ٹرمپ اور مودی : خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو

’ کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے‘ اورامریکی انتخاب کے نتائج ظاہر ہوئے جس میں جو بائیڈن اور کاملا ہیرس کا میابی سے ہمکنار ہوگئے ۔صدر ڈونلڈ ٹرمپ ویسے تو ناکامی سے دوچار ہو نے کے باوجود ضد پر اڑے ہوئے ہیں کہ جان جائے پر کرسی نہ جائے۔ وہ بیک وقت سڑکوں پر مظاہرے اور عدالت میں چارہ جوئی کرنا چاہتے ہیں تاکہ کسی طرح اپنے اقتدار کو بچا سکیں ۔ ایسے میں ٹرمپ کی جان کے دوسرے قالب مودی کو کیسے بھولا جاسکتا ہے؟ دنیا کے کسی رہنما کو ٹرمپ نے یہ اعزاز نہیں بخشا کہ وہ ان کے لیے تشہیر کرے اور نہ کسی کو یہ توفیق ہوئی کہ وہ غیر ملکی انتخاب میں آلۂ کار بنے ۔ یہ سعادت صرف اور صرف وزیر اعظم نریندر مودی کے لیے مخصوص ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ اعزاز و سعادت ہے یا توہین و تضحیک ؟ کیا کسی پردھان منتری کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ غیر ملکی سربراہ کا پرچار منتری بن جائے ؟ ہر گز نہیں لیکن وزیر اعظم نریندر مودی اس بات کو نہیں سمجھ پائے کہ یہ نہ صرف ان کے ذاتی بلکہ قومی وقار کے بھی خلاف ہے۔

امریکہ میں جاکر وہاں رہنے اوربسنے والے ہندوستانی نژاد عوام سے خود ان کے صدر کا تعارف کرانا ایک نہایت احمقانہ حرکت تھی اس لیے کہ وہ لوگ اپنے صدر کو مودی سے اسی طرح زیادہ جانتے ہیں جیسے ہم اپنے وزیر اعظم سے واقف ہیں ۔ اس سے آگے بڑھ کر یہ نعرہ لگا نا کہ ’’ اب کی بار ،ٹرمپ کی سرکار‘ ایک ایسا اور مضحکہ خیز کارنامہ تھا جس کی توقع وزیر اعظم نریندر مودی کے سوا کسی اور سے نہیں کی جاسکتی ۔ یہاں پر رک کر اس سوال پر غور کرنا چاہیے کہ آخر ان سے حرکت کیونکر سرزد ہوگئی؟ نریندر مودی نے جب اقتدار سنبھالا ہے وہ پردھان منتری کم اور پرچار منتری زیادہ ہیں ۔ قومی انتخاب میں ان کی شرکت قابل فہم ہے لیکن وہ جتنا زیادہ وقت اس پر صرف کرتے ہیں یہ ان کے عہدے سے میل نہیں کھاتا ۔ ایسا لگتا ہے کہ انتخاب کا اعلان ہوتے ہی ان کے سارے کام کاج بند ہوجاتے ہیں ۔ وہ قومی سربراہ کی حیثیت سے اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہوجاتے ہیں حالانکہ اس دوران بھی بدستور وزیر اعظم کی حیثیت سے تنخواہ جاری رہتی ہے ۔

وزیر اعظم کوقومی خزانے سے ساری سرکاری مراعات عہدے کے سبب ملتی ہیں اس لیے انہیں پہلے اپنا فرضِ منصبی ادا کرنا چاہیے اور اس سے کچھ وقت نکال کر انتخابی مہم میں حصہ بھی لیا جاسکتا ہے جیسا کہ سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ کیا کرتے تھے۔ مودی جی کے معاملے میں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان پر گاوں گاوں شہر شہر جانے کاایک جنون سوار ہوجاتا ہے ۔ وہ دیوانہ وار تقریر پر تقریر فرماتے پھرتے ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پوری پارٹی میں ان کے سوا کوئی ایسا موجود ہی نہیں ہے جو انتخاب میں کا میابی دلا سکے۔وزیر اعظم صرف ایوان پارلیمان کے انتخابات پر اکتفاء نہیں کرتے بلکہ صوبائی الیکشن میں لنگوٹ کس کر کود جاتے ہیں ۔ بہار کے گزشتہ انتخاب میں انہوں نے 31 ریلیوں سے خطاب کیا اور اس میں اپنے 10 دن صرف کیے اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کس طرح وقت ضائع کیا گیا۔ محنت و مشقت کے عوض کل 53 نشستیں ہاتھ آئی اور ان کی کامیابی کا اسٹرائیک ریٹ صرف 27 فیصد رہا ۔ اس سے اندازہ کیاجاسکتا ہے کہ وزیر اعظم کے تام جھام اور تحفظ پر قومی خزانے کا کس قدر روپیہ خرچ ہوا ہوگا۔ قابلِ غور پہلو یہ ہے کہ ٹیکس کی دولت کے اس اصراف سے عوام کو کیا ملا ؟ اس کے علاوہ مودی جی کے حصے میں جو رسوائی آئی وہ اضافی ہے ۔

بہار کے حالیہ انتخاب میں کورونا کی وباء اور عمر کے دباو کی وجہ سے مودی جی پہلے جیسی مشقت نہیں اٹھا سکے پھر بھی انہوں نے 4دن لگا کر 12جلسوں سےخطاب کیا یعنی جو وزیر اعظم دہلی میں کورونا کے مریضوں کا حال چال معلوم کرنے کے لیے گھر سے نہیں نکلا وہ سوشیل ڈسٹنسنگ کو بالائے طاق رکھ کر بہار پہنچ گیا ۔ انتخابی کامیابی و ناکامی سے بے نیاز مودی جی ایک ایسی مہم میں جٹے رہتے ہیں جو ان کا نہیں بلکہ ان کی پارٹی کے ذمہ داروں کا ہے ۔ وزیراعظم کا حال یہ ہے کہ وہ اپنے حلقۂ انتخاب کے رائے دہندگان کے مسائل کی جانب توجہ نہیں دیتے ، لے پالک گاوں کے لوگ بنیادی سہولیات کے لیے ترستے رہتے ہیں لیکن وزیر اعظم کو اِ دھر اُدھر گھوم کر بھاشن کرنے سے فرصت نہیں ملتی ۔ ایسا لگتا ہے کہ ان کا یہ شوق اب عادت بن گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب عادت سے مجبور مودی جی کو ڈونلڈ ٹرمپ نے یاد کیا تو انہوں نے آو دیکھا نہ تاو ہیوسٹن پہنچ گئے ۔

مودی جی کے لیے امریکہ جا کر ’ہاوڈی مودی ‘پروگرام میں شرکت کرنا ایسا ہی تھا جیسے پٹنہ یا احمد آباد میں تقریر فرمانا ۔ وہاں جاکر انہوں نے نہ صرف ’اب کی بار ٹرمپ کی سرکار‘ کا نعرۂ مستانہ بلند کیا بلکہ یہ بھی کہا کہ ’ہندوستان میں سب چنگا ہے‘۔ٹرمپ کی ہارکے بعد لوگ سوچ رہے ہیں کہ کیا واقعی ملک میں چنگا بھی ہے یا وہ بھی مودی جی کی کھوکھلی جملہ بازی تھی ۔مودی جی نے صرف امریکہ میں جاکر ٹرمپ کی مقبولیت بڑھانے کی کوشش نہیں کی بلکہ انہیں احمد آباد بلا کر اپنا قد بڑھانے کی سعی بھی کی ۔ یہ کیسی ذہنی غلامی ہے کہ جو کسی غیر ملکی سربراہ کی مدد سے اپنا قد بڑھاتی ہے۔ ہیوسٹن کے پروگرام کا نام ایک امریکی ٹی وی سیریل سے مستعار تھا۔ احمد آباد کے جشن کا نام بالی ووڈ کی فلم سلام ممبئی سے ادھار لے کر نمستے ٹرمپ کردیا گیا تھا۔ اس پروگرام کے راستے سے جھگی جھونپڑیوں کو چھپانے کے لیے دیوار بنائی گئی اور کل ملا کر اس پر 100کروڈ روپیہ پھونک دیا گیا ۔ وہی رقم اگر کچی بستیوں پر صرف کی جاتی تو دیوار کے بجائے گھر تعمیر ہوجاتے جنھیں شرم سے چھپانے کے بجائے فخر سے دکھایا جاتا لیکن پھر ٹرمپ کیسے خوش ہوتے ۔ انتخاب سے قبل اپنےعوام کو خوش کرنے کا وعدہ اور کامیابی کے بعد غیروں کی خوشنودی حاصل کرنا موقع پرستی نہیں تو کیا ہے۔
نمستے ٹرمپ کا پروگرام ۳ گھنٹے چلا تھا ۔ اس کے دوران ۷ مرتبہ مودی نے ٹرمپ کے ساتھ معانقہ کیا ۔ اتنی مرتبہ تو وہ شاہ جی اور اڈوانی جی سے بھی گلے نہیں ملے ہوں گے۔ اپنے مختصر سے خطاب میں ۵ مرتبہ وزیر اعظم نے نمستے ٹرمپ کہا اور ۲۱ بار ٹرمپ کا نام لیا ۔ اس کے جواب میں ۱۵ مرتبہ ٹرمپ نے بھی مودی کا نام لے کر ذکر کیا لیکن اس سارے تماشے حاصل کیا ہوا؟ ٹرمپ کو ہارنا تھا سو ہار گئے ۔ مودی جی جومہاراشٹر کے دیویندر اور جھارکھنڈ کے داس کو ہار سے نہیں بچا سکے وہ ٹرمپ کو کیا بچاتے ؟ ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار جو بائیڈن امریکی انتخابات 2020 میں کامیابی کی خبر نشر ہونے کے بعد عالمی رہنماؤں کی جانب سے جو بائیڈن اور نو منتخب نائب صدر کاملا ہیرس کو مبارک باد دینے کا سلسلہ جاری ہوگیا۔برطانیہ، فرانس، جرمنی، یوکرین، پاکستان اور کینیڈا سمیت کئی ممالک کے رہنماؤں نے مبارک باد دی ہےلیکن ان میں بہت تاخیر سے نہایت مختصر پیغام وزیر اعظم نریندر مودی نے دیا ۔

پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے اپنے ٹوئٹ میں کہا کہ جو بائیڈن اور کاملا ہیرس کو فتح مبارک۔ میں ان کے ساتھ کام کرنے کا خواہش مند ہوں۔ افغانستان اور خطے میں امن کے لیے بھی ہم امریکہ کے ساتھ تعاون جاری رکھیں گے۔اس کے مقابلے وزیرِ اعظم نریندر مودی نےلکھا کہ بھارت اور امریکہ کے درمیان تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے بائیڈن کا بطور نائب صدر کام بہت اہم اور بیش قیمت تھا۔اس پیغام کو پڑھتے ہوئے یہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ اگر نائب صدر کی حیثیت سے بائیڈن نے اہم اور بیش قیمت خدمات انجام دی تھیں تو ان کو ہرانے کے لیے مودی جی نے اپنا تن ، من اور دھن کیوں جھونک دیا۔ اسی کے ساتھ انہوں نے لکھا کہ وزیرِ اعظم مودی نے نائب صدر کاملا ہیرس کی بھی تعریف کی۔ نریندر مودی نے ہیرس کی کامیابی کوہندوستانی نژاد امریکیوں کے لیے "بے حد فخر کی بات" قرار دیا ۔وزیرِ اعظم نے لکھا وہ پرامید ہیں کہ کاملا ہیرس کی حمایت اور رہنمائی سے امریکہ اورہندوستان کے تعلقات مزید مضبوط ہوں گے۔

کیا مودی جی کو اب پتہ چلا کہ کاملا ہیرس ہندوستانی نژاد ہیں اور اگر ایسا تھا تو اٹھتے بیٹھتے بھارت ماتا کی جئے کا نعرہ لگانے والوں نے اپنی بیٹی کو ہرانے کی خاطر ایڑی چوٹی کا زور کیوں لگا دیا؟ مودی جی نے بڑی صفائی سے کاملا کی کامیابی کو ہندوستانیوں کے لیے نہیں بلکہ ہندوستانی نژاد امریکیوں کے لیے قابلِ فخر بتایا کیونکہ ان کا ہندوتوا مخالف ہونا جگ ظاہر ہے اور مستقبل میں وہ حکومت ہند کے ذریعہ انسانی حقوق کی پامالی پر سوال اٹھا سکتی ہیں ۔ ویسے بھی مودی اور ان کئ بھکتوں نے جس طرح ان کی مخالفت کی ہے وہ اس کو آسانی سے نہیں بھول پائیں گی۔ مودی جی کا یہ بیان اگتے سورج کے آگے سجدہ ریز ہوجانے والی موقع پرستانہ سیاست کا بہترین نمونہ ہے ۔ مودی جی نے تو خیر ٹرمپ سے اپنی طوطا چشمی نظریں پھیر لیں لیکن ان کے دوست اسرائیل کے وزیرِ اعظم بینجمن نیتن یاہو اب بھی ٹرمپ کیتعریف وتوصیف کررہے ہیں ۔

نیتن یاہونے بائیڈن اور کاملا ہیرس کو ممکنہ فتح پر مبارک باد دیتے ہوئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا شکریہ بھی ادا کیا ہے۔انہوں نے اپنے ایک ٹوئٹ میں لکھا، "شکریہ ڈونلڈ ٹرمپ! آپ نے اسرائیل اور میرے ساتھ دوستی نبھائی۔ یروشلم اور گولان کو تسلیم کیا، ایران کے خلاف کھڑے ہوئے، امریکہ اور اسرائیل کے اتحاد کو نئی بلندیوں پر پہنچایا اور تاریخی امن معاہدے کرائے۔" اس فراخدلی کے ساتھ خراج عقیدت پیش کرنے کے بعد جو بائیڈن کو مخاطب کرکے انہوں نے کہا کہ آپ کے ساتھ 40 برسوں سے بہت اچھے ذاتی تعلقات رہے ہیں اور میں جانتا ہوں کہ آپ اسرائیل کے بہترین دوست ہیں۔ میں اسرائیل اور امریکہ کے اتحاد کو مزید مضبوط بنانے کے لیے آپ دونوں کے ساتھ کام کرنا چاہتا ہوں۔ اس طرح احسانمندی میں یاہو نے مودی کو پیچھے چھوڑ دیا ۔

بائیڈن کی کامیابی پر ویسے تو سونیا گاندھی اور راہل گاندھی نے بھی اپنے پیغامات بھیجے مگر کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے رہنما اتل کمار انجان کا تبصرہ خاصہ دلچسپ ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ٹرمپ کی اس شکست نے دنیا کے سیاسی ، معاشی اور معاشرتی مساوات کے لئے ایک نئی راہ کھول دی ہے۔ ڈیموکریٹ پارٹی کے جوبائیڈن کی فتح تنگ نظری اور نسل پرستی کے رجحانات کی شکست ہے۔سی پی آئی نےاپنے ردعمل میں کہا کہ سبکدوش ہونے والے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی شکست نہ صرف تعصب اور نسل پرستی کی ہار ہے بلکہ ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی کی ذاتی شکست بھی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ مودی جی نے سوچا ہی نہیں تھا کہ ٹرمپ ہار بھی سکتے ہیں اس لیے ان پر اپنی بازی لگا دی ۔ اسی طرح کی خوش فہمی ان کو خود کے بارے میں بھی ہے، بعید نہیں کہ 2014 میں یہ غلط فہمی بھی دور ہوجائے اور وہ غالب کا یہ شعر پڑھتے ہوئے نظر آئیں (ترمیم کے ساتھ)
ٹرمپ ہوسٹن میں اکیلا ہے مجھے جانے دو
خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1228164 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.