اشتہاری٬ انتخابی مہم اور ضابطہ اخلاق

ٓشیخ سعدی ؒ ایک حکایت میں لکھتے ہیں کہ علاقہ غور میں ایک ظالم بادشاہ تھا وہ لوگوں کے گدھے بیگار میں پکڑ لیتا تھا اور انہیں گھاس دانہ تو ڈالتا نہیں تھا لیکن بار برداری کا کام اس قدر زیادہ لیتا تھا کہ غریب جانور دو روز میں مر جاتے تھے ایک دفعہ بادشاہ شکار کےلئے نکلا اور کسی جانور کے پیچھے گھوڑا دوڑاتا ہوا اپنے ساتھیوں سے جدا ہو گا ۔ ادھر سورج غروب ہو گیا اور رات کی سیاہی پھیل گئی بادشاہ مجبور ہو کر ایک گاﺅں میں رکا وہاں سے اس نے ایک عجیب ماجرہ دیکھا کہ ایک دیہاتی اپنے مضبو ط اور توانا گدھے کولٹھ مارمار کرلنگڑا کر رہاہے بادشاہ کو اس کی یہ حرکت پسند نہ آئی اور اس نے خشمناک لہجہ میں دیہاتی سے کہا کہ تو اس غریب جانور پرکیوں ظلم ڈھا رہاہے ۔

دیہاتی بادشاہ کو نہیں پہنچانتا تھا وہ بگڑ کر بولا میاں مسافر اپنی راہ لگ تجھے کیامعلوم کہ میرے اس کام میں کیا مصلحت ہے بات یہ ہے کہ ہمار ابادشاہ نہایت ظالم ہے و ہ تندرست اورمضبوط گدھے لوگوں سے چھین لیتا ہے میں اس گدھے کی ٹانگ توڑ رہا ہوں تاکہ بیگار میں اسے نہ پکڑا جائے لنگڑا گدھا میرے پاس رہے اس بات سے بہتر ہے کہ وہ بادشاہ کے پاس بوجھ ڈوھتا ہوا مرجائے ۔۔۔

بادشاہ کو دیہاتی کی باتیں سن کر غصہ تو بہت آیا لیکن مصلحت اسی میں دیکھی کہ چپ رہے صبح ہوئی تو اس کے لشکری اسے تلاش کرتے ہوئے گاﺅں آپہنچے اور ہر طرف بادشاہ سلامت بادشاہ سلامت کا شور مچ گیا بادشاہ کو رات والا دیہاتی یاد تھا اس نے کہا کہ اس گستاخ کی گردن مار دی جائے بیچارے دیہاتی نے جان بخشی کیلئے بہت منت کی لیکن بادشاہ کا دل نرم نہ ہوا اب جب دیہاتی کو یقین ہوگیا کہ جان بچنے کی کوئی صورت نہیں تو اس نے دلیر ہوکر بادشاہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال دیں اور گرج کر کہا کہ اے بادشاہ موت تو اپنے وقت پرضرور آکر رہتی ہے لیکن مجھے مار کر تو بدنامی سے نہیں بچ سکتا تیرے ظلم کا چرچا ہر چھوٹے بڑے کی زبان پر ہے اگر ظالم کو ظالم کہنے کی سزا موت ہے تو پوری رعایا کو مار ڈال اگر تجھے میری باتیں ناگوار گزری ہیں تو انصاف سے کام لے کر ایسی باتوں کا سبب دور کردے ایک بیگناہ کو قتل کرنے کی بجائے مخلوق خدا کو ستانا چھوڑ دے تمھارے مظالم کی وجہ سے ایک دنیا رات کو نہیں سوتی معلوم نہیں تجھے نیند کیسے آجاتی ہے اپنے درباریوں کی تعریف اور خوشامد پر خوش نہ ہو خلق خدا تجھ پر ہر وقت نفرین بھیجتی ہے مظلوموں کی آہ وفریاد سے ڈر اور ظلم سے باز آجا ۔

ان تلخ اور تند لیکن سچی باتوں نے بادشاہ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور ا س کاضمیر بیدار ہوگیا اور اسی وقت اس نے توبہ کرلی اوردیہاتی کونہ صر ف عزت کے ساتھ رہا کردیا بلکہ اپنے گاﺅں کا سردار بنا دیا ۔۔۔

قارئین ہر انتخابات کی طرح موجودہ انتخابات کے موقع پر بھی الیکشن کمیشن آفس نے ”ضابطہ اخلاق “نام کا ایک کوڈ آف کنڈکٹ جاری کیا ہے یہ ضابطہ اخلاق تمام الیکشن لڑنے والے امیدواروں اور سیاسی جماعتوں کو رہنمائی فراہم کرتا ہے کہ وہ کیا کیا کام کرسکتے ہیں اور کیا کیا کام کرنے سے انہیں منع کیا جارہا ہے اس دستاویز کو جاری کرنے کا بنیادی مقصد انتخابات کے عمل کو پر امن اور شفاف رکھنا ہے بدقسمتی سے آزادکشمیر میں ہونے والے گزشتہ 63سالوں کے تمام انتخابات میں تمام حلقوں میں کہیں نہ کہیں ،کسی نہ کسی جگہ اس مقدس دستاویز کی نا صرف توہین کی جاتی ہے بلکہ ضابطہ اخلاق کو ایک مقدس کتاب کی طرح جزدان میں لپیٹ کر رکھ دیا جاتا ہے اور وہ تمام حربے استعمال کیے جاتے ہیں کہ جو ووٹ کا حق استعمال کرنے کے عمل کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرتے ہیں اور پرامن شہریوں کیلئے کوفت ،بدمزگی اور پریشانی کا موجب ہوتے ہیں ۔

قارئین سب سے دلچسپی کی بات یہ ہے کہ ”چور بھی کہے چور چور “کے مصداق وہ تمام لوگ جو ان قوانین کو توڑ رہے ہوتے ہیں وہ انتہائی بدتمیزی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے کردہ گناہوں کو اپنے مخالفین کے سروں پر تھوپ دیتے ہیں اور جھوٹ اس گردان کے ساتھ دہرایا جاتاہے کہ کسی بھی ذی شعورآدمی کیلئے یہ تمیز کرنا مشکل ہوجاتاہے کہ سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا ہے ۔۔۔؟

آزادکشمیر میں 26جون 2011 کو ہونے والے انتخابات کے حوالے سے بھی ضابطہ ءاخلاق جاری کردیا گیا ہے جس میں سختی کے ساتھ تمام سیاسی جماعتوں اور عوامی قیادت کیلئے ووٹ مانگنے والے امیدواروں کو متنبہ کیا گیا ہے کہ وہ اپنی انتخابی مہم کے دوران کیا کیا کام کرسکتے ہیں اور کیا کیا کام نہیں کرسکتے 26جون 2011کو ہونے والے یہ انتخابات ماضی کے تمام الیکشنز سے ہر لحاظ سے مختلف ہیں ان انتخابات میں پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ٹکراﺅ رکھنے والی دوبڑی قومی جماعتیں پاکستان پیپلزپارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن پہلی دفعہ آمنے سامنے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کرکھڑی ہیں جبکہ موجودہ حکمران جماعت مسلم کانفرنس بھی تین بڑی سیاسی قوتوں میں سے ایک ہے یہ تینوں جماعتیں ،انکے رہنما ،امیدوار ،سپورٹرز اور ووٹرز اپنی اپنی جگہ پر جذبات کی شدت کا شکارہیں اور یہ بات مشاہدے سے ثابت ہے کہ جذبات اندھے ہوتے ہیں اور جذبات کے تحت کیے جانے والے کئی فیصلوں کے نتیجے انتہائی مہلک ہوتے ہیں اگر بات صرف یہیں تک رہتی تو پھر بھی گوارہ تھی ۔آزادکشمیر بھرسے اس وقت تمام حلقوں سے خلقِ خدا کی زبانی یہ باتیں میڈیا کے کانوں تک پہنچ رہی ہیں کہ اس وقت مختلف سیاسی جماعتوں کی انتخابی مہم کے دوران پنجاب ،سندھ اور مختلف صوبوں سے تعلق رکھنے والے ”اشتہاری مجرم یا ملزم “انتخابی مہم کاحصہ بنے ہوئے ہیں اور اسے انتخابی مہم کی شان سمجھاجاتا ہے کہ کس امیدوار کے ساتھ کتنے اشتہاری گھوم رہے ہیں ۔۔۔؟

قارئین یہ بات ہم نے غیر مصدقہ طور پر تحریر تو کردی ہے لیکن اگر یہ بات سچ ہے تو انتہائی افسوس ناک ہے لاکھوں کشمیری ووٹرز باشعورانسان ہیں انہیں جانور سمجھ کر طاقت کی لاٹھی سے ہانکنے کی کوشش قابل مذمت ہے اور چیف الیکشن کمشنر کو چاہیے کہ اگر خدانخواستہ ایسا ہورہا ہے تو ریاستی قوت اور انتظامی مشینری کا درست استعمال کرتے ہوئے ایسے غیر جمہوری حربوں کو فوری طور پر روکا جائے بصورت دیگر ہم اس خطرے کا کھل کر اظہارکرتے ہیں کہ موجودہ انتخابا ت میں بہت بڑے پیمانے پر قتل وغارت اور خون ریزی کا خطرہ ہے اس وقت سیاسی درجہ حرارت عروج پر ہے سال کے سب سے بڑے اور سب گرم دن کے چار دن بعد آزادکشمیر میں الیکشن ہورہے ہیں اور موسمی شدت کے ساتھ ساتھ جذبات میں پائی جانے والی طغیانی کوئی بھی حادثہ کھڑا کرسکتی ہے اور قارئین یقین جانئے کہ حادثہ لمحوں کی لغزش کے نتیجے میں رونما ہوتا ہے اور اس کے نتائج اکثر اوقات نسلوں کو بھگتنے پڑتے ہیں ۔

جناب چیف الیکشن کمشنر صاحب یہاں ہم مرزا غالب کی زبان میں عوام میں پائے جانے والے خدشات کو بیان کریں گے ۔
نکتہ چیں ہے غمِ دل اس کو سنائے نہ بنے
کیا بنے بات ، جہاں بات بنائے نہ بنے
میں بلاتا توہوں اس کو مگر اے جذبہ دل
اس پہ بن جائے کچھ ایسی کہ بن آئے نہ بنے
کھیل سمجھا ہے کہیں چھوڑ نہ دے ، بھول نہ جا
کاش یوں بھی ہو کہ بن میرے ستائے نہ بنے
غیر پھرتا ہے لئے یوں ترے خط کو کہ اگر
کوئی پوچھے کہ یہ کیا ہے تو چھپائے نہ بنے
اس نزاکت کا برا ہو ، وہ بھلے ہیں تو کیا
ہاتھ آئیںتو انہیں ہاتھ لگائے نہ بنے
کہہ سکے کون کہ یہ جلوہ گری کس کی ہے
پردہ چھوڑا ہے وہ اس نے کہ اٹھائے نہ بنے
عشق پر زور نہیں ، ہے یہ وہ آتش غالب
کہ لگائے نہ لگے اور بجھائے نہ بنے

جناب چیف الیکشن کمشنر اور آزاد کشمیر کی پوری ریاستی مشینری کو اس وقت انتہائی الرٹ رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ ”دہشتگردی کے خلاف جاری جنگ“ میں امریکی دباﺅ کی وجہ سے مصروف عمل پاکستان اور تمام سیکیورٹی فورسز اس وقت قبائلی علاقہ جات اور افغانستان کے ساتھ ملنے والے بارڈر ایریاز کے ساتھ ساتھ بم دھماکوں کا شکار بڑے شہروں میں دباﺅ کا شکار ہیں اور آزاد کشمیر کا میدان تمام ملک دشمن عناصر کے لئے کھلا ہے چاہے ”اشتہاری“ مجرم ہوں اور چاہے ”غیر اشتہاری“ ، پوری کشمیری قوم انتخابات میں اپنے ووٹ آزادی کے ساتھ استعمال کرنا چاہتی ہے اور انتظامیہ اور حکومت سے مطالبہ کرتی ہے کہ شفافیت کے عمل کو یقینی بنایا جائے کیونکہ بے شک جان تو آنی جانی چیز ہے ۔ حضرت امام حسین ؓ نے پوری امت کو ووٹ کے تقدس کا جو سبق دیا ہے ہم نے اس سبق کو یاد رکھنا ہے چاہے ظالم کچھ بھی کر لے ہمیں حق کے راستے سے نہیں ہٹنا ۔ اسہی سے انقلاب آئے گا اور اسی سے قوم کی تقدیر بدلے گی ۔۔۔

آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے ۔
ڈاکٹر نے مریضہ کے شوہر کو حوصلہ دیتے ہوئے کہا
”بھائی آپ بالکل فکر نہ کریں ، اس ہسپتال سے آپ کے گھر ایک بالکل نئی عورت جائے گی “
مریضہ کے شوہر نے خوشی اور تشویش کی ملتی جلتی کیفیت میں پوچھا ۔
”لیکن ڈاکٹر صاحب میری بیوی کو پتہ لگ گیا تو ۔۔۔؟“

قارئین ! عوام کو پتہ چلتا جا رہا ہے کہ ان کے حق رائے دہی کو کون کون سی قوتیں کہاں کہاں پامال کرتی ہیں ۔ جناب چیف الیکشن کمشنر پوری کشمیری قوم آپ کے ساتھ ہے حوصلے سے کام لیں اور سچائی کا ساتھ جرات سے دیں ۔
Junaid Ansari
About the Author: Junaid Ansari Read More Articles by Junaid Ansari: 425 Articles with 338798 views Belong to Mirpur AJ&K
Anchor @ JK News TV & FM 93 Radio AJ&K
.. View More