بہار کے بھولے بسرے نام: سشانت سنگھ چوہان اور گپتیشور پانڈے

جمہوری سیاست میں عوام کے اندر اپنے رہنماوں کے تعلق سے بہت ساری غلط فہمیاں ہوتی ہیں یاانہیں حسبِ ضرورت پھیلایا جاتا ہے مثلاً مودی جی شیلا نیاس کے بعد سے دھرم گرو بنے ہوئے ہیں۔ اس کے لیے انہوں نے دھرم کا گیان پراپتکر نے کے بجائے اپنا حلیہ بدل لیا ہے اور دھرم کرم کرنے کی جگہ ویڈیو بنانے لگے۔ خیر یہ ان کی سیاسی ضرورت ہے۔ وہ سوچتے ہوں گے کہ لوگ اگلی بار ان کی کارکردگی کے بجائے بزرگی پر رحم کھاکر عقیدت میں پھر سے انتخاب میں کامیاب کردیں گے۔ اس کے بعد ۸۰ سال کی عمر میں جیت ہار برابر ہیہوجائے گی۔ وزیر اعظم کی یہ منوکامنا (دلی خواہش) پوری ہوگی یا نہیں یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ سیاستداں کی ایک خوبی یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ بے وقوف بناتا ضرور ہے لیکن خود احمق نہیں ہوتا ۔ عوام سے خود جوڑنے کے لیے کبھی کبھار ایسا کرنا اس کی مجبوری ہوتی ہے مثلاً لالو پرشاد یادو کے لطیفے یا مودی جی کی سائنس ۔ اس کے ذریعہ عوام کو رہنما سے قربت و اپنائیت محسوس ہوتی ہے ۔ خواص اس سے ناراض ہوتے ہیں لیکن جمہوریت میں دیگر اقلیتوں کی مانند ان کی بھی پروا نہیں کی جاتی۔

سیاست دو طرح کی ہوتی ہے ایک قومی اور دوسرے علاقائی ۔ علاقائی سیاست بازی کے لیے اس کا مرکزی حکومت کے خلاف ہونا ضروری ہوتا ہے ۔ مثلاً نریندر مودی نے گجرات میں اپنا پہلا انتخاب تو خیر فساد کی آڑ میں جیت لیا ۔ اس وقت مرکز بی جے پی کی حکومت تھی لیکن اس کے بعد والے انتخابات وہ مرکز کی کا نگریسی حکومت کے خلاف گجرات کےعزت ووقار کا نعرہ لگا کر جیتتے رہے ۔ ان کے مرکز میں جانے کے بعد صوبائی انتخاب میں بی جے پی نشستوں کی کمی اس وجہ سے بھی رہی ہوگی کہ اس بار مرکز کے خلاف علاقائیت کارڈ بی جے پی کے بجائے کانگریس کے ہاتھ لگ گیا تھا ۔ اس نے اس کا فائدہ اٹھا کر اپنی نشستوں میں اضافہ کرلیا۔ بہار میں بھی جب تک ایل جے پی کے چراغ پاسوان این ڈی اے کے اندر تھے ان کے لیے ’بہار فرسٹ‘ اور ’بہار کا بیٹا‘ والا نعرہ لگانا مشکل تھا لیکن اب آسان ہوگیا ہے۔ یہی فائدہ تیجسوی یادو کو بھی ہے لیکن پچھلی مرتبہ کی طرح نتیش کمار کے لیے اب یہ ممکن نہیں ہے کیونکہ وہ مرکز کے حلیف بنے ہوئے ہیں۔

2015کےانتخاب میں وزیر اعظم نریندر مودی نے نتیش کمار کے بارے میں ایک جملہ کہہ دیا کہ ان کے ڈی این اے میں غداری ہے۔ اس ذاتی ریمارک کو نتیش کمار نے مرکز کے ذریعہ بہاریوں کی توہین قرار دے کر علاقائی عصبیت کو ہوا دے دی ۔ اس کا بھرپور فائدہ مہاگٹھ بندھن (عظیم اتحاد) کو ہوا کیونکہ وہ اس میں شامل تھے۔ اس حقیقت کو بھول گئے کہ بی جے پی کے ساتھ نتیش کمار کا اتحاد ہے وہ سشانت سنگھ راجپوت کی خودکشی کو بھنانے لگے ۔ اس معاملے میں بی جے پی دو قدم آگے چلی گئی اور یہ نعرہ لگا دیا کہ’ ہم نہ بھولیں گے اور نہ بھولنے دیں گے‘۔ عوام کی یادداشت کو تازہ رکھنے کے لیے پہلے سی بی آئی اور اس کے بعد ای ڈی و این سی بی کو اس معاملے میں الجھا دیا گیا۔ اس سے فائدہ یہ ہوا ہے کہ ان کی ہر تفتیش ذرائع ابلاغ میں آتی رہی اور خبرچلتی رہی ۔ ان خبروں کو چٹپٹا بنانے کے لیے ریا چکرورتی کی گرفتاری اور کنگنا رناوت کی نوٹنکی کا استعمال کیا گیا لیکن بات نہیں بنی ۔

بی جے پی کو جب اندازہ ہوگیا کہ کورونا اور سیلاب سے جوجھنے والی عوام اس معاملے میں دلچسپی نہیں لے رہی ہے تو اس معاملے کو لپیٹنے کا فیصلہ کیا گیا ۔ اس کا آسان سا طریقہ یہ تھا کہ ایمس کی خودکشی کا واضح اعتراف کرنے والی رپورٹ کو منظر عام پر لایا گیا ۔ ای ڈی کی رپورٹ سے ریا کو کلین چٹ دی گئی اور این سی بی کا یہ بیان بھی سامنے آگیا کہ ریا سے رابطے میں آنے سے پہلے ہی سشانت سنگھ منشیات کا عادی ہوچکا تھا۔ اس طرح ریا چکرورتی کی ضمانت کو سہل بنا کر اسے رہا کروادیا گیا ا ور گویا سشا نت کی خودکشی کا باب بند کردیا گیا۔ اس چکر میں بیچارے سابق ڈی جی پی (بہار) گپتیشور پانڈے این ڈی اے کی سیاست کا شکار ہوگئے ۔ وہ ایک آرزو مند انسان ہیں ۔ سشانت کے معاملے میں جب انہیں این ڈی اے نے استعمال کرنا شروع کیا تو انہیں اندازہ نہیں ہوا کہ یہ کاغذ کی کشتی کسی بھی وقت ڈوب بھی سکتی ہے۔ بی جے پی کے دھن دولت کی بنیاد پر ملنے والی تشہیر سے پانڈے جی بہت خوش ہوئے ۔ انہوں نے سوچا کہ سشانت کی خودکشی ان کا بیڑا پار لگا دے گی لیکن جب سشانت معاملے کو این ڈی اے نے ڈبو دیا تو اس کے سہارے تیرنے والے پانڈے کیسے بچ پاتے ؟ ان کا بیڑہ بھی غرق ہوگیا ۔ گپتیشور پانڈے براہمنوں کے اکثریتی علاقہ بکسر سے آتے ہیں ۔

سیاست میں آنے کی خاطر ان کے سامنے دومتبادل تھے کہ آیا بی جے پی میں شامل ہوں یا جنتا دل یو میں جائیں۔ ان کے علاقہ میں بی جے پی کے رکن اسمبلی اشوینی کمار چوبے کا بڑا اثر ہے۔ اس لیے پانڈے جی نے سوچا ہوگا کہ اشوینی کے آگے تو دال گلے گی نہیں اس لیے ازخود ملازمت سے سبکدوش ہوکر نتیش کمار کا دامن تھام لیا ۔انہوں نے یہ خیال نہیں کیا کہ اشوینی کمار اگر ان کو اپنا حریف سمجھ لیں تو پتاّ کاٹ بھی سکتے ہیں اور یہی ہوا۔ اشوینی کمار نے نہ صرف بکسر کی نشست جے ڈی یو چھین کر اپنے حصے میں لے لی بلکہ گپتیشور کو ذلیل کرنے کے لیے ایک سابق حولدار پرشورام چترویدی کو میدان میں اتار کر یہ بتا دیا کہ سیاست کے دنگل میں ان حیثیت ایک معمولی سپاہی سے بھی کم ہے۔ گپتیشور پانڈے کی یہ رسوائی سیاست کے میدان میں پہلا نشانِ عبرت ہے۔ کہاں تو پانڈے جی یہ دعویٰ کررہے تھے کہ وہ بہار کی 25میں سے کسی بھی سیٹ پر جیت سکتے ہیں اور کہاں انہیں بکسر تک سے محروم کردیا گیا۔

ملازمت اور سیاست دونوں سے ہاتھ دھو بیٹھنے کے بعد بددل ہوکر پانڈے نے فیس بک کی دیوار پر لکھا کہ میں اپنے بے شمار خیر خواہوں کے فون سے میں پریشان ہوں ۔ ان کی تشویش کو سمجھتا ہوں۔ میرے سبکدوش ہونے کے بعد سب کو توقع تھی کہ میں لڑوں گا لیکن میں اس بار اسمبلی کا انتخاب نہیں لڑ رہا ہوں ۔ اس میں پست ہمت یا مایوس ہونے کی کوئی بات نہیں ۔ حوصلہ رکھیں میری زندگی کشمکش میں ہی گزری ہے۔ میں عمر بھر عوام کی خدمت میں رہوں گا ۔ برائے کرم صبر کریں اور مجھے فون نہ کریں ۔ بہار کی عوام کے لیے میری زندگی وقف ہے۔ اپنی جائے پیدائش بکسر کی سرزمین اور وہاں کے سبھی ذات و مذہب کے بڑے چھوٹے بھائی بہنوں ، ماوں اور نوجوانوں کو میر اپیر چھو کر پرنام ۔ اپنا پیار اور آشیرواد بنائے رکھیں ۔اس پیغام کے ہر لفظ سےمایوسی ٹپک رہی تھی اس کے باوجود انہوں نے دوسرے دن ایک پریس کانفرنس کرکے اپنا لہجہ بدل دیا ۔

پانڈے جی نے پریس کانفرنس کی ابتدا میں کہا کہ مجھے پتہ ہے آپ سب ایک ہی سوال کریں گے لیکن میری اپنی بات یہ ہے کہ میرے قبل از وقت سبکدوش ہونے اور انتخاب لڑنے میں کوئی تعلق نہیں ہے۔ پانڈے جی اگر پہلی شب فیس بک پر مذکورہ احساسات نہیں بیان کرتے تو کچھ بھولے بھالے لوگ ان کی بات کا یقین کرلیتے لیکن ا س کےبعد ان کی کذب گوئی گواہی دے رہی ہے کہ ایک کامیاب سیاستداں بننے کے سارے اوصاف ان میں موجود ہیں ۔ انہوں نے بتایا کہ وہ اس بار انتخاب نہیں لڑیں گےلیکن این ڈی اے کے ساتھ ہیں اور دونوں جماعتوں کے لیے اپنے زیر اثر علاقے میں انتخابی مہم چلائیں گے۔ ویسے اگر ان جماعتوں کو ان کے اثرات کا یقین ہوتا تو وہ ٹکٹ ضرور تھما دیتے۔ انہوں نے ایک سعادتمند سیاستداں کی طرح کہا پارٹی جو ذمہ داری مجھے سونپے گی میں اسے ایمانداری سے نبھاوں گا۔

دورانِ کانفرنس مستقبل میں انتخاب لڑنے کے امکان پر کیے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے وہ چند منٹ قبل کیا جانے والادعویٰ بھول گئے کہ ان کی سبکدوشی کا انتخاب سے کو ئی تعلق نہیں ہے اور کہہ دیا کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ جو آپ چاہتے ہیں ویسا نہیں ہوتا ۔ اپنے من کی بات کہتے ہوئے انہوں نے کہا ’ میں اب ایک سیاسی جماعت کا رکن ہوں اور انتخاب لڑ سکتا بلکہ ضرور لڑوں گا‘۔ پانڈے جی کا ایک ہی پریس کانفرنس میں متضاد بیانات اس بات کا ثبوت ہیں کہ ابھی گپتیشور پانڈے کو بہت کچھ سیاسی تربیت و مہارت درکار ہے اور انہیں ٹکٹ نہیں دے کر این ڈی اے نے کوئی غلطی نہیں کی ۔ اس سے قبل بی جے پی نے سابق پولس کمشنر کو دہلی میں وزیر اعلیٰ بناکر جو غلطی کی تھی اس کی قیمت ابھی تک چکا رہی ہے۔ اس منہ زور پولس والی کی مصیبت سے بچنے کے لیے انہیں دہلی سے بعید ترین پدو چیری کا گورنر بنا کر روانہ کردیا گیا مگر وہ اب بھی کوئی نہ کوئی مشکل کھڑی رہتی ہے۔

پانڈے جی سمجھ میں اب یہ بات بھی سمجھ میں آ رہی ہوگی کہ پولس کی وردی میں نامہ نگار جس طرح ان کے ہر بیان کو بلاچوں چرا لکھ کر شائع کردیا کرتے تھے اور الٹا سوال کرنے سے گریز کرتے تھے اب وہ کیفیت بدل چکی ہے۔ ان سے سوال کیا گیا کہ میڈیا میں ان کے بیانات کافی زیر بحث آئے ۔ ٹی وی چینلس پر ان کے بیانات کو اگر سراہا گیا تو وہ تنقید کا نشانہ بھی بنے اس پر کیا تاثر ہے؟ اس کے جواب میں وہ بولے کہ انہوں نے کوئی غلطی نہیں کی ۔ انہیں کوئی افسوس نہیں ہے۔ مہاراشٹر کے ڈی جی پی اور ممبئی پولس نے ان کے افسران کے ساتھ جیسا برتاو کیاتھا ، اس کے بعد میڈیا میں بولنے کے علاوہ کوئی چارۂ کار نہیں تھا ۔ ممکن ہے انہیں اپنے ذرائع ابلاغ میں جانے کا افسوس نہ ہو لیکن اس کے بعد قبل از وقت استعفیٰ دینے کا اور بی جے پی کے بجائے جے ڈی یو میں جانے کا افسوس ضرور ہوگا ۔ اس بار اگر این ڈی اے اقتدار سے محروم ہوجاتی ہے جس کا قوی امکان ہے تو اس افسردگی میں مزید اضافہ ہوجائے گا ۔ اس لیے کہ تب تو ان کی حالت ’نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم ‘ کی سی ہوجائے گی ۔

 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1228129 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.