پاکستان کے حالات اور آزاد کشمیر کے انتخابات

شیخ سعدی ؒ ایک حکایت میں لکھتے ہیں کہ ایک شخص کا گدھا کیچڑ میں پھنس گیا اس نے بہت کوشش کی لیکن اسے نکالنے میں کامیاب نہ ہوسکا ناچار تھک ہار کر بیٹھ گیا ۔سنسان جنگل ،شدید سردی اور تیز بارش پہلے ہی کچھ کم مصیبت نہ تھی اب گدھے کی وجہ سے اسے رات بھر وہیں بیٹھنا پڑا تو جھلاہٹ میں اپنا دماغی توازن برقرار نہ رکھ سکا اور بادشاہ وقت کو بے تحاشا گالیاں دینے لگا اتفاق سے بادشاہ شکار کھیلتے کھیلتے ادھر آنکلا اور اس شخص کی گالیاں سن کر وہیں رک گیا اور ملازموں سے پوچھنے لگا کہ یہ شخص مجھ پر اتنا غصہ کیوں کررہا ہے ملازموں نے کہا کہ عالی جاہ ایسے نابکار اور بے ہودہ گو کا علاج تلوار ہی کرسکتی ہے اجازت ہو تو اس کی گردن اڑادی جائے عالی حوصلہ بادشاہ نے ان کا مشورہ رد کردیا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ مصیبت انسان کو چڑچڑا اور بدمزاج بنا دیتی ہے اس نے اس بچارے کے گدھے کو کیچڑ سے نکلوایا اور انعام واکرام دے کر اس کا دل خوش کردیا اب وہ بادشاہ گالیاں دینے کی بجائے دعائیں دینے لگا ۔۔۔

قارئین شیخ سعدی ؒ کی بیان کردہ آج کی یہ حکایت کیا اخلاقی سبق دیتی ہے یہ ہر پڑھنے والے پر اپنے اپنے ذوق کے مطابق ہے البتہ ہمارے آج کے موضوع کا تعلق اس حکایت سے ضرور ہے ۔

موجودہ حکومت وفاق میں تین سال کا عرصہ گزار چکی ہے میڈیا سے لے کر عوام تک مہنگائی کے بوجھ تلے دبنے والے پاکستانی اس وقت شیخ سعدی ؒ کی اس حکایت کے گدھے کے مالک کی طرح حکمرانوں کو شدید ترین تکلیف میں مبتلا ہوکر گالیاں دے رہے ہیں اور عوام کی یہ چیخ وپکار جمہوری حکومت کی اس تعریف کے مطابق ہے کہ جس کے متعلق کسی سیانے نے کہا تھا کہ ”مارشل لا ءاور ڈکٹیٹر کے دورحکومت میں سنتے تو سب ہیں لیکن بولتا کوئی نہیں اور جمہوری دور حکومت میں بولتے تو سب ہیں مگر سنتا کوئی نہیں ۔۔۔“

اس وقت پاکستان میں بالکل ایسی ہی صورتحال ہے کہ بول تو سب رہے ہیں لیکن شنوائی کسی کی بھی نہیں ہورہی ایس ایم ایس کے زریعے پھیلائے جانے والے مختصر پیغامات اور طنزومزاح پر مبنی مختلف باتیں عوام میں پائے جانے والے اشتعال اور بے چینی کو ظاہر کررہے ہیں ان ایس ایم ایس میں جنرل مشرف کی حکومت کے دوران مختلف اشیاء صرف کے ریٹس اور آج کل کی قیمتوں کا تقابل بھی لوگوں کے سامنے رکھا جاتاہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مختلف چیزوں کی قیمتوں میں دوگنا ،تین گنا اور حتیٰ کہ چار گنا اضافہ بھی ریکارڈ کیا گیا ہے جنر ل مشرف کے دور حکومت میں ڈرون حملے شروع ہوئے اور اب ان کی تعداد میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوچکاہے اور ملک میں خود کش حملے ،بم دھماکے ،غیر ملکی مداخلت سے لے کر ہر سطح پر قومی سلامتی اور غیرت کو چیلنجز درپیش ہیں اور ان تما م کاروائیوں میں بھی دوگنا ،تین گنا اور حتیٰ کہ چارگنا اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے اس تقابلی جائزے کا مقصد ”طبلے والی سرکار “کو کسی قسم کا جواز ِحکومت مہیا کرنا ہرگزنہیں ہے ہاں ”جمہوریت ہی سب سے بڑا انتقام ہے “کا دعویٰ اور نعرہ بلندکرنے والے بھٹو شہید کے جانشینوں کو ”مہنگائی اور بدامنی کے کیچڑ میں پھنسے غریب عوام “کے دلوں اور لبوں سے نکلنے والی آہ وزاری سے آگاہ کرنا ہے ۔ ایبٹ آباد آپریشن کے بعد پاکستانی میڈیا سے لیکر بین الاقوامی نشر و اشاعت کے تمام اداروں نے پاکستانی حکومت کی کارکردگی ، اہلیت اور ایمانداری پر سوالیہ نشان اٹھائے ہیں اور ابھی تک پاکستانی سیاسی حکومت کی طرف سے داخلی سلامتی کے سلسلہ میں اٹھنے والے کسی بھی سوال کا تسلی بخش جواب نہیں دیا گیا ۔ ان کیمرہ بریفنگ اور عوام سے مخفی رکھی جانے والی تحقیقات کا تذکرہ تو کیا جا رہا ہے لیکن 18کروڑ پاکستانی اور کشمیری عوام کے سامنے حقائق پیش نہیں کیے جا رہے اور ان تمام حقائق کو چھپانے کی وجہ سے مہنگائی ، بے روزگاری اور بدامنی کے ہاتھوں ستائے ہوئے عوام مزید ذہنی خلفشار کا شکار ہو رہے ہیں ۔ آنکھ اس وقت پردہ ہٹنے کی منتظر ہے اور ایک بڑی گیم کے نتائج لوگوں کے سامنے آئیں گے ۔ یہاں تک کہا جا رہا ہے کہ اسامہ بن لادن کے نام پر کیے جانے والے آپریشن کے پس پردہ مقاصد اور محرکات قسطوں میں سامنے آئیں گے اور امریکی الیکشن میں اپنے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے سے لیکر افغانستان سے ایک بے سود جنگ کی دلدل میں پھنسے نیٹو افواج کو نکالنے کےلئے یہ ڈرامہ رچایا گیا ۔

قارئین ! امریکہ کا مقصد کچھ بھی ہو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر اس نے پاکستان کو استعمال بھی کیا اور آئندہ بھی استعمال کرے گا ۔ اس وقت سوال ہمارے حکمرانوں کی دیانتداری اور اہلیت پر اٹھ رہے ہیں کہ کیا وہ دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت کی حامل قوم کی قیادت کے قابل ہیں یا نہیں ۔۔۔؟

گزشتہ دنوں ورلڈ کپ کے دوران پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والے سیمی فائنل کے موقع پر پاکستانی وزیراعظم اپنے وزراء سمیت اپنے بھارتی ہم منصب سے ملنے اور میچ دیکھنے کےلئے انڈیا گئے یہ بات یاد رکھی جائے کہ قوموں کی زندگی میں ایسے مواقع صرف کھیل کود کی حد تک محدود نہیں ہوتے بلکہ کچھ خاص مقاصد کے تحت بڑی قوتیں مختلف ممالک کو اکٹھا بیٹھنے پر مجبور کرتی ہیں اور ایسا ہی ہوا اس دوران چند ہفتے ہی گزرے اور اسامہ بن لادن کی ایبٹ آباد میں امریکی آپریشن کے ذریعے نشانہ بنانے کی خبریں پوری دنیا کو ہلا کر رکھ گئیں ملکی سلامتی کے حوالے سے خدشات کا ایک سونامی پوری قوم کے پیچھے ہے اور اس انتہائی نازک دور میں آزاد کشمیر میں الیکشن ہونے جا رہے ہیں الیکشن 2011ءآزاد کشمیر کی 63سالہ تاریخ کے نازک ترین الیکشن کہے جائیں تو یہ بے جا نہ ہو گا ۔ اس الیکشن کے نتیجہ میں جو بھی حکومت برسراقتدار آئے گی وہ پاکستان و بھارت کے درمیان پائے جانے والے تنازعہ کشمیر کے حل کی جانب جانے والے روڈ میپ میں شریک ہو گی اور آئندہ آنے والے پانچ سالوں کے دوران بین الاقوامی ایجنڈا کے مطابق اس حکومت نے اپنا مثبت یا منفی کردار ادا کرنا ہے ۔ اب یہ آزاد کشمیر کے عوام پر منحصر ہے کہ وہ جمہور کی آواز کی نمائندگی کرنے والے لیڈروں کو اسمبلی میں بھیجتے ہیں یا بین الاقوامی استعمار کے ہاتھوں کٹ پتلی بننے والے لوگوں کو اپنا نمائندہ چنتے ہیں ۔ اس وقت ایک نازک مرحلہ ہے اور بقول اقبالؒ۔
واعظ ِ قوم کی وہ پختہ خیالی نہ رہی
برق ِطبعی نہ رہی ، شعلہ مقالی نہ رہی
رہ گئی رسم اذاں، روح بلالی ؓ نہ رہی
فلسفہ رہ گیا ، تلقین ِ غزالی نہ رہی

آزاد کشمیر کے عوام پاکستان پیپلزپارٹی ، مسلم لیگ ن ، مسلم کانفرنس ، جماعت اسلامی ، جمعیت علماءاسلام ، جمعیت علماءجموں وکشمیر ، لبریشن لیگ ، محاذ رائے شمار ی سے لیکر دیگر درجنوں جماعتوں سے وابستہ اور آزاد امیدواروں میں سے اپنے نمائندگان کا انتخاب کرتے وقت اس چیز کو ملحوظ خاطر رکھیں کہ ان کا ایک ایک ووٹ صرف آزاد کشمیر کے ایک چھوٹے سے علاقہ کی تقدیر پر اثر انداز نہیں ہو گا بلکہ وسیع کینوس پر مبنی ایک بہت بڑے منظر نامے کی تکمیل کی یہ اہم ترین کڑی ہے فیصلہ عوام کے ہاتھوں میں ہے ۔

آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے ۔
دوردراز کے سنسان پہاڑی علاقہ میں آنے والے ایک غیر ملکی سیاح کو مقامی دیہاتی نے پراسرار انداز میں بڑی پہاڑی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا ۔
”آج تک جو بھی اس پہاڑ پر چڑھا ہے واپس آتے ہوئے نہیں دیکھا گیا ۔“
سیاح نے خوفزدہ لہجے میں پوچھا ۔
”کیا مطلب کہاں جاتا ہے وہ شخص جو اس پہاڑ پر چڑھتا ہے ۔؟“
دیہاتی نے اطمینان سے جواب دیا ۔
”جناب وہ دوسری جانب سے اتر جاتا ہے کیونکہ اس طرف کا راستہ بہت آسان ہے ۔“

امریکہ بہادر یہ یاد رکھے کہ پہاڑ پر سے اترنے کا راستہ چڑھنے سے زیادہ مشکل ہے ۔
Junaid Ansari
About the Author: Junaid Ansari Read More Articles by Junaid Ansari: 425 Articles with 338800 views Belong to Mirpur AJ&K
Anchor @ JK News TV & FM 93 Radio AJ&K
.. View More