موت ایک دروازہ ہے جس میں ہر نفس نے داخل ہونا ہے، یہ ایک
پیالا ہے جس کو ہر نفس نے پینا ہے۔
موت کے وقوع اور طاری ہونے میں کسی کا اختلاف نہیں۔ لوگوں نے اﷲ سے انکار
کیا ہے لیکن موت سے نہیں، کیوں کہ ہم روز اپنی آنکھوں سے موت کا مشاہدہ
کرتے ہیں۔ موت کے تلخ گھونٹ کو کوئی پینا نہیں چاہتا ،موت کی آواز کوئی
سننا نہیں چاہتا کون ہے جو اس حقیقت سے آنکھیں ملا سکے ۔
مگر اس کے باوجود موت ہر ایک کے پاس آتی ہے کبھی دبے پاؤں اور کبھی اعلان
کرتی ہوئی ،موت سے نہ امیر بچا نہ غریب ،نہ آقا نہ غلام ،نہ پیر نہ مرید نہ
ضعیف وناتواں نہ قوی وطاقتور
موت سے کس کو بھی رستگاری ہے ہی نہیں، آج اس کی اور کل کو ہماری باری ہے۔اس
وجہ سے رب کائنات ارشاد فرماتے ہیں تم جہاں کہیں بھی رہو موت تم کو پالے گی
اگر چہ تم مضبوط قلعوں میں بند ہو(النساء آیت نمبر )
امام غزالیؒ نے فرمایا ہے : "موت سب سے بڑی مصیبت اور سب سے بڑھ کر حادثہ
ہے؛ کیوں کہ اس سے زیادہ ہول ناک بات مخلوق نے نہیں دیکھی ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ دنیا میں کچھ شخصیات ایسی ہوتی ہیں جو مرنے کے بعد بھی
ہمیشہ کے لئے لوگوں میں تا حیات زندہ ہونے کے مترادف ہوتی ہیں، انہیں
شخصیات میں سے ایک عظیم الشان شخصیت پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو کے
نامور مقبول رومانی شاعر، افسانہ نگار اور پاکستان کے قومی ترانہ کے خالق
ابو الاثر حفیظ جالندھری کی ہے، جنہوں نے قومی ترانہ کے خالق کی حیثیت سے
شہرتِ دوام پائی۔
اگر کوئی قاری ان کی کارزار حیات کا سطحی مطالعہ بھی کرے تو وہ بلاساختہ
اور بلامبالغہ یہ کہنے پر مجبور ہو جائے گا کہ وہ محب وطن ہونے کے ساتھ
ساتھ، علم و عمل کے گہوارے ، دین و یقین کے شہ پارے ، فہم و ذکا ء کے
مہکارے، حق وبیان کے نقارے، نور و ضیا کے فوارے، رشد و ہدیٰ کے مینارے اور
اخلاق و رضا کا امنگ پارے تھے۔
اور اگر کوئی باریک بینی سے ان کی حیات کی تگ و دو کا مطالعہ کریں تو وہ
بلاشبہ یہ اعلان کرے گا کہ وہ اخلاص و احتساب، صبروتوکل، زہد و استغناء ،
ایثار وسخاوت، ادب و حیا، خشوع وخضوع کا پیکر اور حضور اکرم صلی اﷲ علیہ
وسلم کے سچے عاشق رسول تھے ۔
پیدائش اور ابتدائی تعلیم
حفیظ جالندھری ہندوستان کے شہر جالندھر میں 14 جنوری 1900ء کو پیدا ہوئے۔ان
کا نام محمد حفیظ رکھا گیا۔ قلمی نام حفیظ جالندھری تھا اور "ابوالاثر حفیظ
جالندھری" کا نام مولانا غلام قادرگرامی نے دیا،وہ ایک ایسے مسلم راجپوت
گھرانے سے تعلق رکھتے تھے جن کے جد اعلیٰ پرتھوی راج کی نسل سے تھے لیکن
انہوں نے مغل دور حکومت میں اسلام قبول کرلیا تھا۔ چونکہ انھوں نے طبیعت
قلندرانہ پائی تھی،جس وجہ سے ابتدائی تعلیم محلے کی جامع مسجد میں حاصل کی۔
اس کے بعد وہ 1907ء میں مشن ہائی سکول میں داخل ہوئے اور بعد ازاں گورنمنٹ
ہائی سکول جالندھر میں داخلہ لیا۔ انہوں نے 1909ء میں حصول علم کے لیے
دوآبہ آریہ اسکول میں ایڈمیشن حاصل کیا، جہاں انھوں نے ساتویں جماعت تک
تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد رسمی تعلیم کے حوالے سے وہ آگے نہ بڑھ سکے،ساتویں
جماعت کا امتحان دینے کے بعد دہلی، میرٹھ اور بمبئی وغیرہ گھومتے گھماتے
انھوں نے نہ صرف سیلانی زندگی کو ترجیح دی بلکہ زندگی کے تجربات، مشاہدات
اور ذاتی مطالعے سے اپنے ذوق جلانی کو مہمیز کیا۔ اردو، فارسی، ہندی اور
انگریزی پر عبور حاصل کیا۔آزادی کے بعد انہوں نے لاہور کی جانب نقل مکانی
کی۔حفیظ جالندھری صاحب نے اگرچہ کسی تعلیمی ادارے سے اسناد حاصل نہیں کیں،
لیکن تعلیم کی اس کمی کو انہوں نے بھرپور مطالعہ اور ریاضت سے پورا کیا اور
اپنی تعلیمی استعداد بڑھائی ۔انہوں نے اپنی محنت اور لگن سے نامور شعراء
میں جگہ بنا لی اس سلسلے میں انہیں اعلیٰ تعلیم یافتہ فارسی کے عظیم شاعر
مولاناغلام قادر بلگرامی کی سرپرستی حاصل رہی ہے۔ ان کے علاوہ سید سجاد
حیدر یلدرم، سرراس مسعود، خواجہ حسن نظامی، مولانا محمد علی جوہر، حکیم
اجمل خان اور نواب لوہار جیسی شخصیتوں کی قربت نے بھی اہم کردار ادا کیا۔
شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ حفیظ جالندھری پاک فوج میں ڈائریکٹر جنرل مورال،
صدر پاکستان کے چیف ایڈوائزر اور رائٹرز گلڈ کے ڈائریکٹر کے منصب پر بھی
فائز رہے۔
ادبی خدمات اور سیاست
حفیظ جالندھری کی شاعری کا محور محبت،مذہب اوروطن دوستی ہے۔حفیظ جالندھری
مرحوم نے تحریک آزادی میں بھی بھرپور انداز سے حصہ لیا انہوں نے آزادی کی
تحریک کو اجاگر کرنے کیلئے اپنی انقلابی شاعری کو ذریعہ بنایا حفیظ
جالندھری کو تمغہ حسن کارکردگی اور ہلال امتیاز سے نوازا جا چکا ہے۔حفیظ
جالندھری گیت کے ساتھ ساتھ نظم اور غزل دونوں کے قادرالکلام شاعر تھے۔ تاہم
ان کا سب سے بڑا کارنامہ شاہنامہ اسلام ہے جو چار جلدوں میں شائع ہوا۔ اس
کے ذریعہ انہوں نے اسلامی روایات اور قومی شکوہ کا احیا کیا جس پر انہیں
فردوسِ اسلام کا خطاب دیا گیا۔ حفیظ جالندھری کا دوسرا بڑا کارنامہ پاکستان
کا قومی ترانہ ہے اس ترانے کی تخلیق کی وجہ سے وہ ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔
حفیظ جالندھری نے یہ خوب صورت قومی ترانہ احمد جی چھاگلہ کی دھن پر تخلیق
کیا تھا اور حکومت پاکستان نے اسے 4 اگست 1954ء کو پاکستان کے قومی ترانے
کے طور پر منظور کیا تھا۔
شاعری
انھیں بچپن سے ہی نعت خوانی کا شوق تھا اور اپنے لڑکپن میں ہی انھوں نے
ترنم کے ساتھ مولانا الطاف حسین حالی اور دوسرے اہم شعراء کی نعتوں کو
محفلوں میں سنا کر داد وصول کرنا شروع کردیا۔ اپنی ایک کتاب نشرانے میں وہ
لکھتے ہیں۔
میری عمر بارہ سال تھی، میرا بچپن داؤدی بتایا جاتا اور نعت خوانی کی
محفلوں میں بلایا جاتا، اس زمانے میں نعت خوانی کی محفلوں میں بلایا جاتا
تھا اور اسی زمانے میں شعروشاعری کے مرض نے بھی مجھے آلیا۔ اس لیے اسکول سے
بھاگنے اور گھر سے اکثر غیر حاضر رہنے کی علت بھی پڑچکی تھی۔
در اصل حفیظ جالندھری کی شاعری کی خوبی اس کی غنائیت ہے۔ وہ خود بھی مترنم
تھے اس لیے انہوں نے ایسی لفظیات کا انتخاب کیا جو غنائیت کے پیکر پر پورے
اترتے ہیں۔ غنائیت کا سبب ان کی گیت نگاری بھی ہے۔ انہوں نے دوسری جنگ عظیم
کے زمانے میں فوجی گیت لکھے تھے اور گیت کو بھی انہوں نے نئے پیکر عطا کیے۔
شاید اسی لیے آج تک حفیظ جالندھری کی شناخت ابھی تو میں جوان ہوں کے حوالے
سے کی جاتی ہے۔ بلا شبہ یہ ایک پر اثر گیت ہے کیوں کہ اس میں جو الفاظ
استعمال کیے گئے ہیں وہ اپنی جگہ پر نگینے کی طرح جڑے ہوئے ہیں اور سامع کے
دل پر گہرا اثر چھوڑتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ بھی ہے کہ حفیظ کی غزلوں کا
سرمایہ کافی ہے اور حفیظ خود کو غزل گو کہلوانا پسند کرتے تھے۔ انہوں نے
غزل میں بہت سے نئے تجربات کیے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ سلیس زبان کا
استعمال کیااور گرد و پیش کے واقعات کو اپنی غزلوں کا موضوع بنایا۔ ایک طرح
سے انہوں نے غزل کو فطری پوشاک عطا کی۔ ان کے یہاں روایت سے بغاوت ملتی ہے
مثلاً واقعہ کربلا میں حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کی شجاعت کے بارے میں کہتے ہیں
کہ
یہ کون ذی وقار ہے، بلا کا شہسوار ہے جو ہے ہزاروں قاتلوں کے سامنے ڈٹا ہوا
یہ بلیقن حسینؑ ہے، نبی صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کا نوُرِعین ہے جو ہے ہزاروں
قاتلوں کے سامنے ڈٹا ہوا
اسی طرح اپنے دردِ دل کی شکایت غزل میں بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ
عرض ہنر بھی وجہ شکایات ہو گئی
چھوٹا سا منہ تھا مجھ سے بڑی بات ہو گئی
دشنام کا جواب نہ سوجھا بجز سلام
ظاہر مرے کلام کی اوقات ہو گئی
دیکھا جو کھا کے تیر کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی
یا ضربت خلیل سے بت خانہ چیخ اٹھا
یا پتھروں کو معرفت ذات ہو گئی
یاران بے بساط کہ ہر بازء حیات
کھیلے بغیر ہار گئے مات ہو گئی
بے رزم دن گزار لیا رتجگا مناؤ
اے اہل بزم جاگ اٹھو رات ہو گئی
نکلے جو میکدے سے تو مسجد تھا ہر مقام
ہر گام پر تلافء مافات ہو گئی
حد عمل میں تھی تو عمل تھی یہی شراب
رد عمل بنی تو مکافات ہو گئی
اب شکر ناقبول ہے شکوہ فضول ہے
جیسے بھی ہو گئی بسر اوقات ہو گئی
وہ خوش نصیب تم سے ملاقات کیوں کرے
دربان ہی سے جس کی مدارات ہو گئی
ہر ایک رہنما سے بچھڑنا پڑا مجھے
ہر موڑ پر کوئی نہ کوئی گھات ہو گئی
یاروں کی برہمی پہ ہنسی آ گئی حفیظؔ
یہ مجھ سے ایک اور بری بات ہو گء
عشقِ رسول
ان کی زندگی کا ایک بہت اہم رخ یہ تھا کہ وہ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ
وسلم سے بے پناہ عقیدت رکھتے تھے اور اس عقیدت نے ہی ان سے شاہ نامہ اسلام
تخلیق کروایا۔ ان کی اسی عقیدت نے انھیں مفکر پاکستان علامہ اقبال سے قریب
تر کیا اور بعد میں ان کے اور علامہ اقبال کے گہرے روابط قائم ہوئے۔ علامہ
اقبال نے حفیظ جالندھری کی روانگی حج کے موقعے پر ان سے بالخصوص کہا تھا کہ
وہ روضۂ رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم پر ان کے لیے بھی دعا کریں۔ حفیظ
جالندھری کے خود ان کی زبان سے نکلے ہوئے حرف و صورت کے آئینے ان تاریخی
الفاظ کا ذکر بھی اہمیت کا حامل ہے جو مرزا محمد منور نے "عزیز ملک" کی
لکھی ہوئی ایک کتاب میں کیا ہے۔ کہتے ہیں۔
ایک رات میں اور حفیظ صاحب لاہور میں ایک کرم فرمائے محترم سے مل کر ماڈل
ٹاؤن کی طرف لوٹے، رات کے دس بجے کا عمل ہوگا، چاندنی چٹکی ہوئی تھی، لاہور
میں فروری اور نومبر کی چاندنی خاصی بے ایمان ہوتی ہے۔ حفیظ صاحب موڈ میں
تھے۔ مجھ سے کہنے لگے، منور یار! غور تو کرو حفیظ کیا تھا کیا بن گیا۔
ساتویں جماعت سے بھاگا مگر شاعر اسلام، احسان الملک اور فردوسی اسلام
کہلایا۔ غریب تھا ریلوے اسٹیشن سے باہر قلیوں کی طرح لوگوں کا سامان اٹھایا
کرتا تھا۔ اب ملا جلا کر دو ہزار تنخواہ پاتا ہے۔ مستقل وظیفہ الگ ہے۔ ابھی
لڑکا تھا، گھر چھوڑنا پڑا۔ سر چھپانے کو جگہ نہ تھی، اب ایک کوٹھی یہ ہے
ایک کوٹھی وہ ہے۔ ایک لان، دوسرا لان، یہ درخت وہ درخت، وہ پھول۔ حفیظ ایک
گمنام تھا مگر اس کی شہرت براعظم پاک و ہند کی حدود کو پار کرکے بیرونی
ممالک میں پہنچ گئی ہے۔ اس کا کلام منبر پر پڑھا جارہا ہے، ریڈیو پر الاپا
گیا ہے۔ حفیظ کو خلفاؤں میں بلایا گیا، اس کو درباروں میں ممتاز مقام پر
بٹھایا گیا، منور یار! اﷲ نے یہ سب مجھے کیوں عطا کردیا، اس کا سبب فقط ایک
ہے اور وہ یہ کہ میں حضور اکرمﷺ کا نام لیوا ہوں اور لطف یہ ہے کہ یہ نام
بھی گلے کے اوپر ہی اوپر سے نکلتا رہا۔ اگر یہ نام دل کی گہرائیوں سے نکلتا
تو میں نجانے کیا ہوتا، اور پھر بڑے جذبے سے نعرہ زن ہوئے:
ہوجاؤں میں گم اور مجھے پا جائیں محمدﷺ
مذکورہ بالا الفاظ سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حفیظ جالندھری کی نظر میں
ان کی زندگی کے نشیب و فراز کیا حیثیت رکھتے تھے اور وہ کتنے صاف گو، کھرے
آدمی تھے پھر ان کے مزاج میں کتنا انکسار تھا.خلاصہ یہ کہ حفیظ جالندھری
ایک عظیم انسان تھے۔
تصانیف اور خدمات
حفیظ جالندھری کے شعری مجموعوں میں نغمہ بار، تلخابہ شیریں اورسوزو ساز،
افسانوں کا مجموعہ ہفت پیکر، گیتوں کے مجموعے ہندوستان ہمارا، پھول مالی
اور بچوں کی نظمیں اور اپنے موضوع پر ایک منفرد کتاب چیونٹی نامہ خصوصاً
قابل ذکرہے۔
وفات
21 دسمبر 1982 کو 82 سال کی عمر میں حفیظ جالندھری کا انتقال ہوا۔ انھیں
امانتاً ماڈل ٹاؤن کے قبرستان میں دفن کیا گیا اور کسی اہم جگہ دفنانے کا
فیصلہ سات سال تک التوا میں رہا پھر پنجاب حکومت نے اقبال پارک میں جگہ دے
دی، جہاں 1988 میں ان کے مزار کی تعمیر کا کام شروع ہوا جس کی تکمیل 1991
میں ہوئی۔ انھیں ادبی خدمات پر ہلال امتیاز اور پرائیڈ آف پرفارمنس دیے
گئے۔ کتبہ قبر پر تحریر ہے :
عرش کی رخصت لیے بیٹھا ہوں فرش خاک پر
سر مرا آسودہ ہے پائے رسولِ پاکﷺ پر |