جو کرے گا امتیازِ رنگ و خوں مٹ جائے گا

نومبر 2016 کے اندرامریکہ کے دارالخلافہ واشنگٹن میں ایک قوم پرست سفید فام گروپ کے زیر انعقاد ایک کانفرنس کی تفصیلات سے امریکی قوم کے رگ رگ میں بسی نسل پرستی کا اندازہکیا جاسکتا ہے۔اس میں کانفرنس میں شرکاء نے دیگر نسلی اور مذہبی گروہوں کے خلاف دل کھول کر زہر افشانی کی۔ شرکاء کا دعویٰ تھا کہ یہ ملک ’سفید فاموں کے لیے بنا تھا۔‘ مگر دیگر گروہوں نے انھیں اپنے ہی ملک میں اقلیت بننے پر مجبور کر دیا ہے۔یہی باطل نظریہ دراصل فتنے کی جڑ ہے کیونکہ امریکہ کے بنانے والے سفید فام لوگ تو ہیں نہیں ۔ یہ تو اللہ کی زمین ہے جس نے اس کو قدرتی وسائل سے مالا مال کیا۔ ان سفید فام لوگوں نے تو وہاں جاکر تباہی مچائی ۔ 1492 میں کولمبس کے ذریعہ امریکہ کی دریافت کے بعد وہاں ساڑھے پانچ کروڑ یعنی کل مقامی آبادی کے 90 فیصد لوگ ہلاک کردیئے گئے۔ ان صحتمندلوگوں کی بڑی تعداد آبادکار لوگوں کے ساتھ آنے والی بیماریوں کا شکار ہوئی اور برسوں کی جنگ، معاشرتی انہدام اور غلامی نے براعظم کومقامی آبادی سے تقریباً خالیکردیا۔ اس کے علاوہ ان درندوں نے ساڑھے پانچ لاکھ مربع کلومیٹر زرخیززمین بنجر کردی ۔ حیرت کی ببات یہ ہے کہ یہ سفاک اور ظالم اپنی تہذیب پر فخر جتا کرمختلف بہانوں سے دوسروں کو حقیر سمجھتے ہیں ۔ بقول اقبال؎
نسل، قومیّت، کلیسا، سلطنت، تہذیب، رنگ
خواجگی نے خوب چُن چُن کے بنائے مُسکِرات

امریکہ پر مکمل تسلط حاصل کرنے کے بعد بھی وہ خونخوار ذہنیت باقی ہے اورصدر ٹرمپ نے اپنے مفاد کی خاطر ان شعلوں کوپہلے بھی ہوا دی اور اب بھی دے رہے ہیں ۔ اس کی تازہ مثال اگست 2017 میں ریاست ورجینیا کے اندر منعقد ہونے والا نسل پرستوں کا جلوس تھا۔ اس موقع پر شہر میں تشدد اور ہنگامہ آرائی کے سبب ایک خاتون ہلاک اور 19 دیگر افراد زخمی ہو گئے تھے۔ اس جلوس کا اہتمام دائیں بازو کی 'یونائیٹ دی رائٹ' (یعنی دایاں اتحاد)نامی تنظیم نےامریکی خانہ جنگی کے دوران غلامی کی حمایت کرنے والے رہنما جنرل رابرٹ ای لی کے ایک مجسمے کو ہٹانے کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے کیاتھا۔سفید فام مہم کے حامی انتہائی دائیں بازو کے لوگ نعرہ لگا رہے تھے کہ ' آپ ہماری جگہ نہیں لے سکتے' اور 'یہودی بھی ہماری جگہ نہیں لے سکتے۔'ان کی مخالفت میں جمع ہونےوالوں پر ایک شخص نے اپنی کار چڑھا دی۔ اس حرکت کو ریپبلکن پارٹی کے ہی سینیٹر کوری گارڈننر نے بھی سفید فام نسل پرستی اور گھریلو دہشتگردی قرار دیا تھا ۔

اٹارنی جنرل جیف سیشنز نے اس وقت کہاتھا کہ اس تشدد اور موت نے امریکی قانون اور انصاف کو زک پہنچائی ہے۔ اس طرح کی نسلی تعصب اور نفرت ہمارے اقدار کے خلاف ہیں اور انھیں برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ورجینیا کے گورنر ٹیری میکولف نے ان واقعات پر شدید ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ : 'سفید فام افراد کی برتری کی بات کرنے والے یا نازی نظریات کے حامل افراد کی اس عظیم دولت مشترکہ میں کوئی ضرورت نہیں ہے‘۔ انہوں نے مظاہرین کو مخاطب کرکے کہا:’ شرم کرو۔ آپ محب وطن ہونے کا بہانہ کرتے ہیں، لیکن تم چاہے کچھ بھی ہو، تاہم حب الوطنی تم میں قطعی نہیں ہے۔‘ اس وقت عوامی دباو اس قدر بڑھ گیا تھا کہ مجبوراً ٹرمپ سمیت دیگرسیاسی رہنماؤں نے مظاہرے کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہاتھا کہ : 'نفرت اور تقسیم فوری طور پر رکنی چاہیے۔ ہمیں امریکی شہری کے طور پر ملک کے ساتھ محبت کے لیے متحد ہونے کی ضرورت ہے۔' امریکہ میں اس طرح کی میٹھی میٹھی باتیں تو بہت ہوتی ہیں لیکن چونکہ نفرت پھیلانے والوں کے خلاف کوئی اقدام نہیں کیا جاتا اس لیے بے اثر ہوجاتی ہیں ۔

امریکہ کے اندر فی الحال سفید فام قوم پرست تنظیموں کا جال بچھا ہوا ہے۔ یہ گروہ بائیں بازو کی سوچ اور اعتدال پسند خیالات کو رد کرتے ہیں۔ ان کے پھیلاو میں پچھلی بارڈونلڈ ٹرمپ کی امریکی صدارتی انتخابات میں کامیابی سے آسانی ہوگئی تھی ۔ سوشل میڈیا نےبھی ایسے گروہوں کی ترویج و اشاعت میں اہم کردار ادا کیا ہے۔امریکہ کے معروف ادارے سدرن پاورٹی لا کے مطابق وہاں ایسے 1600 شدت پسند گروہوں سرگرمِ عمل ہیں جن پر وہ نظر رکھے ہوئے ہے۔ کسی نظریہ کو فروغ دینے کے لیے جب اتنی بڑی تعداد میں بارسوخ افراد پر مشتمل تنظیمیں سماج کے اندر جدوجہد کررہی ہیں تو ان کے اثرات مرتب ہوکر رہتے ہیں ۔ ایسے میں اگر سرکاری سرپرستی بھی حاصل ہوجائے تو یہ آگ دو آتشہ ہوجاتی ہے اور پچھلے چار سالوں کے اندر بلکہ ایک ٹرمپ کی انتخابی مہم کا ایک سال بھی ملادیں تو پانچ سالوں میں یہ کام خوب ہوا ہے اور امریکہ فی الحال اس کے نتائج بھگت رہا ہے۔

امریکہ کے اندر فی الحال سفید فام نسل پرست گروہوں میں سب سے اہم گروہ آلٹرنٹیو رائٹ (آلٹ رائٹ) ہے۔ان متعصب سفید فام قوم پرستوں کی محبوب ترین شخصیت صدر ٹرمپ ہیں ۔ 2016 میں ٹرمپ نے یہودیوں کی مخالفت کرکے ان کا دل جیت لیاتھا ۔یہ اشتعال انگیزی میں یقین رکھتے ہیں اور انہیں سیاسی لحاظ سے درست زبان کے استعمال سے نفرت ہے ۔ ویسے دکھاوے کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ نے 2016 میں اس گروہ کے خیالات سے عدم اتفاق کا اظہار بھی کیا تھا لیکن وہی ہاتھی کے دانت والی بات ۔ اس گروہ کی داغ بیل ڈالنے والے رچرڈ برٹرنڈ سپینسر کے مطابق گروہ کا مقصد 'سفید فام افراد کاتشخص‘ اور 'روایتی مغربی معاشرے کی بقا' ہے۔ان کا نصب العینآزادی، آزادیِ اظہار اور دوسروں کی دل آزاری کرنے کا حق حاصل کرنا ہے۔ ان میں سے دلآذاری کے حق خوب استعمال ہوتا ہے۔ ناقدین اس کو نسل پرست ، عورتوں کو کم تر سمجھنے والا یہودیت مخالف گروہ مانتے ہیں۔

سرزمینِ امریکہ پریہودیت کے مخالف ہٹلرا ور نازی جرمنی سے محبت رکھنے والانیونازی گروہ بھی پایا جاتا ہے۔متعدد نیو نازی اداروں میں سے ’ امیرکن نازی پارٹی اور دوسری نیشنل سوشلسٹ مومنٹ خاصی مشہور ہیں ۔ ان لوگوں نے ایک قومی وفاق قائم کررکھا ہے 'یونائیٹ دا رائٹ' اس کا ایک فریق ہے۔ امریکی سپریم کورٹ نے انہیں دوصوبوں میں سواستیکاکا نازی نشان اُٹھا کریہودی بستیوں میں جلوس نکالنے اجازت دے رکھی ہے۔ 1865 میں امریکی خانہ جنگی کے بعد جنوبی ریاستوں کے سابق فوجیوں نے کو کلکس کلین نامی امریکہ کا سب سے معروف سفید فام نسل پرست گروہ کی بنیاد ڈالی تھی۔ اس گروہ کے لوگ سیاہ فام امریکیوں، یہودیوں اور مہاجرین کے ساتھ امتیازی سلوک کرتے ہیں ۔اپنے مخالفین کو مساوی حقوق محروم کرنا اس کا نصب العین ہے۔ اس گروہ کے ارکان مخصوص لباس سے چہرے چھپاتے تھے اور سفید فام قوم پرستی پر اعتراض کرنے والوں کو قتل کردیتے تھے۔

یہ گروہ اپنے آپ کو 'سفید فام محب وطن عیسائی' ادارے کے طور پر پیش کرتاہے۔ اس کی موجودگی امریکہ کی ہر ریاست میں ہے۔ اس کے ارکان کی تعداد تقریباًپانچ سے آٹھ ہزار ہے۔ کو کلکس کلین (کے کے کے)سے منسلک گروہوں میں کانفیڈرٹ وائٹ نائٹس اور ٹریڈشنل امیرکن نائٹس شامل ہیں۔ ان گروہوں کے بارے میں پڑھتے ہوئے دماغ اچانک داعش کی طرف چلاجاتا ہے جس میں سفید فام لوگ ایسی سفاکی کا مظاہرہ کرتے دکھائی دیتے تھے جن کا اسلام اور مسلمانوں سے کوئی واسطہ نہیں تھا ۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ ٹرمپ نے انتخاب سے قبل ہیلری کلنٹن پر آئی ایس آئی ایس کو منظم کرکے بھیجنے کا الزام لگایا تھا نیز واپس بلانے کا وعدہ بھی کیا تھا ۔ بعید نہیں کہ امریکیوں نے اسلام کو بدنام کرنے کے لیے ان کی خدمات حاصل کی ہوں ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ دنیا بھر میں اسلاموفوبیا پھیلانے والوں اور القائدہ اور اسلامی دہشت گردی کا شور مچانے والوں کو یہ انتہاپسند گروہ نظر نہیں آتے لیکن اب ٹرمپ کی حمایت میں یہ بلی خود تھیلے سے باہر آگئی ہے۔ دنیا بھرمیں دہشت گردی کے خلاف جنگ چھیڑ کر دہشت گردی پھیلانے والے امریکہ کو اب اپنے دامن میں جھانک کر دیکھنا ہوگا ورنہ یہ آگ خود اس کو بھسم کردے گی ۔

ابلیس لعین کا سب سے موثر حربہ طاقتور قوموں کو نسلی تفاخر میں مبتلا کرنے کا ہے اور اس میں اسے آسانی سے کامیابی بھی مل جاتی ہے۔ یوروپ اور امریکہ نے نسل پرستی کا علاج قوم پر ستی میں تلاش کیا جو اسی قبیل کی دوسری برائی ہے۔ جمہوریت کے ذریعہ اس مرض کا علاج کرنے کی کوشش کی مگر امریکہ میں کیپیٹل ہل پرکیا جانے والا حالیہ حملہ چیخ چیخ کر گواہی دے رہا ہے کہ دنیا کا عظیم ترین اور قدیم ترین جمہوری ملک اپنے اس میں مقصد کے حصول میں ناکام ہوگیا ہے ۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ قوم پرستی کو خدا پرستی سے بدل کر جمہوریت کے بجائے خلافت علیٰ منہاج نبوت کے ذریعہ اس فتنہ کی بیخ کنی کی جائے۔ ماضی میں بھی نسل پرستی کا خاتمہ اسی نسخۂ کیمیا سے ہواہے اور مستقبل میں بھی ایسےہی ہوگا کیونکہ نسل پرستی کا علاج قوم پرستی نہیں بلکہ خدا پرستی ہے۔ یہی وہ شئے ہے جو علامہ اقبال کے اس شعر کی عملی تفسیر بن جاتی ہے؎
ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز


 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1448895 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.