اسلامیانِ برصغیر دورِ غلامی میں زبوں حالی کا شکا رتھے
اور انہیں یہ بھی معلوم نہ تھا کہ اْن کی منزل کہاں ہے۔ انگریز حکومت اور
ہندو بالادستی نے انہیں قومی اور سماجی سطح پر محکوم بنا رکھا رکھا تھا۔
اِن حالات میں اسلامیہ کالج لاہور کی بزمِ شبلی سے خطاب کرتے ہوئے 1915ء
میں سب سے پہلے چودھری رحمت علی نے اسلامیانِ ہند کے لئے الگ مملکت کو اْن
کے مسائل کا حل قرار دیا یوں برِ صغیر کی تاریخ میں وہ پہلے راہنما ہیں
جنہوں نے سب سے پہلے الگ وطن کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے اْس کا مطالبہ کیا
اْن کی اس آواز نے کئی دوسرے راہنماوؤں کو اسی سمت میں سوچنے پر مجبور کر
دیا۔ دیدہ ور واقعی ہی حقیقت کو اپنی دور بین نگاہوں سے ایک مدت پہلے ہی
دیکھ لیتا ہے اور قوم کو نشانِ منزل کی نشان دہی کر دیتا ہے۔ 1917ء میں
سٹاک ہوم سویڈن میں ہونے والی انٹر نیشنل سوشلسٹ کانفرنس میں ڈاکٹر
عبدالجبار خیری اور پروفیسر عبدالستار خیری نے چوہدری رحمت علی کے خیالات
کی تائید میں مسلم ہندوستان اور ہندو ہندوستان کو مسائل کا حل قرار دیا۔اسی
طرح 1932ء میں سر ریحنا لڈ کریڈوک نے اپنی کتاب ’’ہندوستان کا المیہ‘‘ میں
تحریر کیا کہ ’’اگر سویڈن اور ناروے متحد نہیں رہ سکے۔ آئرش فری سٹیٹ اور
السٹر میں اتحاد ممکن نہیں تو پھر اْن سے زیادہ اختلافات کی وجہ سے
ہندوستان کیسے متحد رہ سکتا ہے‘‘۔ تصور پاکستان حقیقت میں چوہدری رحمت علی
نے ہی دیا تھا اور وہ بجا طور پر نقاش پاکستان کہلانے کے حق دار ہیں۔ ان کی
جانب سے اسلامیان ہند کے لئے الگ ریاستوں کے مطالبہ کے بعد آل انڈیا مسلم
لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ آلہ آباد میں 1930ء کو علامہ اقبال نے شمال
ہندوستان یعنی پنجاب ،سرحد، بلوچستان اور سندھ کے لئے برطانوی ہند کے اندر
یا باہر ایک خطہ کی ضرورت پر زور دیا۔اْس وقت چودھری رحمت علی اعلیٰ تعلیم
کے لئے برطانیہ جانے کی تیاری میں تھے اور وہ نومبر 1930ء کو انگلستان
پہنچے۔ یہاں آکر انہوں نے اعلیٰ تعلیم کے ساتھ برصغیر کی سیاست میں اپنی
عملی دلچسپی جاری رکھی انہوں نے پاکستان نیشنل موومنٹ کی بنیاد رکھی اور
اپنا مشہور مقالہ Now Or Never تحریر کیااور مسلمانوں کے لئے الگ ملک کا
نام پاکستان تجویز کیا۔ 1931ء سے 1933ء تک برصغیر کے مستقبل کے حل کے لئے
تین گو ل میز کانفرنسیں برطانیہ میں منعقد ہوئی تو چودھری رحمت علی گول میز
کانفرنس کے شرکاء سے ملاقاتیں کر کے انہیں اپنے مطالبہ پاکستان کے بارے میں
دلائل سے قائل کرتے رہے انہوں نے علامہ اقبال سے تفصیلی ملاقاتیں بھی کیں
اور قائد اعظم کے اعزاز میں کھانا دیا اور اپنے مطالبہ پاکستان سے انہیں
آگاہ کیا ۔ 1940ء میں جب لاہور میں آل انڈیا مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس
منعقد ہونا تھا تو چودھری رحمت علی لندن سے اجلاس میں شرکت کے لئے کراچی
پہنچے لیکن انہیں معلوم ہوا کہ 19مارچ کو خاکساروں کی شہادت کے بعد پنجاب
حکومت نے امنِ عامہ کا بہانہ عائد کر کے چوہدری رحمت علی کے لاہور داخلہ پر
پابندی عائد کر دی اس طرح چوہدری رحمت علی اْس تاریخی اجلاس میں شریک نہ
ہوسکے غالب امکان ہے کہ اگر وہ اس اجلاس میں شرکت کرتے تو اپنے مطالبہ
پاکستان کو بہتر طور پر پیش کر کے شرکاء کو قائل کر لیتے اور اس طرح اْس
روز منظور ہونے والی قرار داد کا نام بھی قرار دادِ لاہور کی بجائے قرار
پاکستان ہوجاتا اور منزل کی بہتر طور پر نشان دہی ہوجاتی جوتین تین سال بعد
1943ء کو مسلم لیگ نے باقاعدہ طور پر اپنائی بلکہ یہ امکان بھی ہے کہ اگر
چوہدری رحمت علی کو اجلاس میں شرکت کا موقع ملتا تو آل انڈیا مسلم لیگ ایک
خطہ کی بجائے اسلامیان ہندوستان کے لئے تین ممالک کا مطالبہ کرتی جس کا
اعلان 22 مارچ 1940ء کو پاکستان نیشنل موومنٹ کے کراچی کے اجلاس میں ہوا
اور برصغیر کے مسائل کا حل مسلمانوں کے لئے تین مملکتوں کے قیام میں واضح
کیا گیا یہ تین ممالک موجودہ پاکستان حیدر آباد دکن کے خطہ کے لئے
عثمانستان اور بنگال آسام کے مسلمانوں کے لئے بانگستان تجویز کیا گیا۔ وہ
اسلامی دولتِ مشترکہ کی تشکیل چاہتے تھے اور وہ انڈیا کو دینیہ کہنا پسند
کرتے تھے جہاں بہت سے ادیان کی اقوام آباد ہیں۔
چودھری رحمت علی 16 نومبر، 1897ء کو مشرقی پنجاب کے ضلع ہوشیار پور کے گاؤں
مو ہراں میں پیدا ہوئے۔انہوں نے اسلامیہ کالج لاہورسے بی اے پھر کیمبرج اور
ڈبلن یونیورسٹیوں سے قانون اور سیاست میں اعلیٰ ڈگریاں حاصل کیں۔چوہدری
رحمت علی اپنی سیاسی بصیرت کی بنا پربرصغیر کے مسلمانوں کے مسائل سے آگاہ
تھے اور اگر 1946ء کے انتخابات انہی کی سیاسی فکر کی بنیاد پر لڑ کر مسلم
لیگ سیاسی جدوجہد کرتی تو آج برصغیر کا نقشہ کچھ اور ہوتا اور بھارتی
مسلمان بھی زیادہ محفوظ ہوتے۔برصغیر کی تاریخ اور تقسیم ہندوستان کے بعد
پیدا ہونے والی صورتِ حال نے نقاشِ پاکستان چودھری رحمت علی کی سیاسی بصیرت
اور اْن کے تصورِ پاکستان کو سچ ثابت کر دیا ہے پاکستان ایک مستحکم اور بڑا
ملک ہوتا مزید برآں بھارت میں رہ جانے والے مسلمانوں کو وہ مسائل درپیش نہ
ہوتے جو آج اْن کے سامنے ہیں۔کچھ حلقے چوہدری رحمت علی کے قائد اعظم کے
ساتھا سیاسی اختلافات کو اچھالتے ہیں تو ان کی خدمت میں عرض ہے کہ سیاسی
جدوجہد میں قائدین میں منزل تک پہنچنے کے لئے راستہ اختیار کرنے میں اختلاف
ہوسکتا ہے لیکن منزل پر اتفاق تھا۔ تحریک پاکستان میں کیا قائد اعظم اور
علامہ اقبال میں اختلافات پیدا نہیں ہوئے تھے اور ٓل انڈیا مسلم لیگ کے دو
دھڑے ہوگئے تھے؟ ایک دھڑے کی قیادت قائد اعظم کے پاس تھی جبکہ علامہ اقبال
دوسرے دھڑے میں تھے جس کی قیادت سر محمد شفیع کے پاس تھی۔ دونوں دھڑوں نے
ایک دوسرے کے لئے کیا کچھ نہیں کیا تھا لیکن ہمیں اس سے غرض نہیں۔ قائدین
کے اختلافات کو اچھالنے کی ضرورت نہیں کیونکہ خطائے بزرگان گرفتن خطاست
یعنی بزرگوں کی غلطیوں کی گرفت خود ایک خطا ہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد
چوہدری رحمت علی لندن سے6 اپریل 1948ء کو لاہور پہنچے اور وہ یہاں قیام کے
خواہش مند تھے مگر قائد اعظم کی وفات کے بعد جب مسلم لیگ راہنما اقتدار کی
کشمکش میں الجھ گئے اور تحریکِ پاکستان والا جذبہ مفقود ہونے لگا تواور
حکومت وقت کے دباؤ پرانہیں ایک بوجھل دل کے ساتھ چوہدری رحمت علی کو
پاکستان کو خیر آباد کہنا پڑا اور بالآ خر یہ عظیم رہنما 3فروری 1951ء کو
جہانِ فانی سے رخصت ہوااور کیمرج برطانیہ میں ابھی بھی امانتاََ دفن
ہے۔اسلامیان ہند کے اس عظیم رہنماء کا جسد خاکی اب بھی اپنے خوابوں کی
سرزمین پاکستان میں آسودہ خاک ہونے کا منتظر ہے۔توقع ہے وزیر اعظم عمران
خان اپنے وعدہ کے مطابق نقاش پاکستان کے جسد خاکی کو تمام تر قومی اعزاز کے
ساتھ پاکستان لا کر سپر د خاک کریں گے اور انہیں وہ مقام دیں گے جس کے وہ
حق دار ہیں۔
|