محمد بخش پولیس کیلئے مثال مگر۔۔۔

ملک بھر میں محکمہ پولیس پر تنقید کی جاتی ہے ، جہاں پولیس کا بسا اوقات منفی کردار دیکھنے کو ملتا ہیں وہاں اس میں اچھے لوگ بھی موجود ہیں،ایسے اچھے لوگ محمد بخش کی طرح بڑا کام کر کے پوری پولیس کا نام روشن کر تے ہیں ،مگر ہمیں اس پر اکتفا کے بجائے محکمہ پولیس کو ایسا محمکہ بنا نا چاہیے کہ لوگ اپنے مسائل کے حل کیلئے تھانے جانے سے خوف کھانے کے بجائے انہیں اپنے لیے جائے پناہ سمجھیں،مگر یہ تب ہی ممکن ہے جت حکومت محمکہ پولیس میں منظم اصلاحات لے کر آئے گی،پولیس کے وقار کی بحالی کیلئے محض محمد ایک محمد بخش کا کردار کافی نہیں۔
محمد بخش برڑو نے جو کیا اس کی توقع بہت کم پو لیس والوں سے رکھی جا سکتی تھی ،مگر ایک محمدبخش کے کام نے پوری کی پوری سندھ پولیس کا سر فخر سے نہ صرف بلند کر دیا بلکہ اس کی تمام خامیوں پر وقتی طور پر پردہ ڈال دیا ہے ۔وقتی طور پر اسی لیے ہم نے کہا ہے کہ سال ہا سال سے ہم پولیس کے کردار کو دیکھ ر ہے ہیںاور بہت سے شریف لوگوںکو اس کاسامنا بھی کرنا پڑتا ہے اور یہ بھی سب کے علم میں ہے کہ لوگ جائز کام کیلئے تھانے جانے سے بھی ڈرتے ہیں ۔ایک چھوٹی سی رپورٹ درج کروانامقصود ہو تو اس میں بھی کتنی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے عام آدمی کو۔ یہ بات وہی جانتا ہے جو اس تجربے سے گزرا ہوا ور اگررپورٹ درج ہو بھی جائے تو اس کے مندرجات کوبھی بسا اوقات اپنے طور پر ایسے تبدیل کردیا جاتا ہے کہ رہے نام اللہ کا ۔

ہم بھی ایک بار اسی مرحلے سے گزر چکے ہیں ۔آگر آپ بذریعہ کوچ یا بس صدر سے سرجانی ٹاو ¿ن کی طرف جائیں تو آپ کوبس یا کوچ کے ذریعے عموماً ایک ہی مرکزی سڑک پر سفر کرنا پڑتا ہے۔اس سڑک کے عین درمیان میں آج کل گرین لائن بس کا وہ سسٹم نظرآئے گا کئی سال سے جو عدم تکمیل کا شکار ہے، آپ کی توجہ حاصل کرتا نظرآئے گا ۔ ناگن چورنگی سے تھوڑا آگے جائیں تو دوتین اسٹاپس کے بعد کریلا موڑ اسٹاپ آتا ہے ۔یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہم شہر قائد میں پیدل خاک چھاناکرتے تھے۔موٹرسائیکل یا کار سے بلا کا خوف آتا تھا ،چلانا تو دور کی بات تھی ۔شاہراہ فیصل کی تیزی رفتا رٹریفک سے سانسیں رک جایا کرتی تھیں ،سڑک عبور کرنا توگویا کے ٹو کا پہہاڑ سر کرنے کے مترادف لگتا تھا ۔

جیب کترے نے عین کریلا اسٹاپ پر کوچ سے اترتے ہوئے ہماری جیب کیا کٹی ،ہمیں لینے کے دینے پڑ گئے ۔ہم ذمہ دار شہری ہونے کا ثبوت دینے کیلئے رپورٹ درج کرانے تھانہ اجمیر نگر ی نارتھ کراچی شدید گرمی میں پید ل سفر طے کرتے ہوئے پہنچے تو ہم تھانے میں متعین محرر کی یہ سن کر حیران ہو ئے بغیر نہیں رہ سکے کہ جس مقام پر ہماری جیت صاف کی گئی ہے وہ واقعہ اس تھانے کی حدود میں نہیں آتا،بلکہ تھانہ نئی کراچی کی حدود میں آتا ہے ۔جب ہم ایک بار پھر سخت گرمی میںہانپتے کانپتے تھانہ نئی کراچی پہنچے تو ہمیں وہاں موجودمحرر صاحب نے انکشاف کیا کہ آپ کی رپورٹ توتھانہ اجمیر نگر ی میں درج ہوگی، کیونکہ آپ کے ساتھ پیش آنے والا وقوعہ ا ن کی حدود میں آتا ہے ۔محرر کی یہ بات سن کر ہمارا دماغ گھوم گیا ۔ہم نے اہلکاروں سے بولا بھائی کو ئی قتل ہوا ہے یا کسی کی لاش ملی ہے جو آپ حدود کا تنازع بنا رہے ہو۔جیب کٹی ہے جیب ۔

آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ اچی میں جیب کٹنا کوئی بڑی بات نہیں ہے ،یہاں تو سرعام پرہجوم مقام پرلوگوں کولوٹ لیا جاتا ہے ،پھر ہم نے اتنی تکلیف کیوں اٹھائی ،دراصل مسئلہ پر س میں موجود قومی شناختی کارڈ کا تھا ،حالانکہ اس میں چند ہزارروپے کے ساتھ غیراستعمال شدہ موبائل کارڈاورسم بھی تھی ،جن کی ہمیں کوئی پروا نہیں تھی ۔خیر جب ہم دوبارہ تھانہ اجمیر نگر ی پہنچے تو وہا ں موجود منشی غصے سے گھورنے کے سوا کچھ نہ کرسکے ،مجبوراً ہمیں اپنی صحافی ہونے کا حوالہ دینا پڑا۔ہم نے دبے الفاظ میں غصے کا بھی اظہار کرڈالا ۔منشی صاحب ہماری صحافت سے تو مرعوب نہیں ہوئے البتہ تھانے میں کاغذ ،قلم نہ ہونے باہر سے لے کرآنے کاشکوہ کرتے ہوئے رپورٹ کی رقم کا ذکر بلآخر زبان پر لے آئے۔ساتھ ہی فرما دیا آپ ہمارے صحافی بھائی ہیں ،پھر بارگیننگ کاانداز اپناتے ہوئے گویا ہوئے کہ 600روپے دے دیں بنتے تو زیادہ ہیں ۔آپ ہمارے صحافی بھائی ہیں آپ 400روپے دے دیں ۔شدید گرمی میں اس سارے عمل میں ہمارے ضبط کے بندھن ٹوٹے جارہے تھے ۔300روپے دے ہم کر اس اہلکار پر لعنت بھیجنے کے سوا اورکیا کرتے ۔

اب سنیے رپورٹ کا احوال جو بڑا دلچسپ ہے ہم نے پو لیس اہلکارکو اپنی جیب کٹنے کا واقعہ کچھ یوں بتایا تھا کہ ہم خان کوچ میں سفر کر رہے تھے کہ جب ہم اپنے اسٹاپ پراترنے لگے تو کسی نامعلوم شخص نے ہماری جیب کاٹ لی ۔جیب تراش پرس لے گیا جس میں 4ہزار نقد ،غیر استعمال شدہ موئل فون کارڈ ،،موبائل سم اور اصل قومی شناختی کار موجود تھا ۔محررنے ہم سے ہمارے کسی قریب رہائش پذیر دوست کانام پوچھا اوکچھ یوں رپورٹ درج کی کہ زین صدیقی صاحب اپنے دوست سے ملنے نارتھ کراچی سیکٹر 11ای جارہے تھے کہ ان کا راستے میں کہیں پرس گر گیا جس میں ان کا اصل شنا ختی کارڈ( نمبر ) موجو د تھا ۔جب ہم نے یہ رپورٹ پڑھی تو ہکا بکا رہ گئے ۔ہم نے رپورٹ پر احتجاج کیا تو محررصاحب ہم سے کچھ یوں گویا ہوئے کہ بھائی ہم اصل بات لکھیں گے تو ہمیں آپ کے یہ پیسے برآمد بھی کروانے پڑیں گے ۔ہمارے علاقے میں کرائم ریٹ بھی بڑھتاہوا نظر آئے گا،آپ ہمیں مرواو گے کیا ۔

ہم محررکی یہ بات سن کر سر دھنے بغیر نہ رہ سکے اور اپنا سا منہ لیکر رپورٹ والا پرچہ تھامے واپس آگئے ۔یہ صورت حال ہے پولیس کا نام ڈبونے والوں کی۔اسی لیے لوگ موبل چوری ہو ،یا گرے ،لٹ جائیں یا انہیں لوٹ لیا جائے رپورٹ درج نہیں کرواتے ۔لوگ سوچتے ہیں نقصان بھی اپنا ہو ہوا ہے ،پولیس رپورٹ کی بلا اپنے گلے میں ڈالیں ۔یہ واقعہ 17سال پرانا ہے ۔مگر آج ترقی یافتہ دور میں بھی ایسے واقعات ہورہے ہیں ۔

خیر اصل بات کی طرف آتا ہوں ،محمد بخش کا کارنا مہ ہماری نظر میں یہ ہے کہ اس نے پولیس کے روایتی اور معروف طریقہ اختیار کرنے کے بجائے بحیثیت اے ایس آئی اپنی ذمہ داری کو سمجھا ۔اس کے بعد اس نے اپنے مضبوط کردار اور انسانیت کاثبوت دیا کہ اس نے درندوں کے ظلم کا شکار عورت کی مجبوری سے فائدہ اٹھانے کے بجائے اس کے درد کو محسوس کیا اور اسے اپنے بیوی، بچوں کے پاس بھیجا اور اسے پناہ دی ۔رفیق کے بیوی بچوں نے جب تبسم کے ظلم کی کہانی سنی کہ وہ کراچی سے40ہزار ماہانہ کی ملازمت کا جھانسہ دے کر کشمور بلائی گئی ہے اور ایک جنسی بھیڑیار فیق ملک اسے کراچی کے جناح اسپتال سے یہاں لایا ہے اور گزشتہ 15روز سے اسے اور اس کی 4سالہ بیٹی کو زیادتی کا نشانہ بنا رہا ہے اوراس کا ایک ساتھی خیر اللہ بگٹی بھی اس کا شریک جرم ہے تواے ایس آئی کے اہل خانہ بھی بے چین اور غمگین ہوئے بغیر نہیں رہ سکے ۔

اے ایس آئی کی بیوی نے اپنے شوہر کو بتایا کہ یہ خاتون ظلم کا شکار ہے اورظالم درندوں نے اس کی بچی کو رکھ لیا ہے اور اسے بچی کی واپسی کے بدلے کسی عورت کو لاکر دینے کا مطالبہ کیا ہے۔اے ایس آئی اپنے گھر پہنچااور اس کی غم ناک کہانی سنی۔خاتون کا زارو قطار رونا اے ایس آئی اور اس کی فیملی سے دیکھا نہیں گیا ۔

اے آیس آئی محمد بخش نے اپنے دماغ کو استعمال کیا اس خاتون سے اس کی کہی ہوئی بات میں صداقت کا عنصر دیکھتے ہوئے نہ صرف ایف آئی آر درج کی بلکہ اپنی اہلیہ سے معاملے میں مدد کرنے کی بھی درخواست کی ۔پھر اے ایس آئی نے ملزمان کو پکڑنے کیلئے اپنی بیوی سے کہہ کر 20سالہ بیٹی ریشماں کو تیار کیا ،محمد بخش کی بیٹی اس معاملہ میں مظلوم خاتون کی مدد کیلئے اپنے باپ کا ساتھ دینے کیلئے تیار ہوگئی،بیٹی بھی تیار ہوگئی اور بولی ابو میں اس خاتون کی بچی واپس دلانے اور قانون کے ہاتھ مضبوط کرنے میں آپ کا ساتھ ضرور دوں گی مگر ایک شرط کے ساتھ کہ اگر مجھے وہ ملزم ہاتھ لگائے،یا چھیڑے تو آپ جذبات میں نہیں آئیں گے ۔میرے لیے آپ کی عزت مقدم ہے ۔اے ایس آئی خیر محمد کاسر بیٹی کی بات سن کرفخر سے بلند ہوگیا اور بیٹی سے بولا تم فکر مت کرو بیٹی ۔

مظلوم خاتون نے پروگرام کے مطابق اے ایس آئی کی بیٹی کے ساتھ بات کروادی تھی اوروہ رابطے میں تھا ۔اے ایس آئی نے مظلوم خاتون کے ساتھ اپنی بیٹی کو ایک پارک بھیجا ،اس دوران ملزم رفیق ایک بار پھر رابطے میں تھا ۔ملزم کو مظلوم خاتون تبسم نے کہا کہ وہ لڑکی لے آئی ہے ۔ملزم نے لڑکی کو پارک سے باہر آنے کا کہا مگر اے ایس آئی کہ بیٹی نے اسے اندر آنے کا کہا ،ملزم موبائل پر تھا اور بات کررہا تھا اے ایس آئی کی بہادر بیٹی نے اسے ہاتھ ہلاکر اپنی جانب متوجہ کیا اور پارک میں بلایا ۔مظلوم خاتون ساتھ تھی اسی دوران ملزم نے بات شروع کی اور اے ایس آئی کی بیٹی کو نقاب ہٹانے کو کہا ،لڑکی نے نقاب ہٹایا تو ملزم نے کہا یہ تو سندھی ہے ۔اے ایس آئی کی بیٹی نے کہا کہ میں کراچی سے آئی ہوں ۔اس کے بعد ملزم نے لڑکی کے چہرے کو چھونے کی کوشش کی تو اے ایس آئی محمد بخش کی بیٹی نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا ۔اسی دوران اردگر دموجود اے ایس آئی اور ان کے ساتھی اہلکاروں نے ملزم کو دھر لیا ۔
اے ایس آئی محمدبخش بروڑوایک غیرت مند باپ ،ایک غیرت مند پاکستانی تھا لیکن اس نے انسانیت کے خاطر ایک مظلوم کی مدد کیلئے اپنی اہلیہ اور بیٹی کے ذریعے درندوں کو قانون کے کٹہرے میں لاکھڑا کیا۔محمد بخش نے گرفتاری کے بعد سب سے پہلے بچی کو بازیاب کروایا۔ملزم رفیق کو سندھ بلوچستان کی سرحد پر مقیم اس کے ساتھی کی گرفتاری کیلئے لے جایا گیا ،جہاں ملزم نے خیراللہ نے فائرنگ کر کے ملزم رفیق کو اس کے انجام تک پہنچا دیا ۔ملزم رفیق کا ساتھی پکڑا گیا ۔

اس پورے عمل میں اے ایس آئی محمد بخش اور اس کے اہل خانہ کے کردار پرانہیں خوب پذایرائی ملی ہے ۔ملنی بھی چاہیے ۔اے ایس آئی اوراس کی بیٹی ریشماں کیلئے سینٹرل پولیس آفس کراچی میں ان کے شایان شان ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا جس میں اے ایس آئی کو آئی جی سندھ مشتاق احمد نے ستار ہ شجاعت دینے کا اعلان کیا، جبکہ20لاکھ روپے انعام کا اعلان بھی کیاگیا ۔وزیر اعظم عمران خان نے بھی اے ایس آئی کو فون کر کے کہا کہ انہیں ایسے بہادر افسر پر فخر ہے اور وہ اس کا ماتھا چومنا چاہتے ہیں ۔ مختلف ٹی وی چینلز نے بھی اے ایس آئی اور اس کی بیٹی کی شجاعت کے نغمے بکھیرے ہیں۔اس واقعہ سے عام شہریوں کوبھی یہ سبق ملتا ہے کہ وہ بھی ملزمان کو قانون کے کٹہرے میں لانے کیلئے پولیس کی مدد کرسکتے ہیں ۔

اے ایس آئی اور اس کی بیٹی نے سندھ پولیس کا نام روشن کر دیا ہے ،مگرپولیس کے تمام اہلکاروں کو بھی اسی جذبے سے کام کرناہوگا ۔عوام کو اپنا سمجھنا ہوگا۔تبدیلی کسی ایک اہلکار کے ذاتی کردار کی وجہ سے نہیں آسکتی اس کیلئے محکمہ پولیس میں اصلاحات ناگزیر ہیں ۔وزیراعظم عمران خان صاحب نے اقتدار میں آتے ہی تھانی کلچر تبدیل کرنے کی بات کی تھی ،مگر یہ کلچر آج تک تبدیل نہیں ہوسکا ،نہ آجکل اس کی کوئی شنوائی ہے ۔

ملک بھر میں ایسا پولیس کلچر متعارف ہونا چاہیے جس سے لوگ راحت محسوس کر یں اور تھانوں کو اپنے لیے جائے پنا ہ سمجھیں ۔تھانے اپنے علاقے سے جرائم کا خاتمہ یقینی بنائیں ،رشوت ،سفارش ختم اور غریب کی آواز پر لبیک کہا جائے ۔پولیس کی اکاؤٹیبلٹی کیلئے ایک منظم ادارہ ہونا چاہیے جس کا عوام کو علم ہو اور وہ پولیس سے متعلق درپیش مشکلات کو وہاں پیش کر سکے اور عام آدمی کو اس پر فوری ریلیف ملے ۔سندھ پولیس میں پولیس اہلکاروں اور افسران جو کرائم میں ملوث ہوں ان کی مانیٹرنگ کا ایک ادارہ موجود ہے ،جو ان ایسے اہلکاروں کی مانیٹرنگ کر تا ہے ۔حال ہی میں وارداتوں میں کئی پولیس اہلکار وافسر بھی ملوث پائے گئے ہیں ،اخبارات میں ان سے متعلق خبریں آتی رہتی ہیں ۔اگرتھوڑی سی توجہ دی جائے تو محکمہ اچھا ہو سکتا ہے ،مگراس کیلئے صوبائی اور عمران خان کی حکومتوں کو آگے قدم بڑھا ناہوگا محکمے میں اصلاحات متعارف کروانی ہوں گی ۔

 
Zain Siddiqui
About the Author: Zain Siddiqui Read More Articles by Zain Siddiqui: 29 Articles with 23750 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.