ڈرون حملے میں مارا جانے والا
مہران بیس کا ماسڑمائینڈپاک فوج کے سپیشل گروپ کا کمانڈو تھا
اس سے پہلے بھی ڈرون حملوں میں الیاس کشمیری کی ہلاکت کا دعویٰ کیا جا چکا
ہے : سید بدر سعید کی خصوصی رپورٹ
برطانوی میڈیا نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ الیاس کشمیری کو ڈرون حملے میں ہلاک
کر دیا گیا ہے ۔ اطلاعات کے مطابق وہ جنوبی وزیرستان کے علاقے میران شاہ کے
ایک باغ میں بیٹھے چائے پی رہے تھے کہ انہیں ڈرون میزائل سے ہٹ کیا گیا،
الیاس کشمیری کو مہران بیس پر ہونے والے حملوں کا ماسٹر مائنڈ بھی بتایا
جاتا ہے ۔اس سے پہلے 7ستمبر2009ءکو بھی یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ الیاس
کشمیری کو امریکی ڈرون حملے میں مار دیا گیا ہے لیکن بعد میں یہ دعویٰ غلط
ثابت ہوا اور جہادی و عسکری ذرائع نے الیاس کشمیری کے زندہ ہونے کی تصدیق
کر دی شاید یہی وجہ ہے کہ اس مرتبہ غیر ملکی میڈیا کی طرف سے الیاس کشمیری
کی ہلاکت کے دعویٰ کے باوجود پاکستانی سکیورٹی ذرائع نے اس کی تصدیق یا
تردید کرنے میں جلد بازی کا مظاہرہ نہیں کیا ۔انڈین آرمی میں ایک لمبے عرصے
تک خوف اور دہشت کی علامت بنا رہنے والا اور بے مثال بہادری کی بنا پر
پرویز مشرف سے ایک لاکھ روپے انعام حاصل کرنے والے اس جہادی نے گزشتہ چند
سالوں سے پاکستانی اسٹیبلش منٹ کو خصوصی طور پر نشانہ بنایا اور فوج اور
پولیس سمیت پاکستانی سکیورٹی اداروں کو اپنی ہٹ لسٹ پر رکھا ہوا تھا۔
انڈین جیل توڑ کر فرار ہونے والا الیاس کشمیری کوئی معمولی شخص نہ تھا۔
کشمیر اور افغان جہاد سے وابستہ ہزاروں جہادیوں کے نزدیک الیاس کشمیری
انتہائی سچا اور کھرا مجاہد تھا جس نے افغان جہاد اور کشمیر جہاد کے لیے نہ
صرف بہت سی قربانیاں دیں بلکہ اپنی ایک آنکھ بھی اسی جہاد کی نذر کر دی۔
42سالہ الیاس کشمیری کا تعلق آزا د کشمیر کے علاقے کوٹلی سے تھا۔ یہ بات
شاید بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ الیاس کشمیری پاک فوج کے سپیشل سروس گروپ
کا کمانڈو تھا پاک فوج نے ہی اسے 80کی دہائی کے وسط میں روسی فوج سے لڑنے
والے افغان مجاہدین کی تربیت پر مامور کیا تھا۔ الیاس کشمیری کو امریکہ کی
جانب سے افغان مجاہدین کو دی جانے والی بارودی سرنگوں کا ماہر سمجھا جاتا
تھا۔ روسی حملہ آوروں کے خلاف جہاد کے دوران ہی وہ اپنی ایک آنکھ بھی گنوا
بیٹھا لیکن اس کا حوصلہ پست نہ ہوا۔
افغان جہاد ختم ہوا تو الیاس کشمیری جیسے سینکڑوں مجاہدین بے روزگار ہو گئے
اور فوج نے انہیں قبول نہ کیا۔ ایک عرصہ تک جہاد میں مصروف رہنے کی وجہ سے
معاشرے کے لیے وہ تقریباً بے کار ہو چکے تھے کیونکہ اب ان کے پاس کوئی
کاروبار یا نوکری نہ تھی۔ الیاس کشمیری چونکہ اہم تربیت یافتہ کمانڈر تھا
اور اس کا تعلق فوج سے بھی تھا شاید اسی لیے سکیورٹی اسٹیبلش منٹ نے الیاس
کشمیری کو آزاد نہ چھوڑا اور اسے کشمیریوں کی مدد کے لیے کہا۔ اس ہدایت پر
عمل کرتے ہوئے 1991ءمیں اس نے حرکت الجہادالاسلامی کے کشمیر چیپڑمیں شمولیت
اختیار کرلی لیکن چند برسوں بعد اس گروپ کے سربراہ حاجی قاری سیف اﷲ اختر
کے ساتھ اس کا اختلاف ہو گیا۔ الیاس کشمیر ی نے حرکت الجہاد الا سلامی کا
313بریگیڈ بنایا جس نے اس قدر جارحانہ کاروائیاں کیں کہ انڈین آرمی اس کے
نام سے لرز اٹھتی تھی۔
ایک مرتبہ اسے بھارتی فوج نے مقبوضہ کشمیر میں اس کے ایک ساتھی نصر اﷲ
منصور لنگڑیال کے ہمراہ گرفتار کر لیا اور جیل میں ڈال دیا۔ دو برس تک اسے
مختلف جیلوں میں رکھا گیا اور بالآخر ایک دن الیاس کشمیری جیل توڑ کر بھاگ
نکلنے میں کامیاب ہو گیا۔ اس کا پرانا ساتھی نصر اﷲ منصور لنگڑیال ابھی تک
بھارتی جیل میں قید ہے۔ بھارتی جیل سے فرار کے بعد الیاس کشمیری افسانوی
کردار بن گیا۔
1998ءمیں بھارتی فوج نے لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی شروع کر دی اور وقتاً
فوقتاً لائن آف کنٹرول کو پار کر کے پاکستان کے شہریوں کو ہلاک کرنا شروع
کردیا تو الیاس کشمیری کو بھارتیوں پر پشت سے حملہ کرنے کا مشن سونپا گیا
اور اس نے متعدد مرتبہ یہ کام کیا۔ 25فروری2000ءکو آزاد کشمیر کے ایک گاﺅں
نکیال میں بھارتی فوج نے 14کشمیریوں کو شہید کر دیا۔ اس آپریشن میں بھارتی
کمانڈو سرحد پار کر کے آگئے اور انہوں نے پوری ایک رات پاکستان کے اس گاﺅں
میں گزاری اور اگلی صبح واپس چلے گئے وہاں انہیں روکنے والا کوئی نہ تھا۔
بارڈر کر اس کرنے سے پہلے انہوں نے پاکستان کی تین لڑکیوں کے گلے کاٹے اور
سر اپنے ساتھ لے گئے یہاں تک کہ وہ مقامی لڑکیوں کو بھی اغوا کر کے ساتھ لے
گئے۔ اگلی صبح بھارتی فوجیوں نے اغوا کی گئی لڑکیوں کے سرپاکستانی فوجیوں
کی طرف پھینک دیے۔
محب وطن الیاس کشمیری بھارتی فوج کی اس گھٹیا حرکت کا سن کر زخمی شیر کی
مانند ہو گیا اور اس نے اس کا بدلہ لینے کا ارادہ کر لیا۔ اس روز
یعنی26فروری 2000ءکو اس نے نکیال سیکٹر میں بھارتی فوج کے خلاف گوریلا
آپریشن کیا اور اپنے 313بریگیڈ کے 25سرفروشوں کے ساتھ سر پر کفن باندھ کر
لائن آف کنٹرول پار کر گیا۔ بارڈر کراس کرنے کے بعد اس نے بھارتی فوج کے
ایک بنکر کا محاصرہ کر لیا اور اس کے اندر گرینیڈ پھینکے۔ اپنے ایک ساتھی
کے نقصان پر وہ ایک زخمی بھارتی افسر کو حراست میں لینے میں کامیاب ہو گیا۔
یہ اس کہانی کا ا نجام نہیں ہے بلکہ ابھی تو الیاس کشمیری نے اس کہانی کو
انجام دینا تھا جو انڈین آرمی نے پاکستانی علاقے میں قدم رکھ کر اور مسلمان
بہنوں کی طرف بری نظراٹھا کر شروع کی تھی۔ الیاس کشمیری نے گرفتار بھارتی
فوجی آفیسر کا گلا کاٹ دیا اور اس کا سر اپنے بیگ میں ڈالا اور بارڈر کراس
کر کے واپس پاکستان آگیا۔ اس موقع پر اس کے ساتھیوں نے تصاویر بھی بنائیں
جو اس کے ساتھیوں کے پاس اس واقعہ کی یادگار کے طور پر محفوظ ہیں ۔ اس نے
یہ سراعلیٰ فوجی عہدیداروں کے حوالے کیا اور انہیں بتایا کہ یہ اس فوجی کا
سر ہے جس نے پاکستان کی سرزمین پر اپنے بوٹ رکھنے کی جرات کی تھی اور
پاکستان کی بیٹیوں کو اپنے ناپاک ہاتھ لگائے۔ بعد میں یہ سر آرمی چیف جنرل
پرویز مشرف (جو کہ اس پاکستان کے صدر کے عہدے پر بھی فائز تھے) کو پیش کیا
گیا۔
جنرل پرویز مشرف نے بہادری کے اس لاجواب مظاہرے کو سراہتے ہوئے الیاس
کشمیری کو نقد ایک لاکھ روپے بطور انعام دیے۔ بھارتی فوجی آفیسر کا سراپنے
ہاتھ میں لیے اس کی تصاویر اس وقت کے بہت سے پاکستانی اخبارات میں شائع
ہوئیں اور الیاس کشمیری یکایک کشمیری جنگجوﺅں میں بہت اہمیت حاصل کر گیا۔
اسے ایک ہیرو کے طور پر جانا جانے لگا جس نے غیر معمولی جرات اور بہادری کا
مظاہرہ کرتے ہوئے قوم کا سر فخر سے بلند کر دیا تھا۔ اس واقعہ کے بعد ہی
جامعہ محمد یہ اسلام آباد کے مولانا ظہور احمد علوی نے بھارتی فوجی افسران
کے سر قلم کر نے کے حق میں فتویٰ دیا۔
الیاس کشمیری کے فوجی اسٹیبلش منٹ کے ساتھ تعلقات اور آرمی کی سرپرستی کا
اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان دنوں اس وقت کے کور کمانڈر
راولپنڈی جنرل محمود احمد اکثر و بیشتر کوٹلی میں قائم الیاس کشمیری کے
تربیتی کیمپ کا دورہ کرتے رہتے تھے اور انہوں نے بھارتی فوج کے خلاف اس
گروپ کی گوریلا کاروائیوں کی دل کھول کر تعریف کی۔ یہ الیاس کشمیری کے عروج
کا زمانہ تھا لیکن کچھ ہی عرصہ بعد الیاس کشمیری کا فوج کے ساتھ” دوستانہ“
ختم ہو گیا بد قسمتی سے اس کی وجہ بھی ایک جہادی تنظیم بنی۔
کشمیری مجاہدین کی طرف سے قندھار ہائی جیکنگ کے بعد جب مولانا مسعود اظہر
بھارتی قید سے رہا ہو کر پاکستان آئے اور انہوں نے آتے ہی جیش محمد کے نام
سے اپنی جہادی تنظیم کے قیام کا اعلان کر دیا۔ کشمیر جہاد سے وابستہ بہت سے
سرکردہ افراد اس نئی جہادی جماعت میں شامل ہو گئے۔ جنرل محمود چاہتے تھے کہ
الیاس کشمیر ی بھی جیش محمد میں شامل ہو جائے اور مولانا مسعود اظہر کو
اپنا لیڈر اور راہنما مان لے لیکن اس یک چشم کشمیری راہنمانے ایسا کرنے سے
انکار کر دیا اور مولانا مسعود اظہر کو اپنا راہنما تسلیم نہ کیا۔ جہادی
ذرائع کے مطابق جیش محمد کے جنگجوﺅں نے ایک مرتبہ کوٹلی میں الیاس کشمیری
کے کیمپ پر بھی حملہ کیالیکن وہ بچ نکلا۔
اتنے میں نائن الیون کا سانحہ ہو گیا اور الیاس کشمیری بغیر کچھ کیے ہیرو
سے دہشت گرد بنا دیا گیا۔ فوجی اسٹیبلش منٹ اس سے کترانے لگی اور بالآخر
انہی پرویز مشرف نے اسے دہشت گرد اور اس کے گروپ کو کا لعدم قرار دے دیا
جنہوں نے تقریباً دو سال پہلے اس کی اور اس کے گروپ کی تعریف کرتے ہوئے ایک
لاکھ کا انعام دیا تھا۔ الیاس کشمیری کے پرویز مشرف سے اختلافات اتنے بڑھ
گئے کہ معاملات قابو سے باہر ہونے لگے اور اس نے امجد فاروقی کے ذریعے
پرویز مشرف پر حملے کروائے۔ ذرائع کے مطابق امجد فاروقی کو لیڈ کرنے والا
یہی الیاس کشمیری تھا۔ اس بات میں کتنی سچائی ہے اس کی تصدیق مشکل ہے
کیونکہ امجد فاروقی اب اس دنیا میں نہیں۔
دسمبر2003ءمیں پرویز مشرف پر ہونے والے قاتلانہ حملے کے بعد اسے گرفتار کر
لیا گیا اور دوران قید اس پر بے انتہا تشدد بھی کیا گیا۔ جس پر سید صلاح
الدین کی قیادت میں کام کرنے والی متحدہ جہاد کونسل نے الیاس کشمیری کی
گرفتاری پر شدید احتجاج کیا اور کشمیری جنگجوﺅں کے دباﺅ پر بالآخر فروری
2004ءمیں الیاس کشمیر ی کورہا کر دیا گیا۔ پاکستان فوج کے ہاتھوں گرفتاری
اور تشدد نے الیاس کشمیر کو اندر سے توڑ کر رکھ دیا اور اس نے اپنے آپ کو
کشمیری عسکریت پسندوں سے علیحدہ کر لیا اور تین برس تک مکمل خاموش رہا۔
جولائی2007ءمیں لال مسجد کے آپریشن نے الیاس کشمیری کو مکمل طور پر تبدیل
کر ڈالا۔ وہ شمالی وزیرستان چلا گیا جہاں اس نے کئی برس جہادی انسٹرکٹر کے
طورپر خدمات سرانجام دیں۔ یہ علاقہ اس کے دوستوں اور ہمدردوں سے بھرا ہوا
تھا۔ الیاس کشمیری نے اپنے 313بریگیڈ کو دوبارہ منظم کیا اور طالبان کے
ساتھ ہاتھ ملالیا۔ طالبان کے ساتھ ہاتھ ملاتے ہی اس نے پاکستان میں فرقہ
ورانہ سرگرمیوں میں ملوث بڑے گروپوں اور جہادی تنظیموں کی براہِ راست
معاونت کی جس میں اسلحہ اور مالی مدد دونوں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ اس نے
بہت سے سابق پاکستانی فوجیوں اور سزایافتہ فوجیوں کو اپنی جانب متوجہ کیا۔
شمالی وزیرستان میں 313بریگیڈ کی افرادی قوت 3ہزار کے قریب تھی اس کے زیادہ
تر جنگجوﺅں کا تعلق پنجاب ، سندھ اور آزاد کشمیر سے تھا۔
الیاس کشمیری پر یہ الزام بھی عائد کیا جاتا ہے کہ اس نے راولپنڈی میں میجر
جنرل( ر) فیصل علوی کے قتل سمیت پاکستان کے مختلف علاقوں میں دہشت گردانہ
حملے کیے۔ میجر جنرل فیصل علوی کا تعلق بھی ایس ایس جی سے تھا اور انہوں نے
2004ءمیں شمالی وزیرستان میں ہونے والے پہلے فوجی آپریشن کی قیادت کی تھی
اس امر کی اطلاعات بھی ہیں کہ شمالی وزیرستان کے طالبان کے مطالبے پر الیاس
کشمیری نے علوی کے قتل کی منصوبہ بندی کی۔پاکستان اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ہونے
کے بعد الیاس کشمیری نے سکیورٹی فورسسز کو اپنے نشانے پر رکھ لیا۔پاکستان
میں سکیورٹی فورسسز،آرمی ،اور خفیہ اداروں کے دفاتر پر ہونے والے بڑے حملوں
کے پیچھے اسی کا نام بتایا جاتا ہے ۔ اسے القاعدہ کی حمایت حاصل تھی اور وہ
القاعدہ کے ایک چیپٹر کا انچارج بھی تھا ۔الیاس کشمیری کی اہمیت کا اندازہ
اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد جانشین کے
طور پر جن لوگوں کا نام لیا جا رہا تھا ان میں الیاس کشمیری بھی شامل تھا
اور اسامہ کی ہلاکت کے فوراََ بعد اس نے بڑے حملوں کی صورت میں بدلہ لے کر
اپنے جانشین ہونے کا ثبوت بھی فراہم کر دیا تھا ۔ کبھی یہ محب وطن کہلاتا
تھا اور پاکستان کے لیے اپنی جان ہتھیلی پہ لیے پھرتا تھا لیکن وہ ہتھیار
جودشمن پر کاری ضرب لگانے کے لیے تیار کیا گیا تھا آج اس کا رخ اپنوں کی
طرف نظر آتا ہے ۔
الیاس کشمیری کی کہانی کس قدر افسانوی ضرور لگتی ہے لیکن بیہ جاننے کے بعدا
س امر میں شبہے کی گنجائش نہیں رہتی کہ دراصل الیاس کشمیری بھی دوسرے کئی
جہادیوں کی طرح اسٹیبلش منٹ کی پیداوار ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں کسی دور
میں حریت پسند قرار دیا جاتا تھا اور پرویز مشرف جیسے اعلیٰ فوجی عہدے دار
عزت و احترام دیا کرتے تھے اور ناگہانی صورت میں انہیں دشمن کی پشت پر وار
کرنے کا ٹارگٹ سونپا جاتا تھا۔ ان لوگوں کے بارے میں پاکستان اسٹیبلش منٹ
کے پاس فی الوقت کوئی پالیسی نظر نہیں آتی۔ |