رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا لباس مبارک
(shabbir Ibne Adil, karachi)
رسول اللہ ﷺ کا لباس مبارک
تحریر: شبیر ابن عادل
رسول اکرم ﷺ کی وجاہت اور رہن سہن کو بیان کرنے سے الفاظ قاصر اور اظہار کی قوتیں سلب ہوجاتی ہیں۔ اپنے لباس مبارک میں آپﷺ شرعی حدودوقیود کے ساتھ اسی طرح کے کپڑے زیب تن فرماتے تھے، جس کا رواج اُس علاقے اور قوم میں تھا۔ آپؐ تہبند باندھتے، چادر اوڑھتے، کرتہ پہنتے، عمامہ اور ٹوپی بھی زیب سر فرماتے۔ اُن ؐ کے کپڑے اکثر اوقات معمولی اور سادہ ہوتے اور کبھی کبھی دوسرے ملکوں اور علاقوں کے ایسے اعلیٰ کپڑے بھی پہن لیتے، جن پر ریشمی حاشیہ یا نقش ونبار بنے ہوتے تھے۔ اسی طرح کبھی کبھی یمن کی بہت خوش نماچادریں بھی استعمال کرتے تھے، جو اس زمانے میں بہت خوش پوش لباس تصور ہواکرتے تھے۔ آپؐ نے اپنے زبانی ارشادات کے علاوہ اپنے عمل سے بھی امت کو یہی تعلیم دی کہ کھانے پینے کی طرح لباس کے معاملے میں بھی شریعت میں وسعت ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے ہم کو ایک موٹی دہری چادر اور ایک موٹے کپڑے کا تہبند نکال کے دکھایا اور ہمیں بتایا کہ ان ہی دونوں کپڑوں میں رسول اکرم ﷺ کا وصال ہوا تھا۔ (یعنی دنیا سے ظاہری پردہ فرمانے کے وقت رسول اللہ ﷺ کے جسم اطہر پر یہی دو کپڑے تھے)۔ (صحیح بخاری و مسلم) حضر ت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو کپڑوں میں کرتہ زیادہ پسند تھا۔ (جامع ترمذی، سنن ابی داؤد) حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو کپڑوں میں حبرہ (چادر کا)پہننا بہت پسند تھا۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) حبرہ یمن کی بنی ہوئی ایک خاص سوتی چادر ہوتی تھی جس میں سرخ یا سبز دھاریاں ہوتی تھیں، یہ اوسط درجے کی اچھی چادروں میں شمار کی جاتی تھی۔ حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے ایک دفعہ رومی جبہ پہنا جس کی آستینیں تنگ تھیں۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) اکثر دوسری روایتوں میں اسے شامی جُبہ کہا گیا ہے۔ قرین قیاس یہ ہے کہ شام اس زمانے میں چونکہ رومی حکومت کے زیر اقتدار تھا اسلئے وہاں کی چیزوں کو رومی بھی کہہ دیا جاتا تھااور شامی بھی۔ بہرحال اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دوسری قوموں کے بنائے ہوئے اور دوسرے ملکوں سے آئے ہوئے کپڑے استعمال کئے جاسکتے ہیں اور خود حضور ؐ نے استعمال فرمائے۔ حضرت اسماء بنت ابو بکر ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے طیلسان کا بنا ہوا ایک کسروانی جبہ نکال کر دکھایا اس کا گریبان ریشمی دیباج سے بنا ہوا تھا اور دونوں چاکوں کے کناروں پر بھی دیباج لگا ہوا تھا (یعنی گریبان اور جبہ کے آگے پیچھے چاکوں پر دیباج کا حاشیہ تھا) اور حضرت اسماء ؓ نے بتایا کہ یہ رسول اللہ ﷺ کا جبہ مبارک ہے۔ یہ (میری بہن) عائشہ صدیقہ ؓ (ام المومنین) کے پاس تھا، جب ان کا انتقال ہوگیا تو میں نے لے لیا(یعنی میراث کے حساب میں مجھے مل گیا)۔ حضورؐ اس کو زیب تن فرمایا کرتے تھے اور اب ہم اس کو مریضوں کے لئے دھوتے ہیں اور اس کے ذریعے شفاء حاصل کرتے ہیں۔ (صحیح بخاری) یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ دوسری بعض احادیث میں تشریح ہے اور علمائے کرام نے وضاحت کی ہے کہ مردوں کیلئے ریشم کا حاشیہ دوچار انگل کا تو جائز ہے، اس سے زیادہ نہیں۔ دوسری خاص بات اس حدیث سے یہ معلوم ہوئی کہ صحابہ کرامؓ ہی کے زمانے میں رسول اکرم ﷺ کے استعمال شدہ کپڑوں سے یہ برکت بھی حاصل کی جاتی تھی کہ انہیں پانی میں بھگو کر اس پانی کو شفایابی کیلئے مریضوں پر چھڑکا جاتا اور انہیں پلایا جاتا تھا۔ بہرحال اللہ عزوجل کی مقر ر کی ہوئی حدود کی پابندی کے ساتھ ہر طرح کا معمولی یا قیمتی لباس پہنا جاسکتا ہے اوریہ کہ ہر علاقے اور زمانے کے لوگ شرعی حدود کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے اپنے علاقے کا پسندیدہ لباس پہن سکتے ہیں۔ کیونکہ لباس ایسی چیز ہے کہ معاشرتی ارتقا کے ساتھ اس میں تبدیلی ہوتی رہی اور یہ سلسلہ جاری رہے گا۔اسی طرح مختلف علاقوں کی جغرافیائی خصوصیات اور بعض دوسری چیزیں بھی لباس کی وضع قطع اور نوعیت پر اثرانداز ہوتی ہیں اس لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ ساری دنیا کے لوگوں کا لباس ایک ہی ہو یا کسی قوم یا علاقے کا لباس ہمیشہ ایک جیسا رہے۔ اس لئے شریعت نے کسی خاص قسم اور خا ص وضع کے لباس کا پابند نہیں کیا، البتہ ایسے سنہری اصول دیئے ہیں، جن کی ہرزمانے اور ہر جگہ سہولت کے ساتھ پابندی کی جاسکتی ہے۔ ==========================
|