صحت انصاف یا صحت دشمن کارڈ۔۔؟

ہمیں وزیراعظم عمران خان کی نیت اوراخلاص پرشک نہیں ۔۔پھرصحت سہولیات کے حوالے سے تو ہمیں یہ یقین ہے کہ کپتان اس ملک کے غریب عوام کوہرصوبے،ہرضلع،ہرتحصیل ،ہرشہراورہرقصبہ ودیہات میں صحت کی سہولیات مفت فراہم کرنا چاہتے ہوں گے کیونکہ والدہ کی بیماری کی وجہ سے وزیراعظم کواس ملک میں صحت سہولیات کی عدم فراہمی جیسے مسائل سے خودکئی بارگزرناپڑاہے اوراس طرح کے کئی مناظرانہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھے بھی ہیں۔۔اس سے ہٹ کربھی ملک میں کینسرکے سب سے بڑے ہسپتال شوکت خانم کی مثال سامنے رکھتے ہوئے ہمیں صحت سہولیات کے حوالے سے وزیراعظم کے کردار،نیت،اخلاص،وعدوں اوروعیدوں پر شک وشبہ کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔۔لیکن انتہائی معذرت کے ساتھ کپتان کی حکمرانی میں ملک کے اندرشروع ہونے والے صحت انصاف کارڈسسٹم پرنہ صرف ہمیں کئی طرح کے شکوک ہیں بلکہ بہت سے شبہات بھی ہیں۔فی کس سالانہ 10لاکھ روپے تک فری علاج جیسے خوشنماجھانسوں سے مزین سبزباغات کی آڑمیں اس وقت ملک کے اندرسرکاری ہسپتالوں کاجس طرح کباڑہ کیاجارہاہے وہ نہ صرف ہمارے بلکہ خودوزیراعظم عمران خان کے لئے بھی کسی لمحہ فکریہ سے کم نہیں۔۔اس ملک کے اندرکل بھی یہی سرکاری ہسپتال غریبوں کیلئے کرن کی آخری امیدتھے اورآج بھی یہ سرکاری ہسپتال ایک وقت کی روٹی کیلئے تڑپنے اوررلنے والے غریبوں کیلئے آخری سہاراہیں۔۔غریب عوام کیلئے صحت انصاف کارڈاچھی کاؤش اوراحسن اقدام مگرجس طرح صحت انصاف کارڈکے بہانے ملک سے سرکاری ہسپتالوں کے وجودکوختم کرنے کی ناکام کوشش کی جارہی ہے وہ انتہائی افسوسناک اوردردناک ہے۔۔ایک طرف عوام کو صحت انصاف کارڈکے حسین مناظراورمفت طبی سہولیات کے باغات دکھائے جارہے ہیں اوردوسری طرف بڑی مہارت،چالاکی اورہٹ دھرمی کے ساتھ سرکاری ہسپتالوں کوغریبوں سے دوربہت دورکرنے کے اقدامات اٹھائے جارہے ہیں۔جولوگ یہ کام کررہے ہیں وہ مکارتوہے ہی لیکن ساتھ وہ بڑے چالاک بھی ہیں۔۔سرکاری ہسپتالوں کابوریابسترگول کرنے سے پہلے انہوں نے غریب عوام کے سامنے صحت انصاف کارڈکادانہ صرف اس لئے پھینکاتاکہ ان کی زبانیں بندہوں۔شائدکہ ان کی توقعات اورخواہش کے مطابق سرکاری ہسپتالوں کے لئے رونے۔۔چیخنے اورچلانے والے بہت سوں کی زبانیں اس کارڈکے آنے سے بندبھی ہوگئی ہوں لیکن حقیقت یہ ہے کہ صحت انصاف کارڈوالاسسٹم نہ سرکاری ہسپتالوں کامتبادل ہے اورنہ ہی اس کے ذریعے غریبوں کوحقیقی معنوں میں کوئی ریلیف مل سکتاہے۔۔ماناکہ صحت انصاف کارڈکے اندرغریب عوام کو10لاکھ تک اخراجات،بڑے بڑے پرائیوٹ ہسپتالوں میں علاج اوردیگرمفت سہولیات فراہمی کے کئی سپنے اورخواب دکھائے گئے ہیں لیکن جوسہولیات کچھ عرصہ پہلے تک سرکاری ہسپتالوں کے اندرعوام کومیسرتھیں وہ پھربھی اس کارڈکے ذریعے عوام کونہیں مل سکتیں۔اس کارڈسے مستفیدہونے کے لئے کسی بھی شخص اورفردکوسب سے پہلے ہسپتال میں لمباہوناپڑے گا۔جسم کے کسی حصے کے کاٹ چاٹ کے بغیرکسی مریض پراس کارڈکااطلاق نہیں ہوگا۔اس کے برعکس ہرسرکاری ہسپتال میں ہرمریض چاہے وہ شوگرکاہو۔۔بلڈپریشر۔۔بخار۔۔ نزلہ وزکام۔۔یہاں تک کہ سردرد کا۔۔دستیاب سہولیات یکساں میسرہیں۔سرکاری ہسپتالوں کی اوپی ڈی میں پہلے چیک اپ پرچی کے پانچ سے دس روپے لئے جاتے تھے۔۔ پی ٹی آئی حکومت آنے کے بعداب تیس روپے لئے جارہے ہیں۔صحت انصاف کارڈمارکیٹ میں آنے کے بعداب معلوم نہیں کہ اس پرچی کی آئندہ فیس۔۔قیمت اورشکرانہ آگے کیاہوگا۔۔؟کیونکہ صحت انصاف کارڈآنے کی برکت سے اب توسرکاری ہسپتالوں میں عوام کومفت ملنے والی تمام سہولتیں غالباًختم کردی جائیں گی اوراس کے بارے میں کوئی پوچھ بھی نہیں سکے گا۔۔جوپوچھے گااس کوفوراً10لاکھ روپے والاصحت انصاف کارڈدکھایاجائے گا۔۔سمجھ نہیں آرہا۔۔کہ کیسے کیسے عجوبوں اورتماشوں سے ہماراواسطہ پڑرہاہے۔۔ایک طرف اچھل کودکرنعرے لگائے جارہے ہیں کہ صحت انصاف کارڈکے ذریعے عوام کے تمام طبی مسائل حل اورمشکلات ختم کردئیے ہیں لیکن دوسری طرف حقیقت یہ ہے کہ اس کارڈکے ذریعے عوام سے سرکاری ہسپتالوں میں مفت طبی سہولیات کے حق کوچھیننے کی بھرپورکوشش کی جارہی ہے۔آپ خودسوچیں ۔۔جب ایک شخص کوصحت انصاف کارڈپرڈال دیاگیاہے۔۔اس کارڈپرچاہے اس کاعلاج ہویانہ۔۔لیکن ایک بہانہ توہے نا۔۔کہ حکومت نے اسے صحت کی مفت سہولیات مہیاکردی ہیں۔۔اب ایساشخص آئندہ سرکاری ہسپتال میں علاج معالجے کی سہولت نہ پانے کاگلہ شکوہ نہیں کرسکے گا۔۔ادویات مہنگی کرکے لاکھوں۔۔کروڑوں اوراربوں کمانے والوں کایہی مقصدہے جواس کارڈکے بہانے پوراہوجائے گا۔۔آگے عوام کااس کارڈپرعلاج ہویانہ۔۔ ؟عوام جئیں یامریں۔۔؟اس سے اس مافیاکاکوئی تعلق اورواسطہ نہیں۔۔سوچنے کی بات ہے کہ اس کارڈپرمخصوص ہاسپیٹل کے ساتھ صرف خاص قسم کے مریضوں کاعلاج ہوگا۔۔مطلب جوبندہ ہسپتال میں داخل ہوگاتووہ ہی اس کارڈکے ذریعے اپناعلاج کراسکے گاکوئی اورنہیں۔۔اوریہ پوری دنیاکوپتہ ہے کہ بیماری۔۔درداورپریشانی کی وجہ سے ہسپتال آنے والاہرمریض ہسپتال میں داخل نہیں ہوتا۔۔بلکہ ہرکیا۔۔؟شاذوناذسومیں سے کئی ایک دویازیادہ سے زیادہ پانچ دس مریض داخل ہوتے ہوں گے۔۔سومریض اگرہسپتال میں داخلے کے لئے آتے ہیں توہزاروں اورلاکھوں روزانہ محض اوپی ڈی میں چیک اپ اورعلاج کے لئے آتے ہیں ۔۔سب سے اہم سوال یہ ہے کہ سوداخل مریض تواس کارڈسے مستفیدہوجائیں گے لیکن وہ جوروزانہ اوپی ڈی سے بغیرداخلے کے واپس ہوں گے ان ہزاروں اورلاکھوں مریضوں اورغریبوں کاکیاہوگا۔۔؟ڈاکٹرزتومنت سماجت کے بغیرکسی مریض کوہسپتال میں داخل ہی نہیں کرتے۔۔شوگر۔۔بلڈپریشرسمیت دیگرکئی موذی اورخطرناک امراض میں مبتلاافرادتوگھروں پرہی ایڑھیاں رگڑرگڑکرزندگی کے شب وروزگنتے ہیں۔۔دوسری بات ۔۔پرائیوٹ ہسپتالوں میں غریبوں کاعلاج معالجہ اچھی بات۔۔ہم بھی کہتے ہیں کہ امیروں کی طرح غریبوں کابھی پرائیوٹ ہسپتالوں میں علاج ہو۔۔لیکن سوال یہ ہے کہ یہ علاج ہوگاکیسے۔۔؟یاکرے گاکون۔۔؟پرائیوٹ ہسپتالوں کی تواتنی فیسیں اوراخراجات ہیں کہ بالفرض اگرکوئی غریب صحت انصاف کارڈپرایک بارکسی پرائیوٹ ہسپتال میں داخل ہوگیاتواس کے کارڈپرجوسالانہ 10لاکھ ہیں وہ چنددنوں میں ہی پورایاختم ہوجائیں گے۔۔اب آپ خودسوچیں ۔۔اس کے بعدپھراس غریب کاکیاہوگا۔۔؟کیاوہ دوبارہ بیمارنہیں ہوگا۔۔اس کے ساتھ ہربیماری کیلئے ہسپتال میں داخل ہونے کی ضرورت بھی نہیں ہوتی۔۔سومیں سے 99مریضوں کوڈاکٹرزدوائیاں لکھ کرگھروں کوبھیجتے ہیں۔۔جومریض دوائیوں پرزندگی گزارتے ہیں ۔ان کاکیاہوگا۔۔؟مہینے میں دوتین بارمہنگی ہونے والی ادویات کابوجھ وہ کیسے برداشت کریں گے۔۔؟اس طرح کے بہت سارے سوالات ایسے ہیں جن کے جوابات شائدکسی کے پاس نہ ہوں۔۔ حکمران غریب عوام کوصحت کی مفت سہولیات دینے میں سنجیدہ اورمخلص ہوں توانہیں عوام کے علاج معالجے کونس وپھنس سے مشروط کرنے کی بجائے صحت کے تمام دروازے عوام کیلئے کھول دینے چاہیئں۔کارڈکے ذریعے ہرفردکیلئے 10لاکھ مختص کرنے کی بجائے اگراسی فنڈاورپیسوں کے ذریعے سرکاری ہسپتالوں میں ہی عوام کاہرقسم کاعلاج معالجہ فری کردیاجاتاتوزیادہ بہترتھا۔۔اس ملک میں اس طرح کی سکیموں اورکارڈز پرقائم سہولیات کاجوحشرنشرہوتاہے۔۔وہ سب کوپتہ ہے۔۔اس کارڈپرغریبوں کاعلاج ہویانہ۔۔ لیکن قوم کودونوں ہاتھوں سے لوٹنے والوں کاعلاج ضرورہوگا۔
 

Umar Khan Jozovi
About the Author: Umar Khan Jozovi Read More Articles by Umar Khan Jozovi: 210 Articles with 131939 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.