
فنکارانہ صلاحیتوں کے مالک ہوتے تھے شعرو شاعری اور گائکی سمیت جادو اور
کرتب دکھانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے ہر قسم کا سامان انکے پاس ہمہ
وقت موجود رہتا تھا،ان ٹھگوں کی پوری ٹیم(کابینہ) ہوتی تھی جو مخصوص اشاروں
اور طریقوں سے ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت کرتے تھے وہ جس قافلے میں شامل
ہوتے پہلے ان کا اعتبار حاصل کرتے تھے جب یہ ٹھگ سمجھ جاتے کہ قافلے کے لوگ
ان پر مکمل اعتبار اور بھروسہ کرنے لگے ہیں تو وہاں اپنی جارہ داری قائم
کرنے کے بعد اپنا کام دکھادیتے ان ٹھگوں کی لوٹ مار کے بعد یہ ہی کوشش ہوتی
کہ پہلے سے تیارشدہ گھڑوں میں سارے قافلے کو موت کی نیند سلا کر انہیں گھڑے
میں ڈال دیا جائے اورپھر کچھ ایسا کردیا جائے کہ مرنے والوں اور قافلے میں
موجود مال مویشیوں کے نشانات بھی مٹ جائیں اس طرح ان ٹھگوں کو پکڑنا بہت
مشکل بن چکا تھا کیونکہ یہ بہت باریکی اور خفیہ طریقوں سے اپنا کام کرتے
تھے یعنی لوٹ مار سے قبل یہ لوگ اپنے بچاؤ کا اہتمام پہلے سے ہی کرکے رکھتے
تھے ۔ پاکستان بننے کے بعداس قسم کے ٹھگ غیر سرکاری سطح پر تو کبھی کبھار
ٹکرا جاتے تھے لیکن 1985کے بعد یہ ٹھگ سرکار ی سطح پر بھی نمودار ہونا شروع
ہوگئے ۔اور جب جب ان ٹھگوں کو موقع ملا ریاستی وسائل کو دونوں ہاتھوں سے
لوٹایا پھر اپنے سرکاری عہدوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پرائیویٹ ملکی اور غیر
ملکی کمپنیوں سے کمیشن حاصل کیا جن کو زیادہ تر ملک سے باہر جمع کیااگر چہ
ان ٹھگوں کی ملک میں بھی کافی دولت موجود ہے، ماضی کے ان ٹھگوں کی طرح
موجودہ ٹھگوں نے بھی بارہابار اپنے روپ بدلے اور پیسے کو مختلف ناموں سے
یعنی کبھی فالودے والے کبھی ٹھیلے والے کبھی دھوبی تو کبھی ٹیکسی ڈرائیور
کے جعلی اکاونٹس استعمال کرکے لوٹی گئی دولت کو محفوظ بنانے کی کوشش کی
،اور کچھ ڈھگی سیاستدانوں نے ایسے غریب لوگوں کے اکاونٹس میں بھی لوٹا گیا
پیسہ چھپا دیا جو اس دنیا فانی سے کوچ کرچکے تھے ،اس طرح ان بہروپیوں نے
مختلف روپوں کو دھا رکراپنی مالی حیثیت کو فروغ دیا،جیسا کہ برطانوی دور
کاز کر کیا گیا کہ کس طرح سے انہوں نے درجنوں ٹھگیوں کو پھانسی پر لٹکاکر
اس برائی کو ختم کرنے کی کوشش کی اسی طرح چین میں بھی ایسے ٹھگی لوگو ں کو
جنھوں نے کرپشن کی اور عوام کومختلف ہیرا پھیریوں سے تنگ کیا انہیں
پھانیسوں پر لٹکادیا گیا جس سے چین میں آج کرپشن اور چور بازاری کرنے والوں
پر ایک خوف طاری رہتاہے،اس کے برعکس پاکستانی ٹھگ اپنے آپ کو مظلوم اور
کرپشن سے پاک ظاہر کرنے کے لیے ہر وقت نیوز چینلوں پر آکر روتے دھوتے رہتے
ہیں ان ٹھگوں کے ترجمان جو کسی بھی لحاظ سے اپنے ان ٹھگی آقاؤں سے کم نہیں
ہوتے وہ ان ٹھگوں کے جھوٹ کو فروغ دینے کے لیے ان کی ترجمانیاں کرتے رہتے
ہیں،چین کی نسبت پاکستان میں ان ٹھگوں کو پکڑنا بہت مشکل کام ہیں پاکستانی
ٹھگ زلیل ہونا تو قبول کرلیتے ہیں مگر گرفتاری اور اپنا گناہ قبول نہیں
کرتے ۔اس کے علاوہ ہمارے یہاں پرانے ٹھگوں کی کچھ زیادہ ہی عزت کی جاتی ہے
اور ان ٹھگوں کے لیے عوام میں سے ہی کچھ لوگ ان کے لیے ہر وقت مرنے کٹنے کے
لیے تیاررہتے ہیں،قائرین کرام جب ہمیں کوئی کسی ٹھگ کا قصہ سنانے لگتا ہے
تو فوری طورپر ہمارے زہنوں میں مکار وعیار قسم کے لوگوں کا خاکہ سا بن
جاتاہے لیکن اب ایسا نہیں ہوتا کیونکہ وقت بدل گیا ہے آج کل ان مکارک اور
چالاک لوگوں کے خاکوں کی جگہ ملک میں ان حکمرانوں کے خاکے بننے لگے ہیں
جنھوں نے ماضی میں دونوں ہاتھوں سے ملک کولوٹا جو ملک کو گزشتہ کئی دہائیوں
سے باریوں کے حساب سے لوٹتے چلے آئیں ہیں۔ چودھویں صدی کے یہ ٹھگ آج 21ویں
صدی میں بھیس بدل کرہمارے سامنے جلوہ گر ہیں جو کبھی اس ملک کی عوام کو
میٹرو بسیں ، کبھی سستی روٹی، کبھی انڈر پاسسز کبھی ہائی ویز تو کبھی عوام
کو قرضے دینے کے نام پر اپنے اکاوئنٹس کو بھرتے رہے جنھوں نے منی لانڈرنگ
کی بنیادوں کورکھا،جنھوں پاکستان سمیت ملک سے باہر بھی قوم کے پیسے سے
جائیدادوں کو بنایا یہ ماضی کہ وہ ٹھگ ہیں جنھوں نے اپنے ہر دور میں
جمہوریت کا سہارا لیکر قوم کو غیر ملکی قرضوں کی زنجیروں میں جکڑاجنھوں نے
قوم کو روٹی کپڑ ااور مکان دینے کا وعدہ کرکے ان سے سب کچھ چھین لیا اور بے
روزگاری ،لاقانونیت اور مہنگائی کو اس قوم کا مقدربنادیا ہے ، میرا قوم سے
صرف ایک سوال ہے کہ ایسے ٹھگوں کے لیے کیا آخرکیا سزا ہونی چاہیے۔ ؟ کیا ان
ٹھگوں کے لیے پاکستان کا موجودہ قانونی نظام درست ہے ۔؟ یاپھر ان ٹھگوں
(ملکی لٹیروں )کے لیے چین کا وہ قانون نافظ کیا جائے جس نے درجنوں کرپشن
زدہ وزیروں اور افسروں کو پھانسیوں پر لٹکادیا تھا آپ کی فیڈ بیک کا انتظار
رہے گا۔ختم شد
آرٹیکل : حنید لاکھانی
|