ہم نے اپنی زندگی میں اب تک یہ دیکھا ہے کہ کسی ملک کی
عدالت میں پاکستان کا کوئی کیس جائے یا کسی پاکستانی کا کیس جائے تو چاہے
آپ کتنے ہی مضبوط دلائل دیں کروڑوں روپئے کے وکیل کریں لیکن فیصلہ پاکستان
یا پاکستانی کے خلاف ہی آتا ہے ۔آپ کوئی مسئلہ عالمی عدالت میں لے جائیں
وہاں سے بھی فیصلہ پاکستان کے خلاف ہی آتا ہے ۔اس کے برخلاف کوئی ملک ہمارے
خلاف کسی ملک کی عدالت یا عالمی عدالت میں جاتا ہے تو تو بھی فیصلہ اسی ملک
کے حق میں ہوتا ہے یا ایسا گول مول فیصلہ ہوتا ہے جس کا جھکاؤ ہمارے خلاف
مقدمہ دائر کرنے والے ملک کے حق میں ہوتا ہوا لگتا ہے۔بھارتی جاسوس کلبھوشن
کا کیس آپ کے سامنے ہے جس کو ہماری ایجنسیوں نے کافی عرصے کی نگرانی کے بعد
رنگے ہاتھوں قوی ثبوت کے ساتھ پکڑا تھا ۔کلبھوشن کی رہائی کے حوالے سے
بھارت عالمی عدالت میں چلا گیا ۔میں یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ اگر یہ
معاملہ بالکل اس کے الٹ ہوتا کہ ہمارا کوئی جاسوس بھارت میں پکڑا جاتا اور
اسے اگر سزائے موت سنائی جاتی اور ہم عالمی عدالت میں جاتے تو عالمی عدالت
یہ کہہ کر کیس کی سماعت سے انکار کردیتی کہ یہ مسئلہ ہمارے دائرہ اختیار
میں نہیں آتا ،29جنوری بروز جمعہ کے اخبارات میں فیصلہ آیا ہے کہ ابراج
گروپ کے بانی عارف نقوی کو برطانوی عدالت نے امریکا کے حوالے کرنے کا حکم
دیا ہے ۔عارف نقوی کا ابراج گروپ کا ہی کے الیکٹرک ہے اور اہل کراچی کو کے
الیکٹرک نے دل بھر کہ نچوڑا ہے اہل کراچی نے کے الیکٹرک سے بڑے دکھ اٹھائے
ہیں اربوں روپئے کے تانبے کے تار نکال کر سلور کے لگائے گئے ۔بقایاجاتarearکے
نام سے اضافی بل بھیج کر لوگوں کی جیبوں پر ڈاکا ڈالاہوسکتاہے کسی غریب
مظلوم کی بددعا لگ گئی ہو لیکن ایک پاکستانی ہونے کی حیثیت سے عارف نقوی کے
ساتھ لندن کی عدالت کے جج نے انصاف سے کام لینے کے بجائے تعصب کا مظاہرہ
کیا ہے ویسٹ منسٹر مجسٹریٹس کورٹ کے سامنے عارف نقوی کے وکلاء نے دلائل
دیتے ہوئے کہا کہ عارف نقوی کو امریکا کی جیل میں نارواسلوک کا سامنا ہوگا
کیس کی سماعت کے دوران 6ماہر گواہوں نے وڈیو للنک کے ذریعیامریکا کی جیلوں
کی حالت زار بیان کی وکلاء کا کہنا تھا کہ عارف نقوی کو امریکی جیل بھیجنا
انسانی حقوق سے سمجھوتہ کرنے کے مترادف ہے ۔
اسی طرح پاکستان کے ایک معروف بینکار جنھوں نے یو بی ایل بنایا تھا انھوں
نے BCCIبنایا جس نے امریکا سمیت پورے یورپی دنیا میں ایک تہلکہ مچا دیا ،وہ
یہودی سرمایہ کار جنھوں نے پوری دنیا کی معیشت کو اپنے ہاتھ میں رکھا ہوا
ہے انھوں نے سوچا کہ ایک ترقی پذیر ملک کے چھوٹے سے بینکار اور وہ بھی
مسلمان کی یہ ہمت کہ وہ ہمارے مقابلے پر آگیاپھر انھوں نے امریکا کی عدالت
میں اس بینک کے خلاف ایک جھوٹا مقدمہ دائر کیا کہ یہ بینک ڈرگ مافیا کی
بلیک منی کو وھائٹ کررہا ہے اس پر پابندی عائد کی جائے اس طرح اس بینک کا
گلا گھونٹ دیا گیا اگر بی سی سی آئی قائم رہتا تو آج پاکستان کے بیشتر
معاشی مسائل حل ہو جاتے ۔
ڈاکٹر عافیہ کا کیس تو حال ہی کی بات جن کو تینوں بچوں سمیت2003میں پرویز
مشرف کے دور میں کراچی سے نیپا کے پل کے نیچے سے اغوا کیا گیا ان کو
افغانستان کے عقوبت خانوں میں رکھا گیا انھیں ہولناک قسم کی اذیتیں دی گئیں
اور پھر ایک امریکی فوجی پر بندوق سے گولی چلانے مقدمہ چلایا گیا اور ایک
امریکی عدالت انھیں 90سال کی سزا سنائی ۔عارف نقوی کے بارے میں خبر میں
لکھا تھا کہ انھیں دھوکا دہی جعلسازی اور منی لانڈرنگ سمیت 16مختلف الزامات
میں 300سال کی سزا کا سامنا کرنا پڑے گا ۔حال ہی میں پی آئی اے کے طیارے کو
ملائیشیا میں روک لینے کا واقعہ رونما ہوا کہ یہ طیارہ پی آئی اے نے لیز پر
حاصل کیا تھا کارونا کی وباء نے دنیا کہ ہر ملک کی معیشت کو ہلا کر رکھ دیا
پی آئی اے کا بزنس بھی بہت متاثر ہوا پی آئی اے نے متعلقہ کمپنی کو اس
صورتحال سے آگاہ کردیا تھا لیکن متعلقہ لیز کمپنی نے اس درخواست کو قبول
نہیں کیا لندن کی عدالت نے مقدمہ دائر کردیا مقروض طیارہ کوجب ملائیشیا سے
پاکستان مسافروں کو لے کر آنا تھا اس وقت برطانوی عدالت کے دباؤ پر
ملائیشیا کی عدالت نے بھی لیزنگ کمپنی کے حق اور اپنے مسلم برادر ملک کے
خلاف فیصلہ دیا اور طیارے کو ایئر پورٹ پر روک کر مسافروں سے خالی کرالیا ۔
براڈشیٹ کا اسکینڈل کی تحقیقات کے لئے وزیر اعظم نے ایک یک رکنی تحقیقاتی
کمیشن تشکیل دیا ہے اس لئے ہمیں اس کی تفصیل میں نہیں جانا ہے البتہ اپنے
پوائنٹ کی وضاحت کے لئے کچھ مختصراَاس کی دلہخراش داستان بھی سن لیں ،پرویز
مشرف صاحب جب بر سر اقتدار آئے تو انھوں نے سیاست دانوں کی کرپشن اور قوم
کے لوٹے ہوئے پیسوں کی واپسی کے لئے ایک ادارہ قومی احتساب بیوروNational
Accountibity bueroقائم کی اس نیب کے پہلے سربراہ جنرل امجد کو بنایا گیا
معروف صحافی ہارون رشید صاحب کہتے ہیں کہ جنرل امجد ایماندار اور صاف ستھرے
فرد ہیں لیکن وہ شاید مومنانہ صفت سے محروم ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کی ایک حدیث
ہے کہ "مومن وہ ہے جو نہ دھوکا دیتا ہے نہ دھوکا کھاتا ہے "۔براڈشیٹ کمپنی
کولوریڈو کے تاجر جیری جیمز نے قائم کی تھی ۔اس سے نیب نے یہ معاہدہ کیا کہ
وہ نوازشریف اور دیگر 200پاکستانیوں کی بیرون ملک میں دولت اور جائداد کا
سراغ لگائیں گے جتنی رقم کا معلوم ہوگا اس کا بیس فی صد اس کمپنی کو معاوضہ
ادا کیا جائے گا یہاں پر اس امر کی وضاحت سامنے نہیں آئی کہ یہ رقم کی
معلومات نیب کو فراہم کریں گے اس پر اپنا کمیشن وصول کریں گے جبکہ اصولاَیہ
ہونا چاہیے تھا جو رقم پاکستان کو ملے گی اس پر کمیشن دیا جائے گا،اس میں
ایک اور عجیب شرط رکھی گئی کہ جو رقم نیب اپنے ذرئع سے معلوم کرے گی اس پر
بھی کمپنی کو بیس فیصد کمیشن دیا جائے گا ۔2003تک اس حوالے سے جب کوئی پیش
رفت نہیں ہوئی نیب نے یہ معاہدہ ختم کردیا براڈ شیٹ کمپنی مالی بحران کی
وجہ سے تحلیل ہو گئی ،2005میں کچھ مالی صورتحال بہتر ہوئی تو یہ کمپنی بحال
ہو گئی ۔جن دنوں براڈشیٹ کو مالی مسائل کا سامنا تھا مسٹر جیمز نے کولوریڈو
ہی میں اسی نام براڈ شیٹ ایل ایل سی)کے ایک الگ کمپنی قائم کرلی ۔2008میں
یہ کمپنی جو نیب اور ریاست پاکستان کے ساتھ اصل معاہدے کا فریق نہیں ہے ان
دعوں کے ساتھ بات چیت کے لئے سامنے آئی جو اصلی براڈ شیٹ کے پاکستان سے
متعلق تھے اور ایک بار پانچ ملین ڈالر کی ادائیگی کی گئی تاہم قانون کی
قابل اطلاق دفعات کے مطابق پانچ ملین کی یہ ادائیگی جو غلط براڈ شیٹ کو کی
گئی اصل مسئلے کا حل ثابت نہ ہو سکی ۔یہ حقائق اور فریقین کے مابین قانونی
جھگڑے کے وہ معاملات ہیں جن کے نتیجے میں برا د شیٹ ایل ایل سی اور ریاست
پاکستان کے مابین ثالثی کی کارروائی کی گئی۔ثالثی کی اس کارروائی یہ بات
سامنے آتی ہے کہ نیب نے متعلقہ معاہدے کے تحت 2ادائیگیاں کی تھیں1.5ملین
امریکی ڈالر کی ایک ادائیگی جیری جیمز کے اکاؤنٹ کو کی گئی جس نے جعلی
براڈشیٹ قائم کر رکھی تھی ۔
اب دیکھئے پاکستان کے ساتھ کیا زیادتی ہوتی ہے ۔ثالثی عدالت نے یہ نتیجہ
اخذکیا کہ ایک غلط کمپنی کو یہ ادائیگی ہونا کوئی سادہ غلطی نہیں تھی اور
یہ کہ یہ جان بوجھ کر کیا گیا اقدام ہے جو اصلی براڈشیٹ کو مالی طور پر
دھوکا دینے کے لئے ڈیزائن کیا گیا ،اس کے بعد 2011میں مسٹر جیمز نے پیرس
میں خود کشی کرلی۔ان حالات میں نومبر 2018میں لندن کورٹ آف انٹر نیشنل آر
بٹریشن ( ایل سی آئی اے )نے نیب کے خلاف 17ملین ڈالر جرمانے کا فیصلہ
سنادیا بعد ازاں ایوارڈ میں مزید 3ملین ڈالر مقدمے کی لاگت کی مد میں اضافہ
کردیا ۔چونکہ نیب نے 20ملین ڈالر کی رقم ادا نہیں کی چنانچہ اس رقم پر سود
جمع ہوتا رہا جو دسمبر 2020تک مجموعی طور پر 28.7ملین ڈالر تک پہنچ گیا ۔
جب اس معاملے کی برطانوی ہائیکورٹ میں اپیل کی گئی تو مذکورہ عدالت نے بھی
براڈشیٹ کے حق مین فیصلہ دے دیا ۔اسے کہتے ہیں ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ
مفاجات۔
|