ملک میں اس وقت سینیٹ کے انتخابات کی سرگرمیاں عروج پر
ہیں ، سینیٹ کو قائم تو اس لئے کیا گیا تھا کہ کسی ایک صوبے کی آبادی کی
بنیاد پر بالادستی نہ ہو اور ملک میں سب صوبوں کو برابری کے حقوق ملیں ،
لیکن سینیٹ کے انتخابات میں پیسے کے استعمال نے ملک سے نظریاتی سیاست اور
اخلاقیات کا جنازہ نکال دیا ہے ،سینیٹ الیکشن میں گڑ بڑ کرنا اور روپے پیسے
کا سب سے زیادہ استعمال بلوچستان اسمبلی میں ہوتا ہے۔ماضی میں بلوچستان اور
خیبر پختونخواہ سے بہت سے دولت مند اور کروڑ پتی صرف دولت کے بل بوتے پر
خرید و فروخت کر کے سینیٹر منتخب ہوتے رہے ہیں۔
حد تو یہ تھی ایک ہی کاروباری خاندان کے چار افراد بیک وقت سینیٹر منتخب
ہوگئے اور وہ بھی پارٹی بنیادوں پر نہیں بلکہ ذاتی بنیادوں پر، جس کو ایک
تاریخی سیاسی لطیفہ کہا جاتا ہے، چنانچہ گذشتہ سینیٹ الیکشن میں جو کھیل سر
عام کھیلا گیا وہ تماشا سب نے کھلی آنکھوں سے دیکھا ، راتوں رات بلوچستان
عوامی پارٹی بنی ، بلوچستان میں ن لیگ کی حکومت گرائی گئی ، حکومت گرانے
میں ن لیگ کی مرکز میں اتحادی جمعیت بھی اسٹیبلیشمنٹ کا اول دستہ بنی ،
زرداری صاحب نے بھی اپنا ہاتھ اسٹیبلیشمنٹ کے ہاتھ میں دیا اور اعلان کیا
کہ میں ن لیگ کا چئیرمین آنے نہیں دوں گا ، عمران خان نے بھی ہاتھ گھما کر
زرداری صاحب کی حمایت کی ، صادق سنجرانی چئیرمین بنے اور سلیم مانڈوی والا
ڈپٹی چئیرمین ، ادھر سندھ میں فاروق ستار کنوینر متحدہ نے کامران ٹیسوری کو
سینیٹ کا ٹکٹ دے دیا ، پارٹی کے اندر سے آواز بلند ہوئی کہ ٹیسوری کو
سینیٹر مت بناو ، آواز اتنی بلند ہوتی گئی کہ پارٹی واضح طور پر دو حصوں
میں بٹ گئی ، اگر کامران ٹیسوری پارٹی کا نظریاتی کارکن ہوتا تو وہ کہہ
دیتا کہ میری وجہ سے پارٹی دو حصوں میں بٹ رہی ہے میں سینیٹ کے الیکشن سے
دستبردار ہوتا ہوں ، لیکن وہ پارٹی میں آیا ہی مفاد اور عہدے کے لئے تھا
پھر وہ عہدہ اور مفاد کیسے چھوڑ سکتا تھا ، اس لئے اس نے پارٹی کے کندھے پر
بندوق رکھی اور کہا کہ مجھے فاروق ستار صاحب نے نامزد کیا ہے جب تک وہ نہیں
کہیں گے میں الیکشن سے دستبردار نہیں ہوں گا ، فاروق ستار پارٹی کے کنوینر
تھے لیکن انہوں نے اپنے آپ کو بانی متحدہ سمجھ لیا اور غلط فیصلے پر ڈٹ گئے
، پھر نتیجہ وہی ہوا متحدہ کے ارکان اسمبلی نے کامران ٹیسوری کو ووٹ نہیں
ڈالا ، کامران ٹیسوری بھی ہار گئے اور بعد میں فاروق ستار کو بھی اپنی من
مانی کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑی اور وہ پوری پارٹی جو اتفاق سے ان کی
جھولی میں آگری تھی وہ پی ، آئی ، بی سے بہادر آباد منتقل ہوگئی ، متحدہ کے
4 کے بجائے صرف ایک سینیٹر کامیاب ہوئے اور وہ ایک سینیٹر بھی فروغ نسیم
تھے جو حقیقت میں متحدہ کے ہیں ہی نہیں ، اب مارچ میں سینیٹ الیکشن میں وہی
کھیل تماشے پھر ہوں گے ، ادھر PDM کے شور میں ن لیگ اور پیپلزپارٹی نے اپنی
اپنی گیم سیٹ کر لی ہے ۔
دشمنی جم کر کرو لیکن یہ گنجائش رہے
جب کبھی ہم دوست ہو جائیں تو شرمندہ نہ ہوں
اگر سینیٹ انتخابات کے حوالے سے پنجاب کا جائزہ لیا جائے تو عثمان بزدار
صاحب کی ڈھیلی ڈھالی حکومت سے بہت سے اراکین اسمبلی شکوہ کناں ہیں۔ وزیر
اعظم ذاتی طور پر بیشتر افراد کو نہ جانتے ہیں نہ ان کا ان سے مسلسل رابطہ
ہے۔اگر سینیٹ انتخابات کے حوالے سے پنجاب کا جائزہ لیا جائے تو بزدار صاحب
کی ڈھیلی ڈھالی حکومت سے بہت سے اراکین اسمبلی شکوہ کناں ہیں۔ وزیر اعظم
ذاتی طور پر بیشتر افراد کو نہ جانتے ہیں نہ ان کا ان سے مسلسل رابطہ ہے۔
اس لیے پنجاب میں کئی ارکان اسمبلی اپنی مرضی کر سکتے ہیں، جس سے یہ تاثر
ابھرے گا کہ تحریک انصاف کے اندر بہت سے لوگ ناراض ہیں۔ہاں البتہ اوپن بیلٹ
ہو تو لوگ بغاوت کے خوف سے کھل کر سامنے نہیں آئیں گے اور یوں پی ٹی آئی
اپنے زیادہ تر لوگ اپنی نئی پالیسی کی وجہ سے جتوا لے گی۔
اس لیے پنجاب میں کئی ارکان اسمبلی اپنی مرضی کر سکتے ہیں، جس سے یہ تاثر
ابھرے گا کہ تحریک انصاف کے اندر بہت سے لوگ ناراض ہیں۔بظاہر سیاسی اصول
پسندی کا روپ دھار کر یہ کہا جا رہا ہے کہ سینیٹ الیکشن میں اراکین کی
بولیاں لگتی ہیں اس لیے پی ٹی آئی اوپن بیلٹ اپنا کر اس طریقے کو شفاف
بنانا چاہتی ہے۔حقیت یہ ہے کہ اگر سیاسی اصول پسندی ہو تو فیصلے سود و زیاں
اور نفع نقصان سے اوپر اٹھ کر کیے جاتے ہیں مگر تلخ ترین پہلو یہ ہے کہ پی
ٹی آئی ہو یا ن لیگ ہو یا پیپلز پارٹی، سب کو اصو ل صرف اپنے فائدے میں یاد
آتے ہیں، اور نقصان ہو تو اصول بھلا دیے جاتے ہیں۔تحریک انصاف کی نیت کو
دیکھا جائے تو وہ بھی اس معاملے کا اصولی حل نہیں بلکہ اپنے فائدے کا حل
چاہتی ہے وگرنہ سب جماعتوں کو ساتھ ملا کر قانون سازی کی کو شش کی جاتی۔
تحریک انصاف واقعی شفافیت چاہتی ہوتی تو پنجاب میں ن لیگ کے ووٹ توڑنے کو
بھی غلط قدم گردانتی اور اس معاملے میں بھی انکوائر ی کرواتی۔ مگر ظاہر ہے
کہ یہ ان کے فائدے میں نہیں تھا اس لیے اس معاملے کو قالین کے نیچے دبا دیا
گیا ہے۔
باقی ہم سب تو اسلامی نظام کے نفاذ کے داعی ہیں ، اس لیے بلا تفریق میں
پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں سے اپیل کرتا ہوں کہ پاکستان جیسی خوبصورت
ریاست کی ترقی اور بقا کی خاطر آپس کی لڑائیوں کو پس پشت ڈال کر متحد اور
مخلص ہو کر اپنے مقاصد کو مد نظر رکھتے ہوئے کام کریں، اگر ہم نے متحد ہو
کر محنت کی تو ان شاءاللہ ایک دن ضرور آئے گا کہ پاکستان کی تمام دھاندلی
والے کاموں سے ہمیں ہمیشہ کے لیے چھٹکارا مل جائے گا ، پھر ہم سب کے سارے
مسائل خودبخود حل ہو جائیں گے ۔
یہ اہل سیاست کی روایت ہے پرانی
دعویٰ جو کیا کرتے ہیں پورا نہیں کرتے
|