محمد حنیف رامے - سیاست دان ٗ دانشور ٗ شاعر ٗ ادیب اور مصور

خامیوں سے مبرا کوئی شخص نہیں ہے لیکن کسی بھی شخص کی ملک و قوم کے لیے خدمات کا جائزہ لیتے ہوئے عمومی طور پر یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس نے اپنی زندگی میں وطن عزیز کی ترقی و خوشحالی کے لیے کیا کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں ۔اس اعتبار سے جب ہم محمد حنیف رامے کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر نظر دوڑاتے ہیں تو ہمیں خوبیاں قطار در قطار بنائے کھڑی دکھائی دیتی ہیں ۔ بالحاظ مجموعی محمد حنیف رامے نے اپنی زندگی میں بطور خاص صحافت ٗ مصوری ٗ سیاست ٗ ادب اور فنون لطیفہ کے میدان میں وہ نقوش چھوڑے ہیں جو تاریخ کے سینے پر ہمیشہ چمکتے اور دمکتے رہیں گے ۔
محمد حنیف رامے سے میری صرف ایک ہی ملاقات ہوئی تھی اور وہ بھی ان دنوں جب میں اپنی کتاب " ماں " کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی جستجو کررہا تھا اور یہ جاننے کا اشتیاق رکھتا تھا کہ جناب محمد حنیف رامے کی پشت اور کردار سازی میں کس عظیم ماں کا ہاتھ ہے جس کی بدولت انہوں نے جاگیردارانہ ماحول میں خود کو نہایت کامیابی سے نہ صر ف منوایا بلکہ ایک کامیاب انسان کی حیثیت سے اپنے وجود کو برقرار بھی رکھا ۔ اس اکلوتی ملاقات میں جناب رامے صاحب کی پرکشش شخصیت نے یقینا مجھے بے حد متاثر کیا ۔بلکہ پنجاب کا مقدمہ لکھنے کے حوالے سے میرے ذہن میں ان کے بارے میں جو تاثر ابھرا تھا وہ یکسر تبدیل ہوگیا کیونکہ ٹھیٹ پنجابی میں گفتگو کرنے کی بجائے انتہائی میٹھے اور دھیمے لہجے میں اردو زبان میں بات کرنے والے وہ انتہائی مہذب انسان نظر آئے اور اپنی گفتگو سے دوسروں کو گرویدہ کرلینے کا فن بھی وہ خوب جانتے تھے ۔ بہرکیف ان کی سوچ ٗ نظریات ٗ ادبی تخلیقات ٗ میدان سیاست اور صحافت میں کارناموں اور سرگرمیوں کا ہر اعتبار سے تجزیہ تو کیاجاسکتا ہے لیکن میری نظر میں ان کا سب سے بڑا کارنامہ ذوالفقار علی بھٹو جیسے فرعون صفت حکمران کے سامنے پنجاب کا مقدمہ پیش کرنا تھا ۔ عبدالقدیر رشک روزنامہ نوائے وقت میں شائع ہونے والے اپنے کالم میں لکھتے ہیں کہ" کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو جیسا عوام دوست حکمران برسراقتدار آکر خلاف توقع اپنے مخلص دوست ٗ پیپلز پارٹی کے بانی رہنما اور پنجاب کے وزیر اعلی محمد حنیف رامے کے منہ پر فائل مارنے کے ساتھ ساتھ رامے صاحب کو جیل بھی بھجوا سکتا ہے ۔ عبدالقدیر رشک مزید لکھتے ہیں کہ محمد حنیف رامے پنجاب سے کس قدر محبت کرتے تھے ، یہ بات ان کی لکھی ہوئی کتاب " پنجاب کا مقدمہ " سے ظاہر ہوتی ہے ۔

سچی بات تو یہ ہے کہ پنجاب جسے پاکستان" دل" کہاجاتا ہے ہر دور میں اسے ریگدا تو جاتا رہاہے لیکن اس کی وکالت کرنے کی جرات کسی نے آج تک محسوس نہیں کی بلکہ اب تو سرزمین پنجاب کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے لیے جناب رامے صاحب کی پسندیدہ اولین جماعت پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف ادھار کھائے بیٹھی ہے ۔یہ بات کسی سے مخفی نہیں کہ پیپلز پارٹی برسراقتدار آنے کے لیے ہمیشہ پنجاب کو استعمال کرتی رہی ہے لیکن اقتدار میں آنے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر آصف علی زرداری تک تمام جیالوں نے پنجاب اور اس کے مفادات کو نقصان پہنچانے کی ہر ممکن کوشش بھی کی۔ میں سمجھتا ہوں کہ پنجاب کا مقدمہ لکھنا ہی ذوالفقار علی بھٹو کی نظر میں جناب محمد حنیف رامے کا سب سے بڑا جرم بن چکا تھا حالانکہ یہ وہی رامے صاحب تھے جنہوں نے نہ صرف ذوالفقار علی بھٹو کو میدان سیاست میں قدم جمانے اور عوام میں مقبول بنانے گر سکھائے بلکہ پیپلز پارٹی کو عوامی جماعت بنانے میں اپنا لہو بھی شامل کیا لیکن ان کے ساتھ بھٹو خاندان اور پیپلز پارٹی کی جانب سے وہی کچھ ہوا جو پنجاب کے رہنے والے دیگر اکابرین کے ساتھ بھٹو دور میں کیاگیا ۔ بہرکیف میری ذاتی رائے میں پنجاب کی تاریخ محمد حنیف رامے کے ذکراورخدمات کے بغیر ہمیشہ نامکمل رہے گی جنہوں نے بیک وقت صحافت ٗ ادب ٗسیاست اور فنون لطیفہ میں قابل قدر خدمات انجام دیں ۔یہ با ت قابل ذکر ہے کہ محمد حنیف رامے نہ صرف تحقیق، تحریر، تقریر اور تصویر کے بھی ماہر تھے ان میں ایسی خداداد صلاحیتیں موجود تھیں جن کے بل بوتے پر انہوں نے اپنی شخصیت کو مخالفین سے بھی بلاشبہ منوایا ۔

وہ پنجاب کے ایک دور افتادہ پسماندہ علاقے اور تحصیل ننکانہ کے نواحی قصبے " بچیکی "کے ایک متوسط زمیندار گھرانے میں یکم مارچ 1930 ء کو پیدا ہوئے ۔دس سال کی عمر میں آپ حصول تعلیم کے لیے لاہور تشریف لے آئے اور1946 میں اسلامیہ ہائی سکول بھاٹی گیٹ لاہورسے میٹرک کاامتحان پاس کیا ۔جہاں فرزند اقبال ڈاکٹر جاوید اقبال ٗ کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان عبدالحفیظ کاردار اور امتیاز احمد آپ کے کلاس فیلومیں شامل تھے ۔ میٹر ک کا امتحان پاس کرنے کے بعد آپ نے مشہور زمانہ تعلیمی ادارے گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لے لیا اور 1952 ء میں اقتصادیات میں ایم اے کرلیا ۔ دوران تعلیم کالج میگزین "راوی " کے ایڈیٹر بھی رہے پھر گورنمنٹ کالج لاہورہی سے ایم اے فلسفہ کاامتحان پاس کیا ۔ یہیں پر ان کی ملاقات اپنی کلاس فیلو " شاہین بیگم" سے ہوئی۔ دونوں میں بڑھتی ہوئی ذہنی ہم آہنگی بعدازاں شادی جیسے مضبوط رشتے میں تبدیل ہوگئی ۔ان کی اولاد میں ایک بیٹا ابراہیم رامے اور بیٹی ڈاکٹر مریم رامے شامل ہیں ۔پہلی اہلیہ " شاہین رامے" کا انتقال 1989 میں ہوا جن کی رحلت کے بعد 1992 میں اپنے ایک دوست پرویز مراد کی بیوہ امریکی خاتون جوائس سے شادی کرلی جن کااسلامی نام سکینہ رکھا گیا ۔ سکینہ رامے بھی انتہائی پڑھی لکھی مہذب خاتون ہیں جو تاریخ ٗ بیالوجی اور سیاسیات پر گہری نظر رکھتی ہیں بلکہ متعدد غیر ملکی جریدوں میں باقاعدہ لکھتی بھی رہی ہیں ۔

1963 ء میں محمد حنیف رامے لارنس کالج گھوڑا گلی میں جغرافیہ کے استاد مقرر ہوئے۔ بعدازاں 1965ء میں وزارت تعلیم حکومت پاکستان کے ماتحت ادارے "مرکزی اردو سائنس بورڈ " کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے اور اردو زبان کو سرکاری زبان کا درجہ دینے کی جستجو کا آغاز بھی اسی ادارے سے آپ نے کیا ۔ 1967ء میں پیپلز پارٹی میں شمولیت کے بعد سرکاری عہدے سے استعفی دے دیا اور مکمل طور پر ذوالفقار علی بھٹو کے ہمرکاب ہوگئے اور اسلامی سوشلزم کی اصطلاح کو فروغ دینے والوں میں آپ کاشمار صف اول کے لوگوں میں ہوتا تھا بلکہ روٹی کپڑا مکان کانعرہ بھی آ پ ہی کی تخلیقی صلاحیتوں کا آئینہ دار تصورکیاجاتاہے ۔1970 ء کے الیکشن میں منتخب ہونے کے بعد آپ پہلے وزیر خزانہ پنجاب مقرر ہوئے۔ بعد ازاں1974 میں وزیر اعلی پنجاب منتخب ہوکر ایک سال تک اس عہدے پر فائز رہے ۔4 جولائی 1975ء کو آپ پیپلز پارٹی کی جانب سے سینیٹر منتخب ہوئے پھر1976 ء میں ذوالفقار علی بھٹو سے اختلافات کی بنا پر نہ صرف پیپلز پارٹی چھوڑ دی بلکہ سینیٹرکے عہدے سے بھی مستعفی ہوگئے ۔

اس لمحے کم ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو نے ڈیفنس آف پاکستان رولز کے تحت مقدمہ قائم کرکے نہ صرف آپ کو دلائی کیمپ میں قید کردیا بلکہ خصوصی عدالت کی جانب سے انہیں ساڑھے چار سال کی قید کی سزا بھی سنا دی گئی ۔ جنرل ضیاالحق کا مارشل لا لگتے ہی جولائی 1977 ء میں لاہور کورٹ نے رامے صاحب کو رہاکرنے کا حکم جاری کردیا رہائی کے بعد آپ امریکہ چلے گئے اور برکلے یونیورسٹی میں استاد کی حیثیت سے چھ سال تک فرائض انجام دیتے رہے ۔ وطن واپسی پر مساوات پارٹی کی بنیاد رکھی جس کا نعرہ " رب ٗ روٹی اور لوک راج " تھا تاہم یہ سیاسی جماعت عوامی مقبولیت حاصل نہ کرسکی۔ بعدازاں اس سیاسی جماعت کو 1986ء میں غلام مصطفی جتوئی کی قیادت میں بننے والی جماعت "نیشنل پیپلز پارٹی" میں ضم کردیاگیا۔

محمد حنیف رامے 12 سال بعد 1988ء میں ایک بار پھر پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئے اور 1993ء میں رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوکر سپیکر پنجاب اسمبلی منتخب ہوگئے ۔ محمد حنیف رامے کے خاندان کے سبھی لوگ خود کو باپ کی نسبت سے چودھری کہلواتے تھے صرف آپ نے اپنی غریب ماں کی مناسبت سے خود کو رامے کہلوانا پسند کیا جس کا اظہار مرحوم نے اپنی والدہ کے حوالے سے لکھنے جانے والے ایک مضمون میں بھی کیا۔آپ کا شمار تجریدی آرٹ کے بانیوں میں ہوتا ہے آپ کی مصوری اور خطاطی میں اتنی جدت ہے کہ ان کے فن کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا انہوں نے تین سو کے لگ بھگ پینٹگز " محمد ﷺ سیریز" اور اﷲ تعالی کے 99 ناموں کو کینوس پر رنگوں سے سجا کر امر کردیا ۔ ان کی اردو تصنیفات میں "پنجاب کا مقدمہ" ٗ "دب اکبر" اور" باز آؤ اور زندہ رہو"، "اسلام کی روحانی قدریں "،" موت نہیں زندگی" شامل ہیں جبکہ انگریزی تصانیف میں Again اور Second Adam شامل ہیں ۔

یہاں یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ محمد حنیف رامے کیا تھے ؟ اس سوال کا مختصر جواب تو یہی دیا جاسکتا ہے کہ محمد حنیف رامے کیا نہیں تھے ۔ وہ شریف النفس انسان اور ترقی پسند دانشور ٗ محقق ٗ درویش منش اور بااصول سیاست دان تھے ٗ منفرد ادیب اور صاحب اسلوب مصور اور خطاط بھی تھے ٗ مصنف ٗ ایڈیٹر ٗ پرنٹر اور پبلشر بھی تھے وہ پنجاب کے اعلی ترین سیاسی اور سرکاری عہدوں پر فائز رہے گورنر ٗ سپیکر ٗ سینیٹر اور وزیر اعلی پنجاب بھی رہے۔ وہ نظریاتی طور پر پیپلز پارٹی کا فکری اثاثہ تھے ۔آپ روحانی طور پر سائیں فضل حسین ( ڈیرہ نور پاک والے ) اور واصف علی واصف سے متاثر تھے ۔
اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ محمد حنیف رامے اپنی ذات میں خود ایک مکمل ادارہ تھے جن کی 70 سالہ زندگی کا احاطہ اس مضمون میں ناممکن ہے بلکہ ایک کی بجائے کئی کتابیں کم پڑ سکتی ہیں۔رامے صاحب کے اکلوتے صاحبزاد ے ابراہیم رامے ہیں اپنے عظیم والد کے حوالے وہ کیا رائے رکھتے ہیں ان کے خیالات اور تاثرات کا مختصر تذکرہ یہاں کرنا ضروری ہے۔"میرے بابا محمد حنیف رامے ایک مفکر ، دانشور،ادیب ،صحافی، مصوراور سیاستدان کے طور پر آج بھی زندہ ہیں۔لیکن میں جانتاہوں کہ ان کی کامیابیاں صرف ان کے زرخیز ذہن ہی کی مرہونِ منت نہ تھیں بلکہ اِن میں اس بات کا بہت عمل دخل تھا کہ وہ ایک حسّاس دل کے مالک تھے۔حسّاس دل کا مطلب کمزور دل ہر گز نہیں ہوتا۔حسّاس دل کے معنی ہیں محسوس کرنے والادل،دوسروں کے درد اورتکلیف پہ تڑپنے والا دل،ایسا دل جو ذہن کو ہر دم اُکسائے کہ کوئی ایسی کیمیا گری دکھائے کہ دُنیا سے درد،تکلیف،مفلسی، بے روز گاری،غلامی ،بے کسی، لاچاری، ظلم،بربریت ،سب کا خاتمہ ہوجا ئے۔حسّاس دل رکھنے والا شخص کمزور ہو ہی نہیں سکتا،وہ تو بہادر ہوتا ہے۔اُس کا دل اُسے جرأت دیتا ہے کہ وہ حق کی خاطر آتشِ نمرود میں بے خطر کود پڑے۔میں بہت اچھی طرح سے یہ جانتا ہوں کہ بظاہر ایک دھیمی طبیعت رکھنے والے میرے بابا کے سینے میں ہردم کیسی آگ دہکتی رہتی تھی۔یہی وجہ ہے کہ اپنی تمام تر زندگی میں مشکل سے مشکل وقت اورکٹھن سے کٹھن حالات میں بھی انھوں نے سچ اور حق کے راستے کو کبھی نہیں چھوڑا۔ایک مصّور ہونے کے ناتے جس جرأتِ اظہار سے قدرت نے انھیں نوازا تھا،اُس نے صحافت اور سیاست کے میدان میں بھی ان کے منہ سے کلمہء حق اداکرنے میں ان کی ہمیشہ معاونت کی۔اخلاقیات کی قدروں میں رہتے ہوئے بابا نے ہمیشہ اپنے موقف کی پیروی کی اوردلیل کے ذریعہ اپنے سے مختلف رائے رکھنے والوں کو قائل کیا ۔یہی وجہ ہے کہ آج ان کے سیاسی حریف بھی انھیں اچھے لفظوں میں یاد کرتے ہیں۔

حسّاس دل رکھنے والا صرف بہادر ہی نہیں ہوتا، محبت کرنے والا بھی ہوتا ہے۔

قرآنِ حکیم کے مطالعے نے جہاں بابا کو یہ بتایا کہ ربّ العالمین کو ہم سے اپنے لیے کچھ نہیں چاہیے،اُسے جو چاہیے اپنی مخلوق کے لیے چاہیے ، وہاں انھیں ’’یا وَدُود‘‘ کا اسمِ اعظم بھی سکھایا۔یہی وجہ ہے کہ ایک طرف انھوں نے اپنی تمام زندگی مخلوقِ خدا کی خدمت میں صرف کردی ، وہاں دوسری طرف آخری دم تک ہر خاص وعام میں بلا امتیاز محبت بانٹنے میں خرچ کر دی۔مجھے اورمیری بہن مریم کو ان کی آخری نصیحت بھی یہی تھی،’’آپس میں مِل جُل کر اور پیار محبت سے رہنا‘‘۔ان الفاظ کو ادا کرنے کے بعد علاج کی غرض سے لگائی گئی مشینوں نے اُنھیں کچھ بولنے کی اجازت نہ دی۔وہ لبوں کو جنبش دیتے اور ہم ،جوہمیں سمجھ آتا با آواز بلند دہراتے، وہ سر کو ہلا کر بتاتے کہ آیا ہم صحیح سمجھ پائے ہیں کہ نہیں․․․․․․فقرہ زیادہ تر انگریزی کے تین لفظوں پر مشتمل ہوتا تھا․․․․․․I Love You(مجھے تم سے محبت ہے)۔

رسولِ پاک ؐکا ایک سچا عاشق ہونے کے طورپر بابا نے صرف انسانوں ہی میں محبت اورخلوص نہیں بانٹا بلکہ رب العالمین کی بنائی ہوئی جو بھی تخلیق اُن کے قریب آئی ،اُسے بھی پیار اورتوجہ دی،چاہے وہ پرندے ہوں یا جانور، پودے ہوں یا درخت۔نبی پاکؐ سے اُن کی محبت کا ایک اور والہانہ اظہار اُن کی 300سے زائد وہ تصاویر (خطاطی کے نمونے) ہیں جن میں انھوں نے ’’محمد‘‘ کے مبارک نام کو ہر دفعہ ایک نئے اور خوبصورت انداز سے لکھاہے۔جن افراد نے بھی ان کو قریب سے دیکھا ہے وہ جانتے ہیں کہ حنیف رامے نے اپنی تمام تر زندگی نبی ِپاک حضرت محمدصلی اﷲ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے نقش ِقدم پرچلنے کی کوشش کی۔’’پہلے عمل کرو پھر تلقین‘‘ کے اصول ہی کو لے لیجئے۔بابا کی آخری تصنیف’’اسلام کی روحانی قدریں: موت نہیں زندگی‘‘جو ان کی زندگی کے آخری ایام میں سنگ ِ میل پبلی کیشنزنے شائع کی ،ہمیں کیا پیغام دیتی ہے؟’’کوئی شخص اچھا انسان بنے بغیر اچھا مسلمان نہیں بن سکتا۔اوراچھا انسان بننے کے لیے ضروری ہے کہ ہم ایمان، محبت،خیر، صداقت اور امن جیسی روحانی قدروں کو اپنائیں‘‘۔میں ان کی زندگی پر نظر ڈالتا ہوں تو مجھے صاف نظر آتا ہے کہ انھوں نے اپنی ذات کی سطح پرانھی روحانی قدروں کو ہمیشہ اوّلیت دی۔اسی لیے اقتدار کے ایوانوں میں کئی برس رہنے کے باوجود ان کے سیاسی مخالفین بھی ان کی شرافت ،ذہانت، قابلیت او ردیانت داری کی قسم کھاتے ہیں۔صحافی حضرات اکثر انٹرویو زکے دوران ان سے پوچھا کرتے تھے ، ’’آپ نے اپنے بچوں کے لیے کیا کیا؟‘‘ان کا ہمیشہ ایک ہی جواب ہوتا تھا،’’میں نے انھیں ایک اچھا انسان بنانے کی کوشش کی ہے‘‘۔

بابا کے اس دعوے کو سچ ثابت کرنے کا وقت آگیا ہے ۔میں سمجھتا ہوں کہ ان کا اکلوتا بیٹااور قریب ترین دوست ہونے کے حوالے سے مجھ پر یہ فرض ہے کہ میں ان کا پیغامِ محبت جہاں جہاں پہنچا سکتا ہوں، پہنچاؤں۔اور پاکستان میں بسنے والے کروڑوں غریبوں کی زندگی میں کوئی مثبت تبدیلی لانے کے لیے جوکچھ بھی مجھ سے ہو سکے ، کر گزروں۔ادب اور صحافت کے میدان میں محمد حنیف رامے کا نام کون نہیں جانتا۔گورنمنٹ کالج کے جریدے ’’راوی ‘‘ سے شروع ہونے والا یہ سفر،ماہنامہ’’ سویرا‘‘ اور ہفت روزہ’’ نصرت‘‘ سے ہوتا ہوا روزنامہ’’ مساوات‘‘ پر بظاہر ختم ہوگیا۔لیکن ان کی وفات سے چند دن پہلے تک بھی ان کے تازہ لکھے ہوئے فکر انگیز مضامین ملک کے تمام بڑے اخبارات میں شائع ہو رہے تھے۔اس سب کو سامنے رکھتے ہوئے میرے دل نے یہی فیصلہ کیا کہ مجھے بھی اپنی بات کہنے کے لیے قلم کا سہارا لیناچاہیے۔

شاید ہی کوئی ایسا اخبار ہو کہ جس کے مدیر سے بابا کے اچھے تعلقات نہ رہے ہوں۔سب ہی کے ساتھ باہم عزت اوراحترام کا رشتہ تھا لیکن خبریں کے چیف ایڈیٹر ضیاء شاہد صاحب سے اس رشتے میں دوستی اورمحبت کا عنصر بھی رچا بسا تھا۔زندگی کے نشیب و فراز میں محمد حنیف رامے اور ضیاء شاہد صاحب کا ایک لمبا ساتھ رہا ہے۔جس میں حق کی راہ پرشانہ بہ شانہ لڑتے ہوئے قید و بند کی صعو بتیں اکھٹی جھیلنا بھی شامل ہے۔اس تعلق کی گہرائی کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ جب ضیاء شاہد صاحب نے ’’خبریں‘‘ کا اجراء کرنے کا بیڑا اٹھایا تو وہ میرے بابا کے پاس آئے ۔انھوں نے کہا،’’رامے صاحب آپ ہمارے ساتھ کیا تعاون کر سکتے ہیں؟‘‘۔بابا مسکرائے اور کہا،’’میری سب سے قیمتی چیز ، میرا بیٹا ،ابراہیم ہے، اسے لے لیجئے اورجس محاذ پر کھڑا کرنا چاہیں، کر دیجئے‘‘۔ضیاء شاہد صاحب نے ان کی یہ پیشکش قبول کر لی اور مجھے چند اہم ذمہ داریاں سونپ دیں۔اﷲ کابڑا احسان ہے کہ میں ان ذمہ داریوں کاحق ادا کرنے میں کامیاب رہا۔

محمد حنیف رامے کو ہم سے بچھڑے یکم جنوری2021ء کو ٹھیک 20 برس گزر چکے ہیں۔جاننے والے جانتے ہیں کہ محمد حنیف رامے ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔وہ ایک مدّبراور دُور اندیش سیاستدان بھی تھے ۔مفکر بھی تھے اور دانشور بھی۔ادیب بھی تھے اور شاعر بھی۔مصورانہ خطاطی کے موجد بھی تھے اور اعلیٰ پائے کے مصور بھی۔اور سب سے بڑھ کر،ایک اعلیٰ ظرف انسان۔ ان کی شخصیت کا ایک مضمون میں احاطہ کرنا تقریباً نا ممکن ہے ۔چنانچہ اس مضمون میں ان کا آپ سے ایک’’دانشور اور ادیب ‘‘کے طور پر تعارف کروانا چاہوں گا۔محمد حنیف رامے گورنمنٹ کالج لاہور پہنچے تو یہاں بھی قدرت نے انھیں علم کی دولت سے مالا مال اُستاد اورعلم کے حصول میں ہر دم سرگرداں دوست فراہم کردیے۔غالب احمد،انتظار حسین،مظفر علی سیّداوراحمد مشتاق کالج کے ساتھی تھے اور ناصر کاظمی،احمد راہی ،شیخ صلاح الدین اور صلاح الدین محمود پاک ٹی ہاؤس کے مستقل بیٹھنے والوں میں سے تھے۔ان دوستوں کی صحبت میں بتائے ان گنت رت جگوں نے محمد حنیف رامے کے زرخیز ذہن میں کئی نئے چراغ روشن کر دیے۔

1955ء میں محمد حنیف رامے نے بیک وقت ’’راوی‘‘ اور ’’سویرا‘‘ کی ادارت سنبھال لی اور ان کی تحریریں تواتر کے ساتھ منظرِعام پر آنا شروع ہوگئیں۔1958ء میں محمد حنیف رامے نے ایک سنجیدہ ادبی رسالے ’’نصرت‘‘ کا اجراء کیا اور ساتھ ہی ’’البیان‘‘ کے نام سے ایک اشاعتی ادارہ بھی بنایا۔’’البیان‘‘ نے ’’زندہ کتابیں‘‘ کے عنوان سے سستی اور معیاری کتابیں چھاپنے کا سلسلہ شروع کیا تاکہ ہرخاص و عام کی اُن تک رسائی ہوسکے۔عمر بن خطاب اوردس پیغمبر جیسی دینی معلومات پر مبنی کتابوں کے ساتھ ساتھ ’’البیان‘‘ نے مشہور ِزمانہ کتابODYSSEYکا ترجمہ ’’جہاں گرد کی واپسی‘‘ بھی چھاپا۔پھر جہاں محمد حنیف رامے نے ذوالفقار احمد تابش سے مشہور ناول’’She‘‘کا بچوں کے لیے ترجمہ کروایا وہاں مجھے بھی ترغیب دی کہ Enid Blytonکے ایک ناول پر ماخوذ بچوں کے لیے ’’خفیہ جزیرہ‘‘ لکھوں۔یوں وہ ایک ایسے ادیب کے طور پر اُبھرے جس نے ادب میں نہ صرف اپنا حصہ ڈالا بلکہ ادب کی گراں قدر خدمت بھی کی۔

1961ء میں جب محمد حنیف رامے سیکڑوں کتابیں پڑھ چکے اور دُنیا کے علوم سے آشنا ہو چکے تو انھیں احساس ہوا کہ کائنات کی تمام کتابوں میں سب سے عظیم کتاب’’قرآن حکیم‘‘ کو انھوں نے اب تک اس طرح سے نہیں پڑھا جیسا کہ پڑھنے کا حق ہے۔چنانچہ وہ اپنا کاروبار بھائیوں کے سپرد کر کے اپنی شریک ِ حیات کے ساتھ کوئٹہ چلے گئے اوراپنے آپ کو ایک خود ساختہ غار ِحرا میں پابند کر کے قرآنِ حکیم اور اس کی تفاسیر کا گہرائی میں مطالعہ کیا ۔کم و بیش تین برس بعد 1963میں محمد حنیف رامے اس غارِحرا سے کندن بن کر باہر نکلے۔لاہور واپس آنے کے بعد انھوں نے ایک مرتبہ پھر ’’البیان‘‘ اور ’’نصرت‘‘ پر بھر پور توجہ دینا شروع کی اوربہت سی اہم کتابیں شائع کیں اور کئی فکر انگیز مضامین تحریر کیے۔1965ء کے دوران اُن کی دو کتابیں منظرِ عام پر آئیں ۔ایک ’’باز آؤ اور زندہ رہو‘‘ اوردوسری ’’دبّ ِاکبر‘‘۔

پہلا مضمون’’دبّ ِ اکبر‘‘ انسانی زندگی میں دوستی کے اصول کی معنویت پر بحث کرتا ہے۔ دوسرا’’ایمان،سرچشمہ ء عمل‘‘ ایمان کی اولین اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔تیسرا ’’اسلام کی امید‘‘ دین،علم اور فن کی کڑیاں ملاتا ہے۔چوتھا ’’فن کی ولادت‘‘ تخلیق کے عمل کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔پانچواں ’’فن کار کا زینہء پیچاں‘‘فن کے مدارج بیان کرتا ہے۔چھٹا ’’فن کار اور معاشرہ‘‘ فن کار اور معاشرے کے تعلق پر روشنی ڈالتا ہے۔ساتواں ’’ سامری کا بچھڑا اور بندھے ہوئے ہاتھ‘‘ سیاسی جماعتوں کے جواز پر سوال اٹھاتا ہے اور آٹھواں مضمون’’ صف آرائی امن اور ہم‘‘ امریکی خارجہ پالیسی اور پاکستان کے دفاع کے آتشیں مسئلے کا جائزہ لیتا ہے۔

1965ء کی جنگ کے بعد محمد حنیف رامے نے محسوس کیا کہ انھیں ملکی سیاست میں اپنا کردار اداکرنا چاہیے۔انھوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کی تشکیل میں ذوالفقار علی بھٹو کا ساتھ دیا اوریوں سیاست میں سرگرمِ عمل ہوگئے۔1985ء میں محمد حنیف رامے کی شہرہ آفاق کتاب’’پنجاب کا مقدمہ‘‘ شائع ہوئی۔اس کتاب نے پاکستان کے سیاسی اُفق پر تہلکہ مچا دیا اور ایک لمبا عرصہ زیرِ بحث رہی۔صوبائی خود مختاری کا مسئلہ پہلی مرتبہ پاکستان کے عوام الناس کے سامنے ایک مدّلل لیکن سلیس زبان میں کھول کر بیان کیا گیا تاکہ قاری پاکستان کے اس پیچیدہ مسئلہ کو صحیح تناظر میں دیکھ سکے۔پاکستان کے ایک نامور دانشور پروفیسرمحمد عثمان(مرحوم) نے اس کتاب کے بارے میں کہا ،’’یہ ایک بڑے اہم مگر اچھوتے موضوع پر بڑی مدّلل اور دلنشین بحث ہے۔بیان میں تازگی ،دلائل میں زور اور نیاپن ہے اور تحریر میں جوش اور تاثیر جو لکھنے والے کے گہرے خلوص اورملکی معاملات پر ان کی وسیع نظر پر دلالت ہے۔پنجاب کا مقدمہ بیک وقت پاکستان کا مقدمہ بھی ہے اور پاکستان کے چاروں صوبوں کا بھی۔ہمارے ملک میں سیاسی تحریروں ،بالخصوص اعلیٰ درجے کی سیاسی تحریروں اور تجزیوں کا قریب قریب فقدان ہے۔محمد حنیف رامے کی اس تحریر میں مصور کی آنکھ،ایک حساس ادیب کا دل اور ایک پختہ نظر سیاست دان کا ذہن ایسے توازن کے ساتھ بروئے کار آئے ہیں کہ یہ اوّل درجے کی سیاسی تحریرایک ادبی دستاویز کی صورت بھی اختیار کر گئی ہے۔اسلوب کی شگفتگی اور سلاست،دلائل کی محکمی اور خلوص کی دلکشی اس کتاب کو ہمارے سیاسی لٹریچر میں ایک منفرد مقام عطا کرنے کا موجب ہوگی‘‘۔

زندگی چلتی رہی ، آگے بڑھتی رہی ۔محمد حنیف رامے کا مو قلم اور قلم دونوں ہی نئے سے نئے پیکر تخلیق کرتے رہے ۔اور پھر2005میں محمد حنیف رامے نے پوری مسلمان اُمت کو اپنا نذرانہ ’’اسلام کی روحانی قدریں:موت نہیں ،زندگی‘‘ پیش کر دیا۔یہ کتاب ان کی زندگی کا نچوڑہے ۔ محمدحنیف رامے نے انگریزی میں ایک ناول AGAINبھی لکھا ۔آئیے ! آج میں ایک راز سے پردہ اٹھاتا ہوں۔ہو سکتا ہے محمد حنیف رامے کے چاہنے والوں کے لیے یہ ایک خوش خبری سے کم نہ ہو۔AGAINدراصل اُس ناول کا انگریزی ترجمہ ہے جو انھوں نے اُردو زبان میں ’’دوسرا آدم‘‘ کے نام سے 1983ء میں مکمل کیا تھا۔ بالآخر 2000ء میں یہ امریکہ سے انگریزی زبان میں شائع ہوا۔یہ ناول محمد حنیف رامے کی ایک عظیم تخلیق ہے جو انسانوں کو آپس میں دوستی اورمحبت کا پیغام دیتی ہے۔

یہاں ایک اوردلچسپ بات بھی آپ کو بتاتاچلوں۔بہت سے دوستوں نے یہ سوچ کر کہ جو انسان مصور بھی ہے،ادیب بھی ہے اوردانشور بھی ہے وہ شاعر تو ضرور ہوگا۔محمد حنیف رامے کے القاب میں ’’شاعر‘‘ کا اضافہ بھی کر دیا۔البتہ یہ حقیقت ہے کہ حنیف رامے کی شاعری کبھی بھی منظرِ عام پر نہیں آئی۔لیکن! انھوں نے اپنی زندگی کے آخری چند برسوں میں انگریزی اور اُردو دونوں زبانوں میں شاعری کی تھی۔جس کا میں شاہد ہوں۔چنانچہ اُن کی اُردونظموں کی کتاب’’دن کا پھول‘‘ کے نام شائع ہوچکی ہے۔

جیسے کہ میں پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ 1961-63ء کے دوران انھوں نے اپنے کاروبار اور دوسری مصروفیاتِ زندگی کوترک کر کے قرآن کریم کا گہرائی میں مطالعہ کرنے کی غرض سے کوئٹہ میں گوشہ نشینی اختیار کر لی تھی۔قرآنِ کریم کے اس سنجیدہ مطالعے کے بعد جوحقیقت اُن پر واضح ہوئی وہ یہ تھی کہ ربّ العالمین تو انسان سے اپنے لیے کچھ نہیں مانگتا وہ جوبھی مانگتا ہے اپنی مخلوق کے لیے مانگتا ہے۔اس لیے تو اس کے پیارے محبوب حضرت محمد ؐ جہاں راتوں کوالمزمل کے روپ میں عبادت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں وہاں دن کو ریاست کے امور کو سنبھالتے ہوئے بھی دیکھے جاتے ہیں۔لہٰذا سیاست کو ئی حرام چیز نہیں بشرطیکہ اُسے اپنے ذاتی اغراض و مقاصد کے لیے نہیں بلکہ اﷲ تعالیٰ کی مخلوق کی فلاح و بہبود کے لیے اپنایا جائے۔

لاہو رواپس آنے کے بعد محمد حنیف رامے نے ملکی سیاست میں فعال ہونے کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنا شروع کر دیا۔ان کی تحریروں میں سیاسی انگ واضح طورپر نمایاں ہونے لگا۔’’نصرت‘‘ کے شماروں میں دوسرے ترقی پسند مفکروں کے مضامین بھی شامل ہونے لگے اور یہ جریدہ ادبی ہونے کے ساتھ ساتھ سیاسی بھی ہو گیا۔پھر نصرت کا ’’اسلامی سوشلزم نمبر‘‘ شائع ہوا جو ملک بھر کی سیاسی محفلوں میں خوب زیرِ بحث رہا۔

ذوالفقار علی بھٹو تاشقند کے تنازعے کے حوالے سے استعفیٰ دے کر لاہور پہنچے تو محمد حنیف رامے نے چند دوستوں کے ہمراہ اُن سے ملاقات کی۔جناب بھٹو اُس وقت مسلم لیگ میں رہتے ہوئے اپنی سیاست کو آگے بڑھانے پر غور کررہے تھے لیکن محمد حنیف رامے اور ان کے دوستوں نے انھیں ایک نئی سیاسی جماعت بنانے کا مشورہ دیا۔جب بھٹو صاحب نے جاننا چاہا کہ نئی سیاسی جماعت کن خطوط پر تشکیل دینی چاہیے تو محمد حنیف رامے نے اُنھیں ’’نصرت‘‘ کا اسلامی سوشلزم نمبر دکھایا۔بھٹو صاحب نے خواہش ظاہر کی کہ انھیں اس پرچے کا انگریزی زبان میں خلاصہ دے دیا جائے ۔ چنانچہ راتوں رات محمد حنیف رامے نے اپنے دوستوں کی مدد سے یہ کام کرڈالا اور بھٹو صاحب وہ دستاویز لے کر واپس کراچی چلے گئے۔کچھ ہی عرصے بعد پاکستان پیپلز پارٹی معرضِ وجود میں آگئی اور پاکستان کی سیاست میں ایک تازہ لہر دوڑ گئی۔پیپلز پارٹی کی حکومت بنی تو محمد حنیف رامے کو پنجاب کی وزارتِ خرانہ کا قلمدان سونپا گیا۔محمد حنیف رامے نے اپنے اس دورِ وزارت میں جتنے بجٹ بھی پیش کیے وہ غریب عوام سے کیے گئے پیپلز پارٹی کے وعدوں کو پورا کرنے کی ایک بھر پور کوشش تھے۔1974ء میں محمد حنیف رامے پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ منتخب ہوگئے۔مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ اُس روز انھوں نے کوئی روایتی جشن منانے کے بجائے گریے کی حالت میں اپنے رب سے دُعا کی تھی کہ وہ انھیں اس منصب کے تقاضے پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔یقینا ،جو لوگ خدمت ِ خلق کا جذبہ لے کر سیاست میں آتے ہیں ،اقتدار ان کے لیے پھولوں کی نہیں کانٹوں کی سیج ہوتی ہے کیونکہ ان کی تو راتوں کی نیندیں اس فکر میں حرام ہو جاتی ہیں کہ اگر روزِحشر ربّ العزت نے اُن سے فرات کے کنارے پر مرنے والے ایک بھی کتے کی موت کا حساب مانگ لیا تو وہ کیا منہ دکھائیں گے۔

محمد حنیف رامے درمیانے طبقے سے تعلق رکھنے والے پنجاب کے پہلے بااختیار وزیرِاعلیٰ تھے۔نہ تو اُن کے سرپر جاگیر داروں والا طرّہ تھا اورنہ ہی مونچھوں پر مزارعوں کا خون لگا تھا۔اسمبلیوں میں بیٹھے جاگیرداروں اورسرمایہ داروں کی اکثریت نے پہلے دن ہی سے یہ کوشش شروع کردی کہ کسی طرح سے اس پڑھے لکھے، ادیب ،دانشور ،صحافی اور مصور وزیرِ اعلیٰ کو ناکام ثابت کیا جا سکے۔

محمد حنیف رامے کے لیے یہ ایک آزمائش کی گھڑی تھی۔اُن کے لیے لازم تھا کہ ذاتیات یا انتقامی سیاست کے بجائے اصولوں پر مبنی سیاست کے ذریعے جاگیردار ٹولے کی ان سازشوں کو ناکام بنادیں اور ساتھ ہی ایک ایسے منتظمِ اعلیٰ کے طور پر سامنے آئیں کہ پھر کوئی دوبارہ یہ نہ کہہ سکے کہ پنجاب کوچلانے کے لیے کسی پڑھے لکھے کی نہیں ایک جاگیر دار وزیرِاعلیٰ کی ضرورت ہوتی ہے۔

٭محمد حنیف رامے پنجاب کی تاریخ میں پہلے وزیرِ اعلیٰ تھے جنھوں نے ادیبوں ، صحافیوں ،فنکاروں اور فنونِ لطیفہ کے دوسرے شعبوں سے منسلک افرادکو لاہور شہر میں، اس بات سے قطع نظر کہ ان کی سیاسی ہمدردیاں کس جماعت کے ساتھ ہیں،پلاٹ الاٹ کیے۔البتہ خود وزیرِ اعلیٰ ہوتے ہوئے بھی اور ایک ادیب ،مصور اور صحافی ہوتے ہوئے بھی اپنے لیے ایک مرلہ زمین بھی الاٹ نہیں کرائی۔

٭ محمد حنیف رامے نے ملک کے دستور کے مطابق اختیارات کوگورنر کے بجائے وزیرِاعلیٰ کے عہدے کے ساتھ منسلک کردیا اور پارلیمانی جمہوریت کو پنجاب میں عملاً نافذ کر دیا۔

٭ محمد حنیف رامے نے عوام کوجلد انصاف مہیا کرنے کے لیے ایک سال کے اندر اندر ڈیڑھ سو سے زیادہ نئے مجسٹریٹ مقرر کیے۔پورے پاکستان میں سب سے پہلے اپنے دور میں عدلیہ اور انتظامیہ کی علیحدگی کی ابتداء کی اور ساہیوال اور سیالکوٹ کے اضلاع میں اس علیحدگی کوعملی شکل دے دی۔

٭محمد حنیف رامے نے پنجاب میں سیاسی اقتدار کو صوبائی اسمبلیوں سے بھی آگے براہِ راست عوام تک پہنچانے کے لیے لوکل گورنمنٹ کا انقلابی قانون بنایا،مگر مرکزی حکومت نے یہ کام روک دیا۔

محمد حنیف رامے نے پنجاب کی ترقی کی رفتار کو جس حد تک بڑھایا، اس کا ہلکا سا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ انہوں نے وزیرِاعلیٰ بن کر ایک سال کے اندر اس میں اڑتالیسکالج بنائے ۔ان میں لاہور کا علامہ اقبال میڈیکل کالج بھی شامل ہے۔محمد حنیف رامے نے دریائے سندھ کے پانی میں پنجاب کے جائز حصے کے لیے بات اٹھائی اور پنجاب کا کیس پوری تیاری کے ساتھ لڑ رہے تھے کہ ان سے استعفیٰ طلب کر لیا گیا۔محمد حنیف رامے نے پنجاب میں وارث شاہ ؒ صاحب کے مزار کی تعمیر شروع کرائی اور اس کے لیے دس لاکھ روپے دیے۔

25برس کی عمر میں محمد حنیف رامے نے برصغیرپاک و ہند کے مشہور ادبی جریدے ’’سویرا‘‘ کی ادارت سنبھالی اور ساتھ ہی گورنمنٹ کالج لاہور کے پرچے ’’راوی‘‘ کے بھی ایڈیٹر بھی بنا دیے گئے۔1960ء کے عشرے میں اُنھوں نے اپنے ادبی رسالے’’نصرت‘‘ کا آغاز کیا۔ان کے چھوٹے بھائی محمد حفیظ چودھری ،بھتیجا ریاض احمد چودھری اور دوست محمد سلیم الرحمن بھی ان کے ساتھ تھے۔ ’’نصرت‘‘ نے بہت جلدادبی حلقوں میں اپنا مقام بنا لیا اور ملک بھر کے دانشوروں،ادیبوں اور فنونِ لطیفہ سے تعلق رکھنے والے احباب میں مقبول ہو گیا۔ساتھ ہی محمد حنیف رامے ایک سنجیدہ دانشور اور اچھے ادیب کے طور پر پہچانے جانے لگے۔

محمد حنیف رامے نے آرٹ کے کسی تدریسی ادارے سے تعلیم حاصل نہیں کی بلکہ گورنمنٹ کالج لاہور سے اقتصادیات میں ایم ۔اے۔ کیا۔گورنمنٹ کالج لاہور میں قیام کے دوران ہی محمد حنیف رامے کے اندر چھپا ہوا مصور یک دم باہر آگیا۔گورنمنٹ کالج کے رسالے ’’راوی‘‘ کے مدیر بنے اور اس کے لیے ایک نیا سر ورق تخلیق کیا۔یہ سرورق تجریدی آرٹ کا شاہکار تھا اور اگر یہ کہا جائے کہ یہ پاکستان میں تجریدی مصوری کا پہلا نمونہ تھا تو کوئی غلط نہ ہوگا۔صوفی غلام مصطفی تبسم کی تائید کے بدولت یہ سر ورق قبول کر لیا گیا اور راوی 50برس بعد نیا لباس زیب تن کیے ظہور پذیر ہوا۔محمد حنیف رامے کے بڑے بھائی نذیر احمد چودھری،رشید احمد چودھری اور بشیر احمد چودھری کے اشاعتی اداروں کا شمار ملک کے اعلیٰ ترین ناشروں میں ہوتا تھا۔چنانچہ ان کے ہاں سے چھپنے والی بہت سی کتابوں کے سر ورق تخلیق کیے۔پھر کچھ کتابوں کے لیے تشریحی تصاویر (illustrations)بھی بنائیں۔ان میں نیا ادارہ سے چھپا ہوا ’’دیوانِ غالب‘‘ سر فہرست ہے۔اس دیوان کو نیشنل بک سنٹر آف پاکستان نے محمد حنیف رامے کی دل کو موہ لینے والی اورغالب کے اشعار کے مفہوم کو ایک نئے رنگ میں اجاگر کرتی ہوئی تصاویر اور اعلیٰ ترین سرورق کی بدولت1965ء کی خوبصورت ترین کتاب قرار دیا اور انعام سے نوازا۔اس کے علاوہ طلسم ہوش رُبا،باغ و بہار،امراؤ جان ادا، فولک ٹیلز آف پاکستان(Folk Takes of Pakistan)اور بے شمار کتابیں ہیں جن میں محمد حنیف رامے کے فن پارے کتاب کی زینت میں اضافہ کرتے دیکھے جا سکتے ہیں۔کتابوں کے سرورق بنانا محمد حنیف رامے کا مصوری کے حوالے سے پہلا عشق سمجھا جا سکتا ہے۔انھوں نے کم و بیش 250سر ورق بنائے جو ایک طرح سے آرٹ کے حوالے سے ایک بہت بڑی خدمت ہے۔عام آدمی کو تصاویر کی نمائش دیکھنے کا موقعہ کم کم ہی ملتا ہے ۔البتہ ایک اچھی کتاب ہزاروں کے ہاتھوں میں پہنچ جاتی ہے۔محمد حنیف رامے کے بنائے ہوئے دلکش سر ورقوں نے لاکھوں افراد کو آرٹ اور مصوری سے متعارف ہونے کا بہترین موقعہ فراہم کیا۔سر ورق سے ان کا یہ گہرا لگاؤ آخری دم تک جاری رہا اورجب بھی کسی دوست یا صاحبِ ادب نے فرمائش کی تو انھوں نے بلا معاوضہ پورا کیا۔ان کے بنائے ہوئے بہت سے سر ورق آپ کو اسلم کمال صاحب کی منفرد کتاب’’گرد پوش: کتاب کا اولین تعارف ‘‘ میں بہ کثرت نظر آئیں گے ۔یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ ان کا آخری فن پارہ بھی ایک سرورق ہی تھا ۔یہ جناب افتخار عارف صاحب کی کتاب’’ شہر علم کے دروازے پر‘‘کا سر ورق تھا۔اس میں ’’علی‘‘ کے لفظ کو پس منظر میں اس طرح سجایا گیا ہے کہ وہ موت کے اندھیروں میں رہبری بھی کر رہا ہے اورماحول میں زندگی کے رنگ بھی بھر رہا ہے۔تجریدی آرٹ کی دنیا میں قدم تو محمد حنیف رامے نے راوی کا سر ورق بنا کر پہلے ہی رکھ دیا تھا۔ اب کالج سے فارغ التحصیل ہوکر انھوں نے باقاعدہ مصوری کا آغاز کر دیا۔لاہور ، کراچی اور ملک کے دوسرے بڑے شہروں میں ان کی بنائی ہوئی تصاویر کی نمائشیں منعقد ہوئیں اور تھوڑے ہی عرصے میں ان کا شمار ملک کے جانے پہچانے مصوروں میں ہونے لگا۔ہر دم نئے سے نئے امکانات کو دریافت کرنے کی جستجو میں جُتا ہوا یہ مصور خوب سے خوب تر کی تلاش میں مصوری کے سمندر میں غوطہ زن ہو گیا۔اور بالآخر 1957ء میں ایک ایسا موتی کھوج لایا کہ جس کی چمک نے دنیا کی آنکھیں روشن کر دیں۔’’بسم اﷲ‘‘کی یہ تصویر مصورانہ خطاطی کا پوری دنیا میں پہلا شاہکار تھی۔جہاں یہ فن پارہ تجریدی آرٹ اور روایتی رسم الخط کے امتزاج کا بہترین نمو نہ تھا۔وہاں یہ استاد اﷲ بخش سے لی گئی مصوری کی تعلیم اور جناب محمد حسین شاہ صاحب سے سیکھی گئی خطاطی کے ملاپ کا ایک دلکش مرکب بھی تھا۔محمد حنیف رامے کے ہم عصروں نے مصوری کی دنیا میں اس نئی جہد کو بہت تنقید کی نظر سے دیکھا اور انھیں اس طرف جانے سے روکنا بھی چاہا۔یہ الگ بات ہے کہ محمد حنیف رامے کی ایجاد کردہ مصورانہ خطاطی کی مقبولیت اورعوام میں اس کی قبولیت نے دس برس بعد خود انھیں بھی اس جانب راغب کر دیا اور پھر ہم نے دیکھا کہ خطاطی اور مصورانہ خطاطی کا ایک سیلاب آگیا۔بڑے بڑے مصوروں نے اپنے اپنے رسم الخط ایجاد کیے اور پھر اس کے دائرے میں رہتے ہوئے کام کے انبار لگا دیے۔

محمد حنیف رامے ،جنھوں نے اپنے دیرینہ دوست ناصر کاظمی کے اس مصرعے ’’ حرف بولتے ہیں کہ لفظوں کی قوسوں میں جاں ہے‘‘ سے تحریک پا کر اس جہد کا آغاز کیا تھا ،ایک مرتبہ پھر اس فن کو نئے سے نئے امکانات سے روشناس کرانے نکل کھڑے ہوئے ۔قرآن عظیم کے سنجیدہ طالب علم اور نبی پاکؐ کے اس سچے عاشق نے اس مقصد کے لیے اسم مبارک ’’محمد‘‘ کا انتخاب کیا۔اپنے آپ کو صرف دو رنگوں ،سفید اور سیاہ کا پابند رکھتے ہوئے محمد حنیف رامے نے ’’محمد‘‘ کے مبارک اسم کو 120مختلف انداز سے مصور کیا اور 1992میں لاہور آرٹ گیلری میں ان کی نمائش کی گئی۔

شاعر تو نعت لکھتے ہی رہتے ہیں لیکن کسی مصور کی جانب سے نبی پاک ﷺ کی شان میں کہی گئی یہ پہلی نعت تھی اور وہ بھی ایک نہیں بلکہ ایک سو بیس۔اس سے پہلے 1985ء میں جب محمد حنیف رامے جلا وطنی کاٹ کر واپس پاکستان آئے تو میرے اصرار پر ایک نمائش الحمراء آرٹ کونسل میں منعقد کی گئی تھی اور وہ جو بھول چکے تھے کہ محمد حنیف رامے ایک مصور بھی ہیں ،ان کے حافظے کو تازہ کیا جا چکا تھا ۔ لیکن اس ’’محمد سیریز‘‘ کی نمائش نے پورے ملک کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور اس بات کا واضح اعلان کر دیا کہ محمد حنیف رامے اول و آخر ایک مصور ہے جس نے دنیا کی نظروں میں مصوری سے کنارا کشی کر لی تھی لیکن پھر بھی حقیقت میں اس کا ساتھ کبھی نہ چھوڑا تھا۔اﷲ تعالیٰ نے اسے جس فن سے نوازا تھا ،اس نے کروٹ کروٹ اس کی آبیاری کی تھی۔

اس نمائش کو دیکھنے والوں نے یہ ضرور سوچا ہو گا کہ اسم مبارک ’’محمد‘‘ کہ جو اصل میں تین حروف پر مبنی ہے (یعنی جس میں ’’م‘‘ دو دفعہ اور باقی دو حرف’’د‘‘ اور ’’ح‘‘ ہیں)کو ایک سو بیس 120مرتبہ لکھنے کے بعد محمد حنیف رامے کے قلم کی سیاہی ختم ہو چکی ہو گی۔لیکن محمد حنیف رامے کے قلم میں سیاہی استعمال ہی نہیں ہوتی تھی ۔اس میں تو نبی پاک ﷺ سے والہانہ محبت کا وہ نور بھرا رہتا تھا جسے کبھی زوال نہیں آتا۔محمد حنیف رامے نے اپنی ازلی نعت خوانی جاری رکھی اور بہت سی تصاویر کے فروخت ہو جانے کے باوجود بھی میرے پاس اس وقت ان کی بنائی ہوئی ’’محمد سیریز ‘‘ کی 300سے زائد تصاویر موجود ہیں۔

اﷲ کے کلام میں ڈوبے ہوئے محمد حنیف رامے نے جہاں اس کے محبوب کے نام کو سیکڑوں خوبصورت انداز میں مصور کیا وہاں اس کے اپنے 99ناموں کو بھی کینوس پر رنگوں سے سجا کر امر کردیا۔اپنے اس کام کا آغاز انھوں نے 1980ء میں امریکہ میں اس وقت کیا جب وہ پاکستان میں سیاسی جماعتوں پر پابندی کے بعد وہاں برکلے یونیورسٹی میں پڑھا رہے تھے۔اس سلسلے ہی کی ایک خوبصورت تصویر’’المتکبر‘‘ لاہور کے عجائب گھر کی زینت ہے۔1985میں وطن واپس آنے کے بعد اﷲ تعالیٰ کے مبارک اسماء کی مصورانہ خطاطی کا یہ سلسلہ منقطع ہو گیا اور محمد حنیف رامے کے شب و روز ’’محمد سیریز‘‘ میں صرف ہونے لگے۔2001ء کا سال تھا، ایک روز مجھے کہنے لگے ،’’یار! مجھ پر ایک بوجھ ہے ۔ میں نے اﷲ تعالیٰ کے 99نام مصور کرنے کا سوچا تھا لیکن پھر درمیان میں ہی چھوڑ دیا۔سوچتا ہوں کیوں نا یہ سلسلہ بھی پورا کر ہی ڈالوں۔آخر نعت کے ساتھ حمد بھی تو ضروری ہے‘‘۔وقت کی قلت کو پیش نظر رکھنے ہوئے انھوں نے اﷲ تعالیٰ کے مبارک ناموں کو مختلف رنگوں میں ڈھالنے کے بجائے ’’محمد سیریز‘‘کی طرح سفید اور سیاہ کے اشتراک سے مصور کرنا شروع کر دیا۔ہر صبح میرے ساتھ میرے دفتر آجاتے اور شام کو اٹھنے سے پہلے ایک یا دو تصاویر مکمل کر لیتے۔اتوار کے علاوہ کوئی ناغہ نہ کرتے ۔اس لیے دو ماہ کے قلیل عر صے میں99تصاویر تیار ہو گئیں۔یہ تصاویر ’’محمد سیریز‘‘ کی طرح اپنی مثال آپ ہیں۔ہر تصویر دوسری تصویر سے مختلف ہے۔اﷲ تعالیٰ کے ہر پاک نام کے مفہوم کو سامنے رکھتے ہوئے نئے اور اچھوتے انداز میں بنائی گئیں یہ تصاویر بابا کا نہ صرف میرے لیے بلکہ تمام مسلمانوں کے لیے اور فن کی دنیا سے تعلق رکھنے والے ہرفرد کے لیے ایک انمول خزانہ ہے۔

 

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 802 Articles with 785614 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.