ایک دن جب میں دوپہر کا کھانا کھا کر فارغ ہی ہوا تھا تو
ایک سخت تشویش میں مبتلا کر دینے والی سوچ نے میرے دماغ کو آن گھیرا اور
میں اسی تشویش کو ساتھ لیے کی میٹھی،فرحت افزاء دھوپ میں جا بیٹھا۔ میرے
سامنے رکھے میز پر چائے کا کپ رکھا گیا اور میں بتدریج اسی سوچ میں ڈوبتا
ہی چلا گیا۔ متواتر آدھا گھنٹہ اسی سوچ میں غرق رہا۔
ہم یعنی معاشرہ کہ اگر کوئی ملک ترقی کر گیا ہے تو اس کے پیچھے انکے
حکمرانوں اور ملکی اداروں کا ہاتھ ہے۔ لیکن حقائق اس سے برعکس ہیں، ان کی
ترقی کا سہرا ان کی عوام کے سر سجتا ہے کیونکہ ان کی عوام نے کفایت شعاری،
قانون پر عمل درآمد، حکومت کی اطاعت اور محنت میں عمدہ مثال قائم کی ہے۔
اس کے برخلاف ہمارے معاشرے میں عوام حکومت، حکومتی اداروں اور حکمرانوں پر
زیادہ اعتماد اور انحصار کرتی ہے۔ہماری عوام تمنا کرتی ہے کہ ہمارے حکمران
ایک نااہل ،نالائق،کام چور، بدتہذیب قوم کو ترقی کی نئی راہوں پر گامزن
کریں۔ کوئی شخص اپنا فرض ادا کر کے راضی نہیں اور حقوق کے لئے مارے مارے
پھرتے ہیں۔
عوام اپنی ذمہ داری کا احساس رتی برابر بھی نہیں کرتی بلکہ اس کے برعکس اگر
کوئی قانون ترتیب دے ہی دیا جائے تو اس کا تمسخر اڑایا جاتا ہے لاقانونیت
کی عمدہ مثال قائم کی جاتی ہے۔ اگر آپ کبھی بازار کے دورے کی اشیاء کا
جائزہ لیں تو عوام میں دھڑے بازی کا سنگین انکشاف ہوگا۔ عوام ملکی اشیاء کو
خریدنے کی بجائے غیر ملکی اشیاء کو خریدنے کی طرف زیادہ رجحان رکھتی
ہے۔ملکی اشیاء نہ خریدنے سے ملکی صنعت کو غیر معمولی نقصان پہنچتا ہے۔ ملک
کی طرح درامدادت میں اضافہ ہوتا ہے اور زرمبادلہ کے ذخائر پر بھی برا اثر
پڑتا ہے۔
درآمد شدہ ایسی اشیاء کا انتخاب کیا جاتا ہے جن کی بنیادی ضروریات زندگی سے
دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
عوامی سنجیدگی کے عالم کا اندازہ لگانا قطعا مشکل نہیں۔ اگر حکومت کوئی
عوامی فلاح کے لیے منصوبہ شروع کرتی ہے تو اس کے بدحالی کا سامان خود عوام
اپنے ہاتھوں سے ہی کر دیتی ہے، جن کی سہولت کے لیے یہ منصوبہ بنایا گیا ہے۔
حال ہی میں چند شروع ہونے والے منصوبوں پر اگر نظر دوڑائی جائے تو عوامی
سنجیدگی کا کچا چٹھا کھل کر آنکھوں کے سامنے عیاں ہو جاتا ہے۔ کہیں فلٹریشن
پلانٹ کے نل چوری کر لیے جاتے ہیں تو کہیں ٹرین کی پٹڑی اتار کر بیچ دی
جاتی ہے۔
اگر یہ کہا جائے کہ صرف عوام ہی قومی تنزلی کی ذمہ دار ہے تو یہ کہنا حقائق
کو مسخ کرنے کے مترادف ہوگا۔ آپ نے سن رکھا ہوگا کہ کہ تالی ایک ہاتھ سے
نہیں بجتی بلکہ تالی مارنے کے لئے دو ہاتھ درکار ہوتے ہیں۔ جتنا عوام قومی
تنزلی کی ذمہ دار ہے اتنی ہی حکومت بھی ذمہ دار ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ
حکومت دودھ دھلی ہوئی ہے تو یہ کہنا حقائق کے منافی ہوگا۔
اگر حکومت عوام کی فلاح کےلئے کوئی منصوبہ شروع کرتی ہے تو اس کا تو ٹھیکہ
من پسند ٹھیکیدار کو دیا جاتا ہے اور ملکی خزانے کا منہ کے لئے کھول دیا
جاتا ہے۔ تاہم عوامی فلاح کے منصوبوں میں اربوں روپوں کے گھپلوں کا انکشاف
ہوتا ہے۔
حکومت بنانے اور چلانے کے لئے لوٹوں اور نوٹوں کا بے دریغ استعمال کیا جاتا
ہے۔ لوٹا کریسی کے اس فارمولے کی وجہ سے عوام اور ملک کو بہت نقصان برداشت
کرنا پڑتا ہے۔
میرے عرض پاک میں اب ضرورت اس امر کی ہے کہ قوم اور حکومت ہوش کے ناخن لے ۔
عوام اپنے فرائض اور حقوق اور حکومت اپنے فرائض اور حقوق کو سمجھے اور
بخوبی نبھائیں۔ عوام حکمرانوں پر اعتماد کرنے کی بجاے خود اعتمادی سے کام
لے اور اپنی مدد آپ کے فارمولے پر گامزن ہو جاۓ۔ حکومت کا ساتھ دے اور اس
ترقی کے سفر میں حکومت کا زور بازو بن جائے۔ قانون کی پاسداری کریں اور
سنجیدگی کا مظاہرہ کریں۔ حکومت بھی رعایا کے حقوق کو سمجھے اور اپنے فرائض
ادا کرے۔
|