سیاست،معاشرت اور سماجی اقدار

وطن عزیزمیں معاشرہ کچھ اس طور پر آہستہ آہستہ تبدیل ہوتا آیا ہے کہ اس کا ذمہ کسی ایک پر ڈالناانتہائی دشوار کام ہوگا۔ملک چلانے کیلئے سیاسی پارٹیاں ہوتی ہیں۔ریاست کا انتظام چلانے کیلئے آئین راہ متعین کرتا ہے۔ہمارا ملک کچھ عرصہ آئین سے محروم رہا اور کبھی کبھی عبوری آئین بھی بنائے جاتے رہے،اس دوران چار مارشل لاء بھی آئے تاہم سلسلہ کسی بھی طور چلایا جاتارہا۔ 1970ء میں آئین ساز اسمبلی کیلئے انتخابات ہوئے۔ملک میں مارشل لاء لگا ہواتھا ۔جنرل یحییٰ خان نے ون یونٹ توڑ دیا تھا جو کہ سیاسی پارٹیوں کا پرانا مطالبہ بھی تھا۔پاکستان میں پانچ صوبے وجود میں آگئے۔ مشرقی پاکستان سے عوامی لیگ نے سوائے ایک نشست کے باقی سب پرکامیابی حاصل کرلی ۔پنجاب اور سندھ سے پیپلز پارٹی جیت گئی ۔بلوچستان پہلی با رصوبہ بنایہاں سے نیشنل عوامی پارٹی کو 20 میں سے8 نشستیں ملیں،جمعیت علماء اسلام کو تین اور باقی آزاداور کچھ جماعتوں کو حاصل ہوئیں۔ سرحد(موجودہ خیبر پختونخواہ) میں بھی نیشنل عوامی پارٹی، جمعیت علماء اسلام اور کچھ سیاسی جماعتوں نے حاصل کیں۔ اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی کے مصداق پاکستان کی سیاست کا بھی وہی حال تھا۔سیاسی کش و بگیر اور اندرونی انتشار کی وجہ سے بھارت مشرقی پاکستان کو پاکستان سے علیحدہ کرنے میں کامیاب ہوا۔سیاسی جماعتوں کا منشور ان کا آئین ہوتا ہے اور اس میں لوگوں کی خدمت کیلئے رہنماء ہمیشہ مصروف رہتے ہیں۔ سیاست عبادت ہوتی ہے لیکن آج کی سیاست میں "عبادت" کم اور" تجارت "کا عمل دخل حد سے زیادہ ہوچکا ہے۔اب سرمایہ کاری اورمہم جوئی ہر جماعت میں سرائیت کر چکی ہے۔اس وجہ سے ایک جماعت چھوڑ کراس کی مخالف جماعت میں جاناکوئی عار نہیں سمجھتا کیونکہ ذاتی مفاد قومی اور عوامی مفاد پر حاوی ہو گیا ہے۔اقتدار سے باہررہنا ایسے ہوگیا ہے جیسے پانی سے باہرمچھلی۔نظریہ اور سیاسی سوجھ بوجھ کی کوئی ضرورت نہیں، جیسا کہ انگریزی میں کہا وت ہے "سیاست میں احمق ہونا کوئی معذوری نہیں ہوتی"۔ دھندہ ہے کہ چل رہا ہے اور خوب منافع بخش ہے۔

میرا تعلق کیونکہ براہ راست سیاست سے ہے، میرے والد بلوچستان اسمبلی کے پہلے بلا مقابلہ اسپیکر ،دو بار وزیر اعلیٰ اور دوبارہ اسپیکر کے عہدے پر منتخب ہوئے انہوں نے بوجوہ استعفیٰ دیا ۔میں خود 2007ء میں نگران وزیر ریوینیو اور 2013ء میں نگران وزیراعلیٰ بلوچستان بنا۔میرے والد پیپلز پارٹی میں تھے۔میں تادم تحریر سیاسی کنوارہ ہوں میں سیاسی جماعتوں کے رویوں کو بخوبی جانتا اورانہیں جھیل چکا ہوں۔ویسے مجھے والدمرحوم کی پارٹی میں شمولیت کرنا چاہیے تھی مگر پارٹی نے تو ان کی وفات پر تعزیت ہی نہیں کی۔2012ء میں میری سابقہ صدر آصف زرداری سے ملاقات ہوئی اور ان کے پوچھنے پر کہ پارٹی کی بلوچستان میں آنے والے انتخابات میں کیا پوزیشن ہوگی،میں نے ان سے کہا کہ بلوچستان میں آپ کی پارٹی گراؤنڈ زیرو ہے اور اب آپ پر منحصرہے کہ اس پر کچھ بناتے ہیں یا اس کو سالانہ برسی کے موقع پر پھولوں اور موم بتیوں کیلئے چھوڑتے ہیں۔انہوں نے کہا آپ پارٹی جوائن کرلیجئے ۔اس پر میں نے ان سے کہا کہ مجھے اپنے والد کی پار ٹی میں شامل ہونے میں کوئی مسئلہ نہیں ۔مگر 1977ء کے مارشل لاء کے بعد ہم سیاسی طوربہت کمزور ہوگئے ہیں۔ جہاں بڑے بڑے اور بزعم خود بانی ممبران پارٹی چھوڑگئے تھے وہاں میرے والد محترم ضیائی آمریت کے دوران جماعت میں مضبوطی سے موجود رہے۔1988ء کے انتخابات میں پارٹی کے اقتدارمیں آنے پر بلوچستان میں میرے والد بلوچستان اسمبلی کے اسپیکر منتخب ہوئے۔ان کے ہی کاسٹنگ ووٹ کی بدولت میر ظفراﷲ جمالی وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے،بعدازاں جمالی صاحب نے اسمبلی توڑدی جو بحال ہوئی تو نواب اکبر بگٹی وزیر اعلیٰ بن گئے۔ اسپیکر نواب محمد خان باروزئی نے استعفیٰ دے دیا۔ 1990ء ، 1993ء اور 1997ء میں ننگی دھاندلیوں کے سبب معاشرتی اور سیاسی کمزوریوں کے شکار ہیں ۔بلوچستان کے گورنر صوبائی حکومت کی کارکردگی سے نالاں تھے اور جب ان سے کچھ کرنے کا کہا جاتاتو وہ یہ کہہ کر جان چھڑاتے کہ میں نے تو استعفیٰ دیا ہوا ہے۔ زرداری صاحب سے میں نے کہا کہ ان کا استعفیٰ قبول کرکے مجھے گورنر بنادیں پھر دیکھیں میں جماعت اور ملک کیلئے کیا کرتا ہوں ۔انہوں نے جواب میں کہا کہ میری بہن سے ملیں۔

28 مئی 2013ء میں نواز شریف سے ملاقات ہوئی۔ ان سے بلوچستان اور پاکستان کے معاملات پر سیر حاصل گفتگو ہوئی مگر ان کے تکبر میں دفن جثے میں دلیل نام کی کسی چیز کیلئے گنجائش ہی نہ تھی۔6جون 2013ء میں پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے چیئرمین محمود خان اچکزئی سے پارلیمنٹ لاجز میں ان کی رہائش گاہ پر ملاقات ہوئی۔ وہ بولان سے چترال تک کا نعرہ لگاتے ہیں اور پنجابی استعمار کا پرچار کرتے رہتے تھے۔انہوں نے میرے کچھ کہنے پر کہا کہ آپ مسلم لیگ( ن )میں شمولیت کریں آپ کو سینیٹر بنائیں گے۔میں نے کہا کہ سینیٹر تو تم بھی بنا سکتے ہو اپنی پارٹی کی بجائے پنجابی استعمار کی پارٹی میں شامل ہونے کیلئے کیوں کہہ رہے ہو۔یاد رہے کہ میں پشتون ہوں۔ 2015ء میں دھاندلی کمیشن میں بطور گواہ پیش ہوا ۔ گواہی کے بعد عمران خان سے کورٹ کے اندر ملاقات ہوئی تو انہوں نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ واقعی بلوچ بہت سچ بولتے ہیں تب میں نے کہا کہ خان صاحب میں بلوچ نہیں پشتون ہوں ۔انہوں نے قدر تامل سے کہا کہ پشتون بھی سچ بولتے ہیں۔باقی جماعتوں نے بھی ایک سابق وزیر،سابق وزیر اعلیٰ کو اس قابل نہیں سمجھا کہ وہ ان کی جماعت کی خدمت کرسکتا۔ البتہ ہر جماعت کے کارکن ہمیشہ عزت اوراحترام سے اپنی اپنی جماعت میں شمولیت کی دعوت دیتے رہتے تھے۔ یہ ہمارے ملک عزیز کی سیاسی ، معاشرتی اورسماجی اقدار ہیں جن کا میں شاہد اور اپنے آپ کو ناکارہ سمجھتا ہوں۔ دعا ہے رب العزت ملک عزیز کو راہ راست پر گامزن فرمادے۔آمین

 

Ghous Buksh Khan
About the Author: Ghous Buksh Khan Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.