20 جنوری، 1927ء میں اتر پردیش کے شہر علی گڑھ میں پیدا
ہوئیں۔ ان کے والد سجاد حیدر یلدرم اردو کے پہلے افسانہ نگار شمار کیے جاتے
ہیں۔ تقسیم ہند کے بعد قرت العین حیدر کا خاندان پاکستان چلا گیا۔ 1959ء
میں ان کا ناول آگ کا دریا منظر عام پر آیا جس پر پاکستان میں بہت ہنگامہ
ہوا۔ اس کے فوراً بعد انہوں نے بھارت واپس جانے کا فیصلہ کیا جہاں وہ بطور
صحافی کام کرتی رہیں اور افسانے اور ناول بھی لکھتی رہیں۔ اس کے علاوہ
انہوں نے ادبی تراجم بھی کیے۔ ان کی کتابوں کی تعداد 30 سے زیادہ ہے۔ انہوں
نے 1964ء تا 1968ء ماہنامہ امپرنٹ کی ادارت کی اور السٹریٹیڈ ویکلی آف
انڈیا میں اداریہ لکھتی رہیں۔ ان کی کتابیں انگریزی اور دیگر زبانوں میں
ترجمہ ہوئی ہیں
ان کے سبھی ناولوں اور کہانیوں میں تقسیم ہند کا درد صاف نظر آتا ہے۔ ان کے
دو ناولوں آگ کا دریا اور آخر شب کے ہم سفر کو اردو ادب کا شاہکار مانا
جاتا ہے۔
آخرِ شب کے ہم سفر کے لیے 1989ء میں انہیں بھارت کے سب سے باوقار ادبی
اعزاز گیان پیٹھ انعام سے بھی نوازا گیا جبکہ بھارتی حکومت نے انہیں 1985ء
میں پدم شری اور 2005ء میں پدم بھوشن جیسے اعزازات بھی دیے۔
شعور کی رو
11 سال کی عمر سے ہی کہانیاں لکھنے والی قرۃ العین حیدر کو اردو ادب کی
ورجینیا وولف کہا جاتا ہے۔ انہوں نے پہلی بار اردو ادب میں سٹریم آف
کونشیئسنسرا تکنیک کا استعمال کیا تھا۔ اس تکنیک کے تحت کہانی ایک ہی وقت
میں مختلف سمت میں چلتی ہے۔
اعزازات
انھیں ساہتیہ اکادمی اور گیان پیٹھ انعام کے اعزازات بھی مل چکے ہیں۔
ساہتیہ اکیڈمی اعزاز ان کے افسانوی مجموعہ پت جھڑ کی آواز پر 1967ء میں
تفویض ہوا جبکہ گیان پیٹھ اعزاز 1989ء میں آخرِ شب کے ہم سفر پر دیا گیا
تھا۔ انہیں پدم بھوشن اور جنان پیٹھ اعزازت سے بھی نوازا گیا ہے۔
وفات
ان کی وفات 21 اگست 2007ء کو نوئیڈا میں ہوئی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے
قبرستان میں مدفون ہوئیں۔
تصانیف
آگ کا دریا
آخرِ شب کے ہمسفر (گیان پیٹھ ایوارڈ یافتہ)
میرے بھی صنم خانے
چاندنی بیگم
کارِ جہاں دراز ہے
روشنی کی رفتار
سفینۂ غمِ دل
پت جھڑ کی آواز (ساہتیہ اکادمی ایوارڈ یافتہ)
گردشِ رنگِ چمن
چائے کے باغ
دلربا
اگلے جنم موہے بٹیا نہ کیجو
|