بات تو کرنی ہی ہوگی۔۔۔۔

 اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم کی تشکیل کے بعد سے ملک میں باقاعدہ سیاسی محاذ آرائی جاری ہے اور ڈھائی سال اپوزیشن کے احتساب کو انجوائے کرنے والی پی ٹی آئی حکومت بھی شدید دباؤ کی شکار نظر آرہی ہے اپوزیشن راہنما بڑے وثوق کے ساتھ حکومت کے جانے کی بات دوہرا رہے ہیں انکے اس اعتماد کی کیا وجہ ہے مولانا فضل الرحمان ہوں مریم نواز یا بلاول بھٹوسبھی حکومت کے جانے کی تاریخیں اتنے یقین سے کیسے دے رہے ہیں سمجھنے کی کوشش کی جانی چاہئے کہ یہ محض دھمکی نہیں اپوزیشن اسلام آباد جانے ہی والی ہے اپوزیشن کی جانب سے حکومت کی تبدیلی کے لئے جنوری فروری کی بات کی جارہی ہے اور آدھے سے زیادہ اپوزیشن ارکان اپنے استعفے جیب میں لئے پھر رہے ہیں خاص طور پرن لیگی اراکین اسمبلی تو اپنے استعفے دینے کے لئے بے چین ہیں اورانکی اکثریت اپنے استعفے قیادت کے حوالے بھی کر چکی ہے البتہ استعفوں کا آپشن استعمال کرنے پر پی ڈی ایم میں مشاورت ابھی جاری ہے 31دسمبر اس کے لئے حتمی تاریخ کہی اور سمجھی جارہی ہے لاہور کے جلسے پر تنقید سہنے کے بعد اپوزیشن دوبارہ تازہ دم ہو رہی ہے اور اس نے مردان میں ایک بھرپور جلسے سے واپسی کی ہے اور اور گڑھی خدا بخش میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے یوم شہادت پر جتنا بڑا اجتماع ہوا ہے اس سے اپوزیشن میں ایک بار پھر جان پڑ گئی ہے اور وہ نئے جوش و ولولے کے ساتھ ایک بار پھر حکومت پر حملہ آور ہوگئی ہے اور اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ ا اعلان کر دیا گیا ہے ملک میں جاری اس سیاسی کشمکش کا نتیجہ کیا ہوگا کیا اپوزیشن حکومت گرانے میں کامیاب ہو سکے گی یا نہیں نتائیج کے بارے کچھ یقین سے نہیں کہا جا سکتا مگر کیا ایسا کر لینے کے بعد اسٹیبلشمنٹ کا پاکستانی سیاست میں پہلے دن سے موجود سیاسی کردار یکسرختم ہو جائے گا اور پلک جھپکتے ہی ملک میں خالص جمہوریت دستیاب ہوجائے گی اسکا جواب ناں میں ہی ملتا ہے مکمل اور خالص جمہوریت کی منزل کے لئے ابھی پاکستانی قوم کو تربیت کے عمل سے گزرنا ہے اور اسکے لئے بہت سا وقت درکار ہے ،اس ،منزل تک جانے کا پہلا زینہ یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی حمایت ہی سے سہی لیکن ملک میں الیکشن کے ذریعے بننے والی حکومتیں اپنی مدت پوری کریں تاکہ جمہوری نظام خلل کے بغیر آگے بڑھ سکے اور ڈکٹیٹر شپ کاراستہ ہمیشہ کے لئے بند کیا جا سکے اس وقت اگر اسٹیبلشمنٹ لائے ہوئے وزیر اعظم عمران خان اپوزیشن کے مطالبے پر استعفیٰ دے کرچلے بھی جائیں اورپھراسکے بعد اپوزیشن جماعتوں کا اپنا منتخب وزیر اعظم آجائے تب بھی سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار فوری طور پر محدود یا ختم نہیں کیا جا سکے گا ، میاں نواز شریف کو اپنی آخری حکومت کے دوران وزیر اعظم ہونے کے باوجود اس قسم کے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ چکا ہے ، موجودہ حالات میں وزیر اعظم عمران خان کی پوزیشن کو دیکھا جائے تو بظاہر وزیر اعظم اور فوجی قیادت ایک پیج پر ہے لیکن عمران خان آخر کوملک کے وزیر اعظم ہی توہیں اورہمارے ملک میں وزرات عظمیٰ دیکھنے کو پرکشش مگر تاریخ بتاتی ہے کہ یہ درحقیقت ایک ایسا’مظلوم‘ عہدہ ہے کہ اس کی مدت اسٹیبلشمنٹ کی طے کردہ اور لگ بھگ دو ڈھائی سال ہوتی ہے اسکی بڑی مثال ظفراﷲ خان جمالی مرحوم ہیں ان جیسے دھیمے مزاج کے وزیر اعظم کو بھی فارغ کر کے شوکت عزیز کو لایا گیا تھا قبل ا زیں اسٹیبلشمنٹ کے اپنے لائے ہوئے وزیر اعظم میاں نواز شریف اور اسٹیبلشمنٹ سے برسر پیکاربے نظیر بھٹو شہید کو بھی دو ڈھائی سال حکومت کرنے کے بعد فارغ کرایا جاتا رہا ہے اس لئے یہ عین ممکن ہے کہ موجودہ وزیر اعظم جن کے پاس اپنی حکومت کی اچھی کارکردگی کا بھی کوئی ریکارڈ نہیں بلکہ اب تو کئی ہزار ارب روپے کی خرد برد اور کرپشن کا الزام بھی لگ چکا ہے ممکنہ طور پرگھر چلے جائیں آٹا چینی ادویات اور پشاور میٹرو سکینڈل انکی حکومت کو گھر بھیجنے کے لئے کافی ہے لیکن کیا انکے جانے سے وہ بڑی لڑائی جسے مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف انکی صاحبزادی مریم نواز اور پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان سمیت اپوزیشن کی دیگر جماعتوں کے لیڈر اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ معرکہ قرار دے چکے ہیں کیسے ختم ہوسکتی ہے ، فرض کیجئے کہ مسلم لیگ ن جس کے بارے میں تاثر ہے کہ پنجاب میں اسکا ووٹ بنک ابھی تک قائم ہے اگر اگلی حکومت بنانے میں کامیاب ہو بھی جاتی ہے تو کیا گارنٹی ہے کہ اسکے خلاف دھرنوں اور جلسے جلوسوں کا کھیل نہیں کھیلا جائے گا یہ کیسے اور کیونکر ممکن ہو گا کہ اسٹیبلشمنٹ اپنی وہ ساری محنت اکارت جانے دے گی جسکا ذکر مولاناعبدالغفور حیدر ی ایک اہم شخصیت کے حوالے سے کر چکے ہیں محاذ آرائی کا حقیقی خاتمہ کرنے کے لئے اپوزیشن اور حکومت کے ساتھ ساتھ اصل فریق اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مکالمہ کرنا ہوگا اور یہ انتہائی نا گزیر ہوچکا ہے ، سیاستدانوں کے بارے اسٹیبلشمنٹ کی رائے اچھی نہیں وہ انہیں کرپٹ سمجھتی ہے اور اپوزیشن راہنماؤں کو جن مقدمات کا سامناہے انکو ختم کرنے کے لئے فوجی قیادت کسی قسم کی مدد کرنے سے صاف انکار کرچکی اسی طرح مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف پاکستانی سیاست میں ایک ایسے بیانیہ پر کھڑے ہو گئے ہیں جو حالات کو مسلسل ڈیڈ لاک کی جانب لے جا رہا ہے اور شاید اس بیانیہ پر آنے والے دنوں میں میاں نواز شریف کا ساتھ دینے والے کم پڑجائیں کیونکہ اسی بیانیہ کی کامیابی کے لئے چلائی جانی والی پی ڈی ایم کی تحریک کے مجاہدین(کارکنان) کے جذبے کا یہ حال ہوچکا ہے کہ وہ اپنے قائد کی تقریرسنے بغیر جلسوں سے واپس جانے لگتے ہیں اور انکی خاطر ٹھنڈتک برداشت کر نے کو تیا رنہیں ہیں مینار پاکستان جلسے کی جگ ہنسائی کی ایک وجہ کارکنوں کی مایوسی اورعدم دلچسپی بھی تھی ،ویسے بھی میاں نواز شریف کی جماعت کا تحریک چلانے کے حوالے سے سابقہ ریکارڈ اتنا اچھا نہیں اور مشرف دور میں لگ بھگ ساری پارٹی ن سے ق بن گئی تھیِ نواز شریف جب جدہ جلا وطن ہوئے تو کئی برس تک گلہ کرتے رہے کہ قدم بڑھاؤ نواز شریف ہم تمہارے ساتھ ہیں کا نعرہ لگانے والوں کو مڑ کر دیکھا توسب غائب تھے گوجرانوالہ کے جلسے میں میاں نواز شریف کے خطاب پر بہت کچھ کہا سنا جا چکا ہے تاہم اسکی گونج ابھی تک محسوس کی جارہی ہے اوراسکے آفٹرشاکس اتنے سخت ہیں کہ انکی پارٹی پر مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹ گئے ہیں پاکستان میں احتساب کی یہی قسم رائج ہے سیف الرحمان ہوں یا موجودہ چیئرمین نیب جاوید اقبال یہی روایت آج کی اپوزیشن نے اپنی حکومتوں میں قائم کی تھی مقدمات کی حقیقت اوراحتساب کے اداروں کی پھرتیاں دو الگ الگ چیزیں ہیں لیکن 22کروڑ کے ملک کے بڑوں میں کیا اتنا تدبر بصیرت اور قابلیت نہیں کہ مل بیٹھ کر احتساب کا طریقہ کا ر وضع کر لیں اور ملک کو اس بحرانی اور غیر یقینی کیفیت سے نکال لیں احتساب ایک مستقل عمل کے طور پر جاری رہے حکومتیں آتی جاتی رہیں لیکن احتساب یونہی چلتا رہے اور ادارے آزادانہ طور پر کام کر سکیں یہ اسی صورت ممکن ہو سکتا ہے جب حکومت اور اپوزیشن کے ساتھ ساتھ ملک کی فوجی قیادت اور حساس اداروں کے سربراہان ایک چھت تلے سر جوڑ کر بیٹھیں اور نئے سرے سے اپنے اپنے کردار متعین کریں تاکہ باہم اعتماد سازی کا سلسلہ شروع ہو سکے ، سیاستدانوں کو کرپٹ چور اور نفرت کی حدتک ناپسند کرنے والی اسٹیبلشمنٹ کو سیاستدانوں کا صرف وہ ماڈل پسند ہے جو اسکے احکامات کو من و عن بجا لائے چنانچہ عمران خان اپنے 22سالہ مؤقف کو ترک کر کے اقتدار میں آئے اور اب اچھی ٹیم نہ ہونے کا رونا رو رہے ہیں اقتدار ہڈی بن کر انکے گلے میں پھنس گیا ہے اور وہ اسے نگل سکتے ہیں نہ اگلنے کی ہمت ا ن میں ہے لیکن انکی جانب سے ناکامی کا اظہا ر اس بات کا موقع پیدا کررہا ہے کہ ملک میں نئے الیکشن کا انعقاد ہو جائے اپوزیشن کے ساتھ مل کر صاف شفاف الیکشن کا طریق کار طے کر لیا جائے تو مسائل میں کمی آسکتی ہے پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے اپوزیشن کے ساتھ مذاکرات ناممکنات میں سے نہیں ہیں بلکہ مریم نواز جو لہجے کی تلخی اور سختی کے لئے مشہور ہیں وہ بھی ایک انٹرویو میں بات چیت کا عندیہ دے چکی ہیں بلاول بھی آرمی چیف سے حالیہ دنوں میں رابطہ کر چکے ہیں جس کے بعد کراچی میں سینئر افسران پر ایکشن لیا گیا جس سے بات چیت کا ایک اچھا موقع بن گیا تھااس وقت تمام سٹیک ہولڈرز کے درمیان گفت وشنید ناگزید ہو چکی ہے ملکی سلامتی کے اداروں اور اپوزیشن میں مستقل غلط فہمیاں ملکی مفاد میں نہیں ، مریم نواز نے مشروط طور پربات چیت کے لئے گرین سگنل دے کر سیاسی ماحول میں بہتری کا موقع پیدا کردیا ہے ، اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے بھی اسے مثبت لیا جانا چاہئے ،تما م سٹیک ہولڈرز کو جمہوری نظام کے تسلسل اور آئندہ شفاف الیکشن کے لئے سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہئے عالمی حالات ہمیشہ کی طرح پاکستان کے لئے ناسازگار ہیں اسکے دشمن وار کرنے کے لئے تاک میں بیٹھے ہیں جبکہ ملک میں جاری سیاسی کشمکش اور انتشار ہے کہ کم ہونے کی بجائے مسلسل بڑھ رہا ہے قومی سلامتی کے ادارے خودمستقل طور پر ان خطرات کے بارے آگاہ کر ر ہے ہیں جنکا سامنا پاکستان کو کرنا پڑ رہا اور آنے والے دنوں میں کرنا پڑے گا ،خطے میں نئی صف بندی، سی پیک اور پاکستان کا متوقع طور پر نیا اورابھرتا ہوا کردار سکے مخالفین اور دشمنوں کو ایک آنکھ نہیں بھا رہا ، عالمی حالات سازگار ہوں تب بھی ملک میں سیاسی استحکام کی اہمیت اور ضرورت سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا، محاذآرائی کتنی ہی کیوں نہ بڑھ جائے بالآخر سب فریقین میز پر بیٹھ کر بات کرتے ہیں آئیں پاکستان کو خدانخواستہ کسی بڑے حادثے سے دوچار کرنے سے پہلے ہی ہم آپس میں رنجشیں دور کر لیں پسند ناپسند کے چکر سے باہر آئیں اور ملک کے لئے کام کرنے کا نیا عزم کریں ، میثاق پاکستان میں قومی سلامتی کے اداروں سمیت تمام سیاسی جماعتوں کو شامل کر کے ایک نئی تاریخ رقم کریں اور مینار پاکستان کے سائے تلے اس تاریخی دستاویز پر سب دستخط کریں جس میں پاکستان کی معیشت داخلہ اور خارجہ پالیسی کے بارے میں بنیادی فیصلے اور راہنمائی موجود ہو ۔۔۔۔اس خواب کو سچ کرنے کے لئے آپس میں بات تو کرنی ہی پڑے گی۔

 

Faisal Farooq Sagar
About the Author: Faisal Farooq Sagar Read More Articles by Faisal Farooq Sagar: 107 Articles with 67415 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.