ارنب : آج سے پہلے وہ کتنا مغرور تھا، لٹ گئی سب ڈھٹائی مزا آ گیا

مشہور کہاوت ہے ’بکرے کی اماں کب تک خیر منائے گی ایک نہ ایک دن تو چھری کے نیچے آئے گی‘۔ ایسالگتا ہے فی الحال بی جے پی اپنے بکرے ارنب کی بلی چڑھا کر مگر مچھ کے آنسو بہا رہی ہے۔ مودی اور ارنب کی یہ داستانِ عشق اس وقت شروع ہوئی جب وزیر اعظم پر دنیا کی سیر کا جنون سوار تھا لیکن عالمی ذرائع ابلاغ سےتعریف و توصیف کی توقع پوری نہیںہورہی تھی ۔ اس زمانے میں مودی جی نے خود اپنے ملک میں ایک بین الاقوامی معیار پر پورا اتر نے والے ٹیلی ویژن چینل کی ضرورت کا اظہار کیا تھا۔ ایسا چینل جس کاعزت و وقاردنیا تسلیم کرے مگر وہ ان کی خدمت بجالائے ۔ ارنب گوسوامی تب تک این ڈی ٹی وی سے نکل کر ٹائمز ناو میں مدیر اعلیٰ کے عہدے پر فائز ہوگئے تھے ۔ مودی کی مانندارنب کی بھی ایک جارحانہ صحافت کی شبیہ تھی ۔ ایسے میں میڈیا سے آنکھیں چرانے والے وزیر اعظم نریندر مودی نے ٹائمز ناو پر انٹرویو دینے کی درخواست قبول کرلی ۔ اس انٹرویو کے دوران ناظرین کو ایک نیا ارنب گوسوامی نظر آیا۔ شیر کی طرح دہاڑنے والا صحافی مودی کے سامنے بھیگی بلی ہوا تھا۔ بھوکے بھیڑئیے کی مانند مخاطب پر پل پڑنے والانامہ نگار تلوے چاٹ رہا تھا۔ بس پھر وہی ہوا جس کا اظہار فنا بلند شہری نے اپنی مشہور غزل میں کیا ہے؎
میرے رشک قمر تو نے پہلی نظر جب نظر سے ملائی مزا آ گیا
برق سی گر گئی کام ہی کر گئی آگ ایسی لگائی مزا آ گیا

مودی جی کو ارنب گوسوامی کے اندراپنے خوابوں کے چینل کا شہزادہ نظر آگیا ۔ ایک سوال کے جواب میں مودی جی نے بلاواسطہ ارنب کو اس چینل کا مقصد بتادیا۔ ارنب نے ان سے پوچھا کہ آخر وہ اتنے زیادہ غیر ملکی دورے کیوں کرتے ہیں تو مودی کا جواب تھا’’ دنیا میرے بارے میں نہیں جانتی تھی۔ دنیا یہ جاننا چاہتی تھی کہ ملک کا سربراہ کون ہے؟ اگر کوئی ذرائع ابلاغ کے ذریعہ یہ جاننے کی کوشش کرے تو وہ مایوس ہوجائے گا کہ کون سا مودی حقیقی ہے۔ اگر ایسا ہوتو اس میں ملک کا نقصان ہے‘‘ ۔ وزیر اعظم کے اسی قلق نے ارنب کا ستارہ چمکا دیا ۔ ویسے مودی نے اس کا دائرہ اپنی ذات سے وسیع کرکے یہ بھی کہا کہ ’’ دنیا کے لیے ہندوستان پر اعتماد کرنے کے لیے مودی کی شخصیت کو روڑہ نہیں ہونا چاہیے۔ اس لیے اگر عالمی رہنماوں سے ذاتی طور پر ملاقات کرکے تبادلہ خیال نہ کروں تو وہ کیسے جانیں گے کہ فی الحال ملک کی باگ ڈور کس کے ہاتھ میں ہے؟اس لیے یہ میرے لیے بہت ضروری ہے ، کیونکہ میرا تعلق کسی سیاسی گھرانے سے نہیں ہے ۔ مجھے عالمی رہنماوں سے ملنے کا موقع نہیں ملا ہے۔ ایک طرف وزیر اعظم نریندر مودی کا یہ احساسِ محرومی، اس کے ساتھ دنیا میں مقام بنانے کی آرزومندی اور پھر ارنب کی نازبرداری نے دورانِ انٹرویو اس شعر(مع ترمیم) کا سا سماں بنادیا؎
آنکھ میں تھی حیا ہر ملاقات پر سرخ عارض ہوئے وصل کی بات پر
اس نے شرما کے میرے جوابات پہ ایسے گردن جھکائی مزا آ گیا

ارنب گوسوامی کے لیے یہ ایک بہترین موقع تھا جبکہ اس کی اور ہندوستان کی سب سےصاحبِ ثروت و اقتدار جماعت کی ضرورتیں یکجاہو گئی تھیں۔ وسائل کی کوئی کمی نہیں تھی اس لیے ارنب گوسوامی ٹیلی ویژن کی دنیا کے بہترین صحافیوں سے اشتراک ِ عمل کرکے الجزیرہ جیسا ایک معیاری چینل سرزمین ہند سے جاری کرسکتے تھے جس کی اعتباریت کا لوہا عالمِ صحافت تسلیم کیاجاتا لیکن یہ ’ناداں چند کلیوں پر قناعت کرگیا‘۔ کون جانے یہ ارنب کی خود پسندی تھی یا احساس کمتری کہ اس نے بلا شرکت غیرے اپنا جہان آباد کرنے کی کوشش کی اور چاپلوسی میں اس قدر نیچے گر گیا کہ صحافتی برادی کو اسے اپنی جماعت سے خارج کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ مذکورہ انٹرویو میں ظریفانہ انداز سے وزیر اعظم نے کہا تھا ’’مجھے لطیفہ سنانے میں ڈر لگتا ہے ۔ اس 24/7نیوز چینل کے زمانے میں کوئی بھی ایک معمولی لفظ کو اٹھا کر بڑا ہنگامہ کھڑاکرسکتا ہے۔میں پہلے لطیفے سناتا تھا لیکن اب محتاط نہیں بلکہ خوفزدہ ہوگیا ہوں اس لیے عوامی زندگی سے ظرافت کا خاتمہ ہوگیا ہے ‘‘ ارنب اس قاعدہ کلیہ کو گرہ سے باندھ لیا اوراپنے چینل ری پبلک پر باتوں کا بتنگڑ بناکراپنے آقا مودی کے دشمنوں کو خوف زدہ کرنا شروع کردیا ۔ سرکار ی خوشنودی کے حصول میں ارنب پر فنا کی غزل یہ شعر معمولی ترمیم کے ساتھ صادق آ گیا؎
اور ارنب کا ایمان بک ہی گیا دیکھ کر حسن مودی پگھل ہی گیا
آج سے پہلے وہ کتنا مغرور تھا لٹ گئی سب ڈھٹائی مزا آ گیا

مودی جی کے انٹرویو سے ارنب نے ایک اور برائی یہ سیکھی کہ کبھی اپنا قصور تسلیم نہیں کرو بلکہ ہمیشہ مخاطب کو سارے مسائل کے لیے ذمہ دار ٹھہرادو۔ مودی جی سے ان کی پارٹی میں موجود فرقہ پرستوں کے بارے سوال کیا گیا تو وہ بولے سب سے پہلے تو میں اس بات میں یقین رکھتا ہوں اورضروری سمجھتا ہوںکہ قوم کو ترقی کےمدعا پر آگے بڑھنا چاہیے ۔ میں ذرائع ابلاغ کو کہنا چاہتا ہوں کہ وہ ایسے (فرقہ وارانہ) بیانات دینے والوں کو ہیرو نہ بنائے۔ آپ لوگ انہیں اتنا بڑا کیوں بناتے ہیں؟ میں ان لوگوں کا بیان ٹیلی ویژن پر دیکھتا ہوں جن کی میں نے شکل تک نہیں دیکھی لیکن وہ ٹی وی پر ترجمان بن جاتے ہیں ۔ وزیر اعظم نے جس کام سے منع کیا تھا ایک شریر بچے کی مانند ارنب اسی کو اپنالیا۔ مودی کی مشورے کے ساتھ یہ معاملہ ہواکہ ؎
جام میں گھول کر حسن کی مستیاں چاندنی مسکرائی مزا آ گیا
چاند کے سائے میں اے مرے ساقیا تو نے ایسی پلائی مزا آ گیا

ارنب گو سوامیمذکورہ لوگوں کو اہمیت دینے کے بجائے خود فرقہ پرستوں کا سردار بن گیا ۔ وہ بی جے پی کی حمایت میں اس کے ترجمانوں کو بھی شرمندہ کرنے لگا اور ٹیلی ویژن کی دنیا میں ایسا طوفان بدتمیزی برپا ہوگیا کہ ناظرین ’بگ باس ‘ کی لڑائی پر ٹیلی ویژن کی سیاسی بحث کو ترجیح دینے لگے۔ ارنب کی دیکھا دیکھی زی ، اے بی پی ، سی این این اور آج تک سبھی اس دوڑ میں شامل ہوگئے اور دیکھتے دیکھتے خبروں کے چینلس دنگل میں تبدیل ہوگئے۔ ٹی آر پی بڑھانے کی ہوڈ میں یہ لوگ باولے ہوگئے۔ شور شرابہ کے بادل ہر سو چھاگئے اور بہتان تراشی کی مینہ برسنے لگی ۔ بات بڑھی تو نوبت مارپیٹ تک پہنچی اور گالی گلوچ کا سیلاب آگیا۔ ان چینلس میں سے ہر کوئی اپنے حریف کی ظلم و زیادتی میں پیچھے چھوڑ دینے پر تل گیا۔مرکزی حکومت کے لیے اس سے اچھی بات کیا ہوسکتی تھی کہ دوچار کو چھوڑ کر سارے چینلس دن رات سرکار کی وفاداری میں بھونکنے لگے۔ ٹیلی ویژن کی دنیا میں برپا ہنگامہ پر فنا بلند شہری کا یہ شعر ترمیم کے ساتھ دیکھیں ؎
نشہ چینل پہ انگڑائی لینے لگا بزم پینل میں بہتان لگنے لگا
میکدے پہ برسنے لگیں گالیاں جب گھٹا گھر کے آئی مزا آ گیا

اس پاپ کےگڑھے کو ویسے تو سب نے بھرا لیکن وہ ارنب کے سر پر پھوٹا۔ سشانت سنگھ راجپوت کی آڑ مرکزی حکومت نے سی بی آئی ، ای ڈی اور نارکوٹک کنٹرول بیورو کی مدد سے فلمی دنیا کے ان لوگوں کو چن چن کر لپیٹا کہ جنھوں نے حکومت وقت کے خلاف جے این یو یا سی اے اے کی تحریک میں لب کشائی کی تھی لیکن بی جے پی کو درمیان میں سشانت کے غیر موثر ہونے کا احساس ہوگیا اور وہ کھیل بند کروادیاگیا ۔ اِ دھر سشانت کا معاملہ تھما اُدھر ٹی آر پی کی آفت آئی ۔ اس لیے جب دوسری مرتبہ ارنب نے سپریم کورٹ کی جانب دوڑ لگائی تو اسے ممبئی ہائی کورٹ کا راستہ دکھا دیا گیا ۔ ممبئی ہائی کورٹ تو اس کے انتظار میں ہی بیٹھا تھا۔ اس نے ارنب کی ایسی در گت بنائی کہ اسے چھٹی کا دودھ یاد آگیا۔ ممبئی پولس ہاتھ دھو کر اس کے پیچھے پڑی ہوئی تو اور الگ الگ مقدمات میں الجھا رہی تھی ۔ سشانت کے دوست سندیپ سنگھ نے ہتک عزت کا دعویٰ کرکے ۲۰۰ کروڈ بھرپائی مانگ لی تھی ۔ اب ارنب چہار جانب سے گھرِ چکا تھا ۔ ایک طرف پولس کی بدنامی تھی۔ دوسری طرف ٹی آر پی کی رشوت خوری تھی ۔ تیسری جانب بے لگام میڈیا ٹرائل اور چوتھی جانب رائے گڑھ کے آرکٹیکٹ انوئیے نائک کو خودکشی پر مجبور کرنے کا معاملہ جس پر پولس نے اسے گرفتار کرلیا اور رائے گڑھ سیشن کورٹ نے عدالتی حراست میں بھیج دیا۔ مرکزی حکومت فی الحال ارنب کی گرفتاری پرنہ صرف اظہار تاسف کررہی ہے بلکہ خوب واویلا بھی مچارہی ہے ۔ اس لیے اس کی دکھ بھری داستان پر یہ شعربھی ترمیم کے ساتھ صادق آگیا کہ ؎
شاہ جی شکر ہے آج بعد فنا اس نے رکھ لی مرے پیار کہ آبرو
اپنے ہاتھوں سے اس نے مری قبر پہ چادر گل چڑھائی مزا آ گیا

 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1227147 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.