کمیشن اڑان سے پہلے لنگڑا کیوں؟

اسامہ ڈیتھ آپریشن پر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اپوزیشن جماعتوں نے انکوائری کے لئے آزاد کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا۔نواز شریف نے بھی ترش لہجے میں تفتیشی کمیشن کی تشکیل کا مطالبہ داغ دیا کہ اگر انکی مانگ پوری نہ کی گئی تو ن لیگ اسمبلیوں سے مستعفی ہوجائے گی۔ ن لیگ نے جنرل کونسل کے اجلاس میں کمیشن بنانے کی خاطر قرارداد پاس کی۔قرارداد پاس ہونے کے17 دنوں بعد چیف ایگزیکٹو نے 5 رکنی تحقیقاتی کمیشن قائم کردیا ۔ ہماری سیاست کا المیہ رہا ہے کہ سیاسی جماعتیں نیشنل انٹرسٹ اور ریاستی سلامتی سے منسلک امور و حساس ترین معاملات کو پولیٹیکل پوائنٹ سکورنگ کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ ن لیگ کو حکومت کا مشکور ہونا چاہیے تھا کہ وزیراعظم نے انکی قرارداد کی لاج رکھتے ہوئے کمیشن کا اعلان کردیا مگر دکھ تو یہ ہے کہ اپوزیشن لیڈر چوہدری نثار اور نوازشریف نے کمیشن کی کریڈبیلٹی پر انگلیاں اٹھائیں۔دونوں کے تلخ ترین بیانات سے لگتا ہے کہ یہ بیل منڈھے نہیں چڑھ سکے گی۔اگر ایسا ہوا تو یہ قومی المیہ ہوگا کیونکہ حقائق ہمیشہ پردہ اخفا کے پیچھے گم ہوجائیں گے۔گیلانی پر تنقید کی بھرمار کی گئی کہ انہوں نے ن لیگ کی خوشنودی کے لئے کمیشن کا اعلان تو کردیامگر انہوں نے کسی گرم جوشی اور دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ن لیگ کی اس سوچ کو دریدہ دہنی کے علاوہ اور کوئی نام نہیں دیا جاسکتا۔کمیشن کے 5 اراکین جسٹس جاوید اقبال جسٹس فخرالدین جی ابراہیم قاضی اشرف جہانگیر جنرل ریٹائرڈ ندیم احمد اور عباس خاں ہیں جو تجربات کی بھٹی سے گزر گزر کر کندن بن چکے ہیں اور تمام معزز اراکین اپنے شعبوں کے ماہرو تجربہ کار افلاطون ہیں۔ نرگس سیٹھی کمیشن کی کوآرڈی نیٹر ہونگی۔عباس خان کا نام وزیرداخلہ اور فخرالدین جی ابراہیم کا نام بابر اعوان نے تجویز کیا۔ گیلانی داد کے مستحق ہیں۔انہوں نے کمیشن میں بیوروکریسی قانون سفارت کاری پولیس عدلیہ اورفوج سے تعلق رکھنے والے ماہرین کو نمائندگی دی تاکہ اپنے طلسماتی تجربے کو بروئے کار لاکر حقائق و سچ کو جاننے میں کامیاب ہوں۔ چوہدری نثار علی خان نے جسٹس ناصر اسلم زاہد جسٹس بھگوان داس عاصمہ جہانگیر اسلم بیگ محمود خان اچکزئی اور فخر جی ابراہیم ، مجید نظامی کے نام بھجوائے۔ ن کے نامزدکردہ ممبران میں سے وزیراعظم نے دو کی بجائے ایک کو کمیشن کا رکن بنایا۔کیا ن لیگ کی آہ و فغاں اور کف افسوس ملنے کی یہی وجہ ہے کہ انہیں دو کی بجائے ایک ملا۔نامزد ممبران کی مہارت و قابلیت قابل داد ہے مگر انکے رویوں کو غیر مناسب کہا جاسکتا ہے۔جسٹس جاوید اقبال کا فرمان ہے کہ پہلے وزیراعظم چیف جسٹس سپریم کورٹ سے اجازت لیں۔ ابراہیم جی نے نامزدگی پر دو حرف بھیج کر حکومت سے معذرت کرلی۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن عاصمہ جہانگیر نے اپنی جہانگیری کا ثبوت یوں دیا کہ کمیشن سرے سے غیر قانونی ہے۔ کیا کمیشن سانحے کی تحقیقات کی اہلیت رکھتا ہے۔ جسٹس جاوید اقبال سپریم کورٹ کے جج ہیں انکی شمولیت سے کمیشن کی نیک نامی میں اضافہ ہوگا۔اگر وزیراعظم اگر چیف جسٹس سے انکی دستیابی کے لئے رابطہ کرلیں تو انکی نیک نامی میں اضافہ ہوگا۔ فخر جی ابراہیم معروف اور ماہر قانون دان اور قانونی برادری کے لئے وقار کی علامت ہیں۔ حکومت انکے انکار کی وجہ تلاش کرے کیا انکا عزرلنگ حکومت پر بے اعتمادی کا پیغام تو نہیں؟ جنرل ندیم ایرا کے ڈپٹی چیرمین اور بعد ازاں2008 تک وہ محکمے کے سرخیل تھے۔ آزاد کشمیر و اسلام آباد میں انے والے قیامت خیز اوقات میں وہ تباہ ہونے والے علاقوں اور متاثرہ افراد کی بحالی کے سربراہ تھے۔ میڈیا میں چند این جی اوز نے ان کی کارکردگی پر عدم اطمینان ظاہر کیا تھا۔یہ سچ ہے کہ وہ مقرر کردہ ٹائم پریڈ میں بحالی کو صد فیصد یقینی نہ بناسکے۔وہ مارچ2011 کو ایرا سے چلے گئے۔ عباس خان سابق IG پولیس ہیں انکا تعلق خیبر پختون خواہ سے ہے۔ دوران سروس نیک نامی اور قانون کی پاسداری نے انکے نام کا ڈنکا بجادیا تھا۔قاضی اشرف بھارت چین جرمنی اور شام میں پاکستان کے سفیر رہے۔ بعد ازاں2002 سے2004 تک وہ واشنگٹن میں پاکستانی سفیر کے عہدے پر فائز رہ چکے ہیں۔ایک لابی جہانگیر اشرف کو مغرب نواز سمجھتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ امریکہ میں سفیر کی حثیت سے انکا جھکاو امریکہ کی جانب تھا شائد یہی وجہ ہے جب بانکی مون یو این او کے سیریٹری جنرل بنے تو قاضی کو سوڈان میں یواین او کے سیکریٹری جنرل کا خصوصی نمائندہ بنایا گیا۔نرگس سیٹھی پی ایم کی پرنسپل سیکریٹری کا فرض ادا کرتی رہی ہیں اجکل سیکریٹری ایسٹیبلشمنٹ ہیں وہ بیوروکریسی کا معتبر نام ہے۔ کمیشن نے ابھی تک پہلی اڑان نہیں بھری کی لنگڑانے لگا ہے۔کمیشن ممبران کے ماضی پر نگاہ دوڑانے کے بعد حقیقت حال کچھ یوں ہے کہ اس کمیشن پر کسی اور کو فوقیت دینا ممکن نہیں۔گیلانی نے کافی سوچ و بچار کے بعد انکی نامزدگی کی ہے جس پر اصلاح کے لئے تو تنقید جائز ہوسکتی ہے تاہم سیاسی سکور کی خاطر حرف زنی غیرجمہوری روایت کہلائے گی۔گیلانی اس حوالے سے تنقید کی زد میں ہیں یعنی سر منڈاتے ہی اولے پڑے۔ اپوزیشن تنقید کا حق رکھتی ہے مگر ہمارے ہاں الٹی بہہ رہی ہے۔اپوزیشن حکومت کے ہر اچھے اقدام کی راہ میں رخنے ڈالتی ہے۔پاکستانی عوام کو کئی نفسیاتی بحرانوں کا سامنا ہے۔ غربت بے روزگاری دہشت گردی سماجی و معاشی مصائب نے اہل پاکستان کی زندگیوں کو بے کیف بنا دیا ہے۔ مخالفین کو کمیشن پر شائیں شائیں کرنے کی بجائے ملک و قوم کو درپیش مسائل کے خاتمے اور کمی کے لئے توانیاں صرف کرنی چاہیں۔قوم تپتے سورج کی گرم لو میں زندگی گزرنے پر مجبور ہے اب ٹھنڈی ہوا کا جھونکا آنا چاہیے۔اس امر میں کوئی شک نہیں کہ ن لیگ کی جانب سے ٹھنڈی ہوا کا جھونکا بند ہوچکا ہے۔ اپوزیشن کمیشن کو متنازعہ بنانے سے گریز کرے۔پاکستان میں قائد اعظم کی مشکوک موت سے لیکر بنگالی و پاکستانی وزرائے اعظم سہروردی اور قائد ملت کے قتل تک اور سانحہ اوجڑی کیمپ سے لیکر حمود الرحمن کمیشن تک اہل پاکستان اج تک بے خبر ہیں۔ محولہ بالہ اندھے سانحات کی حقیقت کوعوام لئے اوپن نہیں کیا گیا۔ارباب اختیار گیلانی صاحب کا فرض ہے کہ وہ من گھڑت تنقید کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کمیشن کو فوری کاروائی کا حکم دیں۔گیلانی صاحب کمیشن کی رپورٹ قوم پاکستان پر منکشف کردیویں تو انکا نام ہماری تاریخ کے سنہرے ابواب میں عرق گلاب سے قلمبند ہوگا ورنہ ماضی کے دیگر واقعات کی طرح سانحہ ایبٹ آباد بھی ہمیشہ کے لئے نامعلوم قبرستان کی کسی اندھی قبر میں درگور ہوجائے گا۔
Rauf Amir Papa Beryar
About the Author: Rauf Amir Papa Beryar Read More Articles by Rauf Amir Papa Beryar: 204 Articles with 137142 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.