عدالت عظمیٰ کے میزان پر شاہین باغ اور کسان تحریک

کسانوں کی تحریک کا تعلق معیشت سے ہے لیکن حکومت اس کو بدنام کرنے لیے اسے دفاع سے جوڑ کرعدل و قسط کا خون کررہی ہے ۔ اس سے قبل انسانی مساوات کی شاہین باغ تحریک کو وہ قومی سلامتی سے جوڑ کر دبانے کی سعی کرچکی ہے اس تناظر میں کنفیوشس کا ایک واقعہ قابلِ ذکر ہے۔ ملک چین میں’’کنفیوشس ‘‘ اسی طرح مشہور ہے جیسے یونان میں سقراط اور افلاطون ۔ اس عظیم چینی فلسفی سے پوچھا گیا کہ اگر ایک قوم کے پاس تین چیزیں انصاف، معیشت اور دفاع ہوںاور کوئی ایسی مجبوری آن پڑے کہ ان میں کسی ایک شئے کو ترک کرنا پڑجائے تو کس چیز کوچھوڑ دیا جائے؟کنفیوشس کا جواب تھا دفاع کو ترک کردو۔سائلنےمزید استفسار کیا کہ اگر باقی ماندہ چیزیں یعنی انصاف اور معیشت میں سے ایک کوترک کرنے کی نوبت آن پڑے تو کس کا انتخاب کیا جائے؟ کنفیوشس نے دو ٹوک معیشت کو چھوڑنے کا حکم لگا دیا۔

عصر حاضر کے تناظر میں یہ بالکل الٹی ترتیب ہے۔ فی زمانہ حکمراں دفاع کے نام پر عوام کوہر طرح کے جبر و استبداد کا شکار کرتے ہیں اور اسے قبول کرلیا جاتا ہے ۔ معاشی ترقی کی آڑ میں سارے اخلاقی حدود و قیود کو قدموں تلے روند دیا جاتا ہے لیکن کسی جبیں پر شکن نہیں آتی۔ جہاں تک عدل و انصاف کا تعلق ہے اس کو آخر میں رکھا جاتا ہے اور اس کی معدومی پر کسی کو افسوس نہیں ہوتا۔کنفیوشس کی ترتیب پر سائل نےاندیشے کا اظہار کرتے ہوئے حیرت سے پوچھااگر معیشت اور دفاع کو ترک کردیا جائےتو قوم فاقہ کشی کا شکار ہو جائے گی نیز دشمن اس پر حملہ کردیں گے؟ کنفیوشس نے اس خیال کی تردید میں کہانہیں! ایسا نہیں ہوگابلکہ انصاف کی وجہ سے اس قوم کو اپنی حکومت پر اعتماد ہوگااور لوگ معاشی مشکلات کے باوجود پیٹ پر پتھر باندھ کر دشمن کا دفاع کریں گے ۔ آج کل ناانصافی کے سبب عوام کا حکمراں پر اس طرح اعتبار اٹھ گیا ہے کہ کوئی خوشحال بھی دفاع کے لیے آگے نہیں آتا۔

عدل و انصاف اور خوشحالی کے درمیان تعلق کو خلیفہ عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے اس وقت واضح فرمایا جب کے کسی حاکم نے اپنے شہر کی ویرانی کا شکایت نامہ بھیج کر اس کو آباد کرنے کے لئے مال طلب کیا۔امیر نے جواب میں فرمایا اپنے شہر کو عدل و انصاف کے ذریعہ محفوظ کر کے شہر کے راستوں سے ظلم و زیادتی دور کر دوکیونکہ ظلم وجبر ہی شہر کی ویرانی کا باعث ہے۔ ملک میں پھیلی ہوئی معاشی بدحالی کا ایک سبب چہار جانب پھیلا ہوا جبر و استبداد ہے۔ اس کو مضبوط تر کرنے کی خاطر سرکار نے زرعی قوانین بنائے ہیں اور کسان اس کے خلاف سڑکوں پر اتر کر صدائے احتجاج بلند کررہے ہیں۔ حکومتِ وقت کے لیے جب اس کا مقابلہ کرنا مشکل ہوگیا تو وہ اپنی عزت بچانے کی خاطر عدالتِ پیچھے چھپنے کی کوشش کررہی ہے۔

کسان تحریک اور شاہین باغ کے معاملات کو چونکہ ایک ہی قاضیٔ اعظم نے سنا اس لیے موازنہ قدرےآسان ہے۔ اس تناظر میں عدالت عظمیٰ کے اندر کسان تحریک اور شاہین باغ کے حوالے اختیار کیے جانے والے رویہ کا معروضی جائزہ پیش نظر ہے۔ کسان تحریک پر ہونے والی عدالتی بحث کا شاہین باغ سے موازنہ کرنے سے قبل یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ چند ماہ قبل دیئے گئے شاہین باغ کے فیصلے پر ایک نگاہ ڈال لی جائے جس سے عدالت فی الحال نظریں چرا رہی ہے۔ شاہین باغ کے معاملے میں جسٹس سنجے کشن کی قیادت والی سپریم کورٹ کی بنچ نے کہا تھا کہ عوامی مقامات پر لمبے وقت تک دھرنے نہیں دیئے جاسکتے۔ کسان تحریک بہت جلد اپنا ایک مہینہ مکمل کرلے گی اس لیے اسے مختصر وقفہ تو نہیں کہا جاسکتا ۔ عدالت نے یہ بھی کہا تھا کہ مظاہرہ ایک طے مقام پر ہونا چاہیے۔ حکومت نے بادلِ ناخواستہ براڈی کا نرنکاری میدان تجویز کیا تھا مگر کسانوں نے وہاں جانے سے انکار کردیا اور عدالت وحکومت میں جرأت نہیں ہے کہ انہیں وہاں منتقل کرے ۔

اس وقت عدالت نے اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ جمہوریت اور عدم اتفاق ساتھ ساتھ چل سکتے ہیں مگر شاہین باغ جیسے عوامی مقام کا گھیراو برداشت نہیں کیا جاسکتا ۔ شاہین باغ کا مظاہرہ تو ایک چھوٹی سی سڑک پرتھا لیکن کسان احتجاج نےتو کئی ہائی ویز کو بند کردیا ہے تو انہیں کیسے برداشت کیا جارہا ہے؟ کسان تحریک سے جس طرح سرکار ڈر گئی ہے اسی طرح عدلیہ بھی خوفزدہ ہے۔ شاہین باغ کو خالی کروانے میں ڈھلائی کرنے والی دہلی پولس سے عدالت نے کہا تھا ایسے معاملات میں افسروں کو خود ایکشن لینا چاہیے عدالت کے پیچھے چھپ کر وہ نہیں کہہ سکتے جب عدلیہ کا حکم آئے گا ہم کارروائی کریں ۔ افسران کو شاہین باغ کے مظاہرین کو ہٹانے کی تلقین کرنے کا حکم دینے والے اب کسانوں سے بات چیت کا مشورہ دیتے نظر آرہے ہیں ۔ گزشتہ فیصلے سے جس طرح پولس کی حوصلہ افزائی کی گئی تھی کسان تحریک نے اس کی ہوا نکال دی ہے مگر مخالفت اور آمدورفت کے حق میں توازن قائم کرنےکا درس دینے والے جج صاحبان کو سانپ سونگھا ہوا ہے۔

شاہین باغ کے مظاہرین پر سختی سے فیصلہ کرنے والے کسان مظاہرین کے تعلق سے فرماتے ہیں کسان تشدد کو بڑھاوا نہیں دے سکتے حالانکہ شاہین باغ کے مظاہرین بھی پر امن تھے۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ وہ کسی شہر کو بلاک نہیں کرسکتے ،یہ خلاف حقیقت بات ہے۔ فی الحال دہلی کی مکمل گھیرا بندی کی جاچکی ہے۔ سپریم کورٹ نے اپنے تازہ فیصلے میں کہا کہ احتجاجی مظاہرہ اس وقت تک آئینی ہے جب تک اس سے مالی نقصان یا کسی کی جان کو خطرہ نہ ہو۔ عدالت نے ایک آزاد اور غیرجانبدار کمیٹی بنا نے اور اس کے سامنے دونوں فریقوں کواپنا موقف رکھنے کا مشورہ دیا۔ اس کمیٹی کے اندر مختلف کسان تنظیموں کے علاوہ پی سائی ناتھ جیسے دانشوروں کو شامل کرنے کا مشورہ دیا گیا۔ عدالت نے کہا کمیٹی کے فیصلے تک احتجاج جاری رہ سکتا ہے اور اس کا فیصلہ سب کو قبول کرلینا چاہیے لیکن کسان تو قانون کو واپس لینے کے مطالبے پر اڑے ہوئے ہیں اور حکومت اس کے لیے ہرگز تیار نہیں ہے۔
کسانوں کو سمجھانے منانے کے لیے عدالت نے کہا کہ ہم ان کی حالتِ زار کو سمجھتے ہیں اور ان سے ہمدردی رکھتے ہیں ۔ اس ہمدردی کا مظاہرہ شاہین باغ کی بابت دیکھنے کو نہیں ملا۔ عدلیہ نے آمدورفت کو سہل بنانے کے لیے کسانوں کو اپنا طریقہ بدل کر احتجاج جاری رکھنے کا مشورہ دیا۔ عدالت نے یقین دہانی کی کہ وہ زرعی قوانین کے خلاف کسانوں کے احتجاج کا حق تسلیم کرتے ہیں اور دبانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ عدالت صرف اس بات غور کررہی ہے کہ احتجاج کے سبب کسی کی جان نہ جائے لیکن کئی لوگ ابھی تک دورانِ احتجاج اپنی جان کا نذرانہ پیش کرچکے ہیں۔ عدالت نے کہا کہ ساری کسان تنظیموں کو کمیٹی میں شمولیت کا خط بھیجا جائے گا اور سرمائی چھٹیوں کے دوران تعطیلاتی بنچ اس معاملے کو دیکھے گی۔ کسانوں کے ساتھ جو نرمی برتی جارہی ہے وہ بہت خوش آئند ہے ۔ یہاں اس پر تنقید مقصود نہیں ہے بلکہ عدالت سے یہ توقع ہے کہ وہ تمام مظاہرین کے ساتھ بشمول شاہین باغ اسی طرح کا نرم رویہ اختیار کرے گی ورنہ اگر عدالت خود ناانصافی کی مرتکب ہوگی ۔ اس طرح پورے سماج سے عدل و قسط کا جنازہ اٹھ جائے گا۔

انصاف ایک تقاضہ تو یہ ہے کہ وہ سب کے لیے مہیا ہو اور دوسرا یہ کہ اس میں کوئی بھید بھاو نہ کیا جائے۔ اس کا دعویٰ تو ہر کوئی کرتا ہے مگر مثال پیش کرنے کی بات آتی ہے تو سب ناکام ہوجاتےہیں۔ اس بابت اسلام کے ہمنواوں کویہ امتیاز حاصل ہے کہا وہ اس ارشادربانی پر عمل کرتے ہیں کہ ”خبردارکسی کی دشمنی تمہیں اس کے ساتھ نا انصافی کرنے پر آمادہ نہ کرے“۔ غزوہ بدر کے موقع پر دوسرے قیدیوں کے ساتھ نبی ٔ کریم ﷺ کے چچا حضرت عباس بھی گرفتار ہوئے۔قیدیوں سے فدیہ لے کر انہیں رہا کیا جا رہا تھا ، فدیہ کی رقم چار ہزار درہم تھی لیکن امیر ترین لوگوں سے کچھ زیادہ رقم لی جا رہی تھی۔ حضرت عباس،چونکہ حضور ﷺ کے چچا تھے اس لیے چند صحابۂ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہؐ اجازت دیجیے کہ عباس کا فدیہ معاف کر دیا جائے ۔یہ سن کر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہرگز نہیں بلکہ عباس سے ان کی خوشحالی کے سبب حسب قاعدہ چار ہزار درہم سے زیادہ وصول کیے جائیں ۔ افسوس کہ شاہین باغ اور کسانوں کی تحریک نے عدالت عظمیٰ کے سامنے جو آئینہ رکھا ہے اس میں میزان عدل ایک جانب جھکا ہوا نظر آتا ہے ۔ ان دو تحریکات نے جمہوری نظام کے چاروں ستونوں کا کھوکھلا پن بے نقاب کردیا ہے۔

 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1231690 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.