سپریم کورٹ: بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا

دہلی کی سرحد پر کسانوں کی تحریک جلد ہی دوماہ پرانی ہوجائے گی۔ اس کو سارے ملک کے لوگ ٹیلی ویژن چینلس پر دیکھ رہے ہیں لیکن کسی شہر نے اس کی حمایت میں پیش قدمی نہیں کی بلکہ یہ شرف عروس البلاد ممبئی کو حاصل ہوا کہ وہاں کے لوگ کسانوں کی حمایت میں بڑے پیمانے پرمیدان میں اترے اور ایک کامیاب جلوس کا اہتمام کیا۔ ممبئی ملک کا معاشی دارالخلافہ ہے۔ یہ ایک تجارتی شہر ہے جہاں ’پیسہ بولتا ہے‘۔ اس لیے لوگوں کو تعجب ہوا کہ آخر سیاسی راجدھانی سے یہ آگ معاشی دارالخلافہ تک کیسے پہنچ گئی ؟ دراصل بات یہ ہے کہ مودی اور امیت شاہ کے لنگوٹیا یار امبانی اور اڈانی اسی شہر میں رہتے ہیں ۔ یہاں کے لوگ سرمایہ داروں کے ہتھکنڈوں سے اچھی طرح واقف ہیں اس لیے ان کا اس سازش کی تہہ میں پہنچ کر احتجاج کے لیے اٹھ کھڑا ہونا کوئی حیرت کی بات نہیں ہے۔ کسان اور سرکار کا خط مستقیم جب سرمایہ داروں کے داخلے سے مثلث بنا تو عوام بھی کاشتکاروں کے شانہ بشانہ کھڑے ہوگئے اور اب یہ مثلث پھیل کر مربع بن گیا۔ ممبئی سے اٹھنے والےاحتجاج کے یہ شعلے آگے چل کر پورے ملک میں پھیل جائیں گے۔

ممبئی کا یہ مظاہرہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد ہوا جس کے ذریعہ کسانوں کو ریشم کی ڈوری سے پھانسی دینے کی کوشش کی گئی لیکن کسانوں کی طرح ممبئی کے عوام بھی فریب میں نہیں آئے۔ مہاراشٹرکی تہذیب میں تماشاکو وہی اہمیت حاصل ہے جو مقبولیت شمال میں نوٹنکی کی ہے۔ موسیقی سے پر اس ناٹک کی جڑیں یہاں کی ثقافت گہرائی تک پیوست ہیں۔ کسانوں کے معاملے میں سپریم کورٹ کے اندر جو ڈرامہ کھیلا گیا اس کو دیکھ کر بے ساختہ کالو بالو کا تماشا یا د آگیا اور ساتھ ہی مراٹھی کایہ محاورہ بھی ’ میں رونے جیسا کرتا ہوں تو مارنے جیسا کر‘۔ اس معاملے میں عدالت کالو کی طرح مارنے کا ڈھونگ کررہی تھی اور سرکار مگر مچھ کے آنسو بہانے کی اداکاری کرتی دکھائی دے رہی تھی ۔ویسے یہ بھرم بھی زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکا اور غبارہ بہت جلد پھوٹ گیا۔ کسان تحریک کے آغاز سے 21 دن بعد عدالت عظمیٰ نیند سے بیدا ر ہوئی اور سماعت کا آغاز ہوا ۔ اس وقت عدالت نے معمولی سی سختی دکھائی ۔ سرکار اور کسانوں کے درمیان ہونے والی گفت و شنید سے عدم اطمینان کا اظہار کیا اور کسانوں کے تئیں ہمدردی جتائی۔ یہ سب کرنے کے بعد عدالت نے حکومت سے پوچھا کہ کیا وہ اس قانون کی عارضی معطلی پر غور کرسکتی ہے تاکہ بات چیت کے لیے موحول سازگار ہوسکے ؟

عدالت عظمیٰ کا کام اس طرح ہاتھ جوڑ کر سرکار دربار سے گزارش کرنا نہیں ہے۔ اس سے سپریم کورٹ کا وقار مجروح ہوامگر اس دور میں ایک فردِواحد کے علاوہ کسی اور کے عزت و وقار سے لوگ بے نیاز ہوچکے ہیں اوروہ کسانوں کی تحریک سے آنکھیں موند کر مونی بابا بنا ہوا ہے۔ عدالت اور سرکارکو یہ غلط فہمی تھی اس جھانسے میں آکر کسان سپریم کورٹ کی جانب دوڑ پڑیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ ارنب گوسوامی کے لیے چھٹی کے دن رات ۸ بجے فیصلہ سنانے والی عدالت عظمیٰ پھر ایک بار چادر تان کر سو گئی ۔کسان اپنی تحریک چلاتے رہے گفتگو کے دور ناکام ہوتے رہے ۔ آٹھویں دور کےاختتام پر وزیر زراعت نریندر تومر نے کہا تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی ۔ ان کے ہم نام وزیر اعظم نے بھی کورونا کی وبا کو بھگانے کے لیے 21 دن کی مہلت مانگ کر تالی بجانے کا آدیش ( حکم) دیا تھا لوگوں نے جوش میں آکر تالی کے ساتھ تھالی اور گھنٹی بھی بجائی لیکن کورونا پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔اب وزیر زراعت کسانوں کا مسئلہ بھی تالی بجاکر حل کرنا چاہتے ہیں لیکن انہیں پتہ ہونا چاہیے کہ یہ کسان سرکار کی بینڈ بجانے کے ارادے سے آئے ہیں۔

سرکار اور کسانوں کے درمیان ہونے والی گفتگو کے ماحول کا اندازہ چندواقعات کی مدد سے کیا جاسکتا ہے۔ پہلی بار جب کسان رہنما بات چیت کے لیے آئے تو حکومت نے انڈر سکریٹری کی سطح کے افسران کو بھیج دیا ۔ کسان رہنما وں نے گفتگو سے انکار کر دیا اور لوٹ گئے اس طرح گویا مہورت ہی غلط نکلا۔ کسی ایک فریق کی نیت میں کھوٹ ہو تو یہی ہوتا ہے۔ اس کے بعد جب کسان رہنما آئے تو انہوں نے سرکاری پکوان کھانے سے انکار کردیا اور جو کچھ اپنے ساتھ لائے تھے اسے زمین پر بیٹھ کر نوش کیا ۔ اس طرح ایک طرف سرکار دربار کے لوگ اونچی کرسیوں پر بیٹھ کر پانچستارہ کھانا کھا رہے تھے اور دوسری جانب کسان رہنما زمین پر بیٹھ کر اپنی روکھی سوکھی سے پیٹ بھر رہے تھے ۔ یہ ایک علامتی احتجاج تھا جو ذرائع ابلاغ میں بحث کا موضوع بن گیا۔ اگلی ملاقات میں حکومت کی عقل ٹھکانے آئی تو وزراء بھی کسانوں کے ساتھ زمین پر بیٹھ گئے اور لچک کامظاہرہ کیا لیکن یہ ذرائع ابلاغ کو دکھانےکے لیے کی جانے والی منافقت تھی اس لیے کہ سرکاری موقف میں ذرہ برابر فرق نہیں آیا تھا۔

نویں ملاقات میں سرکاری ٹال مٹول کو دیکھ کر کسان رہنما بلونت سنگھ نے میٹنگ کے دوران ایک پوسٹر ہاتھوں میں اٹھا لیا جس پر لکھا تھا ’جیتیں گےیا مریں گے‘۔ یہ پوسٹر دراصل کسانوں کی بیزاری کا اعلان تھا لیکن اس میں عزم بھی پوشیدہ تھا کہ وہ اپنی تحریک کو کامیاب کرنے کے لیے جان کی بازی لگا دیں گے۔ اس ملاقات کے دوران کچھ کسان رہنماوں نے سرکار سے کہہ دیا کہ اگر وہ سنجیدہ نہیں ہے تو بلاوجہ وقت ضائع کرنے سے کیا حاصل ؟ انہیں لکھ کر دے دیا جائے کہ کوئی تبدیلی نہیں ہوگی ۔ نشست کے بعد جب بھارتیہ کسان یونین کے رہنما راکیش ٹکیت سے پوچھا گیا کہ کیا ہوا ؟تو وہ بولے تاریخ پر تاریخ پڑ رہی ہے۔ سرکار نے کہا کہ بل واپس لینے کے علاوہ کوئی متبادل بتاو ہم مان لیں گے ۔ ہم نے کہا بل واپس لے کر جو چاہو کہو ہم مان لیں گے ۔ اس طرح انہوں نے ہماری نہیں مانی اور ہم نے ان کی نہیں مانی ۔ اس میٹنگ کے بعد کسانوں کے ایک رہنما حنان ملا نے کہا کہ سرکار چاہتی ہے دونوں فریق سپریم کورٹ میں جائیں لیکن ان لوگوں نے انکار کردیا ۔ اس دور اندیشی کی توقع حکومت اور عدالت کو نہیں رہی ہوگی ۔

کسانوں نے جب 26جنوری کو سرکار سے علی الرغم یوم جمہوریہ کی پریڈ کرنے کا اعلان کیا اور اس کی ایک کامیاب ریہرسل بھی کردی تو حکومت پر دباو بڑھا اس لیےکہ اگر کسانوں کے ٹریکٹر دہلی کی سڑکوں پر نکلے تو پردھان جی کی تقریب پھیکی پڑ جائے گی اور اسے کوئی نہیں دیکھے گا ؟ ویسے بھی برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن کورونا کا بہانہ بناکر ایک طرف ہوگئے ہیں ورنہ کچھ لوگ انہیں کو دیکھنے کے لیے گودی میڈیا کے چینلس پر آتے خیر اس الارم نے عدالت عظمیٰ کو پھر سے جگایااور دوسری مرتبہ ۱۱ جنوری کو یعنی کسان تحریک کے ۴۷ ویں دن سماعت شروع ہوئی۔ اس وقت تک پچاس سے زیادہ لوگ میدان احتجاج پر ہلاک ہوچکے تھے اور ان میں سے چار نے احتجاجاً خودکشی کرلی تھی۔ عدالت نے پہلے دن سرکار کو خوب پھٹکار لگائی اور یہاں تک کہہ دیا کہ وہ مزید صبر کی تلقین نہ کرے ۔حکومت قانون معطل کرے ورنہ وہ خود یہ کردے گی ۔ عدالت کو یہ توقع تھی اس تبصرے کو سن کر کسان بھانگڑا شروع کردیں گے لیکن انہوں نے کہا کہ اول تو وہ سپریم کورٹ میں گئے نہیں دوسرے ان کا مطالبہ اس قانون کی عارضی معطلی کا نہیں ہے بلکہ وہ تو چاہتے ہیں کہ سرکار اس کو واپس اس طرح یہ تیر بھی نشانہ چوک گیا۔ دوسرے دن عدالت نے مرتا کیا نہ کرتا کی مصداق قانون کی عمل بجا آوری پر تو روک لگا دی ساتھ ایک کمیٹی بھی تشکیل فرمادی جس سے بلی تھیلے سے اچھل کر باہر آگئی اور یہ شعر یاد آگیا؎
بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چیرا تو اک قطرۂ خون نہ نکلا
(۰۰۰۰۰۰جاری)
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1221834 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.