اس مملکت خداداد کے ایک حصے نیلور بالا،
ہری پور ہزارہ میں اللہ کے دِین سے نابلد و ناآشنا کچھ بد بخت اپنے ہی گاؤں
کی ایک محترم خاتون کو سربازار رسوا کرتے ہیں اور پھر اس کے گھر کو آگ لگا
دیتے ہیں۔ مجھے نہیں پتہ اس کا جرم کیا تھا مگر میں یہ سوچ رہا ہوں کہ ایسا
کون سا جرم ہو سکتا ہے جس کی سزا میں میری اور آپ کی ماں کی عمر کی ایک
خاتون کو، جس کے سر سے ہم دوپٹہ اترتا دیکھنا گوارا نہیں کر سکتے، کے ساتھ
اس قدر بہیمانہ سلوک کیا جائے؟
اس خاتون کو اپنی ہی بستی میں کوئی بچانے والا بھی نصیب نہ ہو سکا۔ اس بستی
کے بزرگ اور چوپال کے سربراہ جو اس کی عزت کے محافظ تھے خود ہی لٹیرے بن
بیٹھے۔ نجانے اس کریہہ حرکت کے بعد کس طرح اپنی بیٹیوں کا سامنا کرتے ہوں
گے؟ اس بے چاری خاتون کو نہ تو روایات بچا سکیں نہ ہی مسلمان۔ مسجد کے پیش
امام نے اطمینان سے کہہ دیا کہ جناب میں مقامی نہیں ہوں اور میرے پاس تھانے
پولیس کا نمبر نہیں تھا لہٰذا میں پولیس کو اطلاع نہیں دے سکا۔ اور چونکہ
واقعے میں ملوث افراد کے پاس خطرناک اسلحہ تھا لہٰذا میں ان کو روک بھی نہ
پایا۔ نجانے منبر پہ بیٹھ کر فضائل جہاد، شہادت کی عظمت اور ایک مظلوم عورت
کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے مسلمانوں کی سندھ میں آمد کی کہانیاں کس منہ سے
سناتے ہوں گے؟
مجھے یہ بھی خیال آتا ہے کہ اپنی ماں کی عمر کی خاتون کے ساتھ یہ سلوک کر
نے کے بعد عافیہ صدیقی کے ساتھ ہونے والے مظالم پر آنسو بہاتے دیکھ کر
امریکن ہم پر کس طرح ہنستے ہوں گے؟ کل اگر پاکستانی سفیر ہمت کر کے امریکہ
سے عافیہ صدیقی کی بات شروع بھی کردے تو امریکی ایک ہی جملے میں یہ واقعہ
اس کے منہ پہ مار کے وہیں سے واپس بھیج دیں گے۔
اور پھر مجھے اپنے عظیم قومی ٫٫ رہنما ٫٫ بھی یاد آجاتے ہیں۔
پاکستان میں کئی سال سے جاری گو امریکہ گو تحریک چلانے والی اور عافیہ
صدیقی کی باعزت واپسی کے لیے نعرہ زن جماعت شاید بین الاقوامی مسایۛل میں
اس قدر الجھی ہوئی ہے کہ اسےعام پاکستانیوں کے مسائۛل کا پتہ ہی نہیں چل
پاتا۔ ویسے بھی وہ خاتون پاکستانیوں، مسلمانوں کے ہاتھوں ستم رسیدہ ہے۔ ظلم
تو جب ہوتا جب کفار، خصوصاً امریکن ایسا کرتے۔ پھر دیکھتے اس جماعت کی
پھرتیاں یعنی ملین مارچ۔
سرحد پختونخواہ میں اسلامی نظام کی سب سے بڑے دعویدار جماعت کے نزدیک یہ
واقعہ شاید اسلامی قوانین اور۷۳ کےآئین تناظر میں کوئی جرم ہی نہ بنتا ہو۔
لہٰذا اسلام آباد کی پرفضا وادی سے ہزارہ کے جنگلات کی جانب جا کر کیوں وقت
ضائع کیا جائے جبکہ یہی وقت یورپ کے حسین مقامات پر جاکے تبلیغ اسلام میں
بھی صرف کیا جا سکتا ہے۔
ہزارہ میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والی جماعت کے سربراہ، اصولوں کی
سیاست کے داعی، میثاقِ جمہوریت کے عاشق اور قوم کی زیادتی کی شکار ہر بیٹی
کے سر پہ ہاتھ رکھنے کے دعویدار کل کوٹلی میں ایک جلسہ کر آتے ہیں مگر ان
کے راستے میں شاید ہزارہ نہیں پڑتا۔
قوم کے سر پہ مسلط حکمران جماعت کا شکوہ کرنا ہی بے کار ہے کہ عوام یا
اسلام تو ان کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں ہے۔ اور رہی انتظامیہ اور پولیس،
یہ تو دودھ کے دھلے فرشتے ہیں۔ ان سے گفتگو کر کے دیکھ لیں۔ ہر بندہ فرض
شناس، ایماندار اور محبِ وطن ہی ملے گا مگر جرائم کے حوالے سے عملی اقدامات
کی بات مت کیجیے گا کہ پھر ان کی داستانِ غم طولِ شبِ فراق کی طرح دراز ہو
جائے گی۔
نجانے کس منہ سے ہم اپنے آپ کو عظیم قوم اور قلعہ اسلام کہنے دعوے کر پاتے
ہیں۔ قیام پاکستان کے وقت کفار کی بیٹیوں سے بد سلوکی کرتے کرتے اپنی
مسلمان بہنوں ہی سے وہ سلوک کرنا شروع کر دیا جس سے بچنے کے خاطر انہوں نے
ہجرت کی تھی۔ راستے میں کتنی ہی پاکدامن بیبیوں نے عزت کو جان پر ترجیح دی
مگر زندہ بچ جانے والی خواتین کے ساتھ اپنے ہی ملک کیا سلوک ہوا؟ مشرقی
پاکستان مسلمانوں نے ہی اپنے ہم وطن مسلمانوں کے ساتھ جو سلوک کیا اسے یاد
کر کے آج بھی شرم سے نظریں جھک جاتی ہیں۔ شیرِ پنجاب کا اپنے ہی صوبے کی
بیٹیوں کے ساتھ سلوک، نواب پور کی خواتین کے ساتھ انسانیت سوز ظلم،
بلوچستان میں ڈاکٹر شازیہ مری، پنجاب میں مختاراں مائی، خیبر پختونخواہ میں
حالیہ ظلم، کراچی میں ۸۰ کے اوائل میں نواب سسٹرز، سندھ میں عورتوں سے
روزمرہ زیادتیاں، تحریکِ پاکستان کے رہنما کی بیٹی، ایک مشہور فلم اسٹار
۔۔۔۔۔۔۔ میرے وطن میں کون محفوظ ہے؟
کیا عورتوں کو تحفظ دینا اسلام کے بنیادی اصولوں میں سے ایک نہیں؟
کیوں کر مذہبی جماعتیں شہروں میں ہر مسۛئلے پر دھرنا دے دیتی ہیں مگر اس
مسئلے پر گاؤں کا گھیراؤ نہیں کرتیں؟ حتیٰ کہ بیان تک جاری نہیں کرتیں۔
کیا عورتوں کا تحفظ صرف اس نااہل حکومت اور پولیس کی ہی ذمہ داری پر چھوڑ
دیں؟
کیوں پڑھے لکھے لوگ اس ظلم کو نہیں روک پاتے؟
کیوں کر ایک طرف شرحِ تعلیم بڑھتی جا رہی ہے اور دوسری طرف یہ مظالم بھی؟
کیوں کر ایک طرف مساجد بھرتی جا رہی ہیں اور دوسری طرف ان مظالم کے خلاف
جدوجہد کرنے والے کم ہوتے جارہے ہیں؟
سوال بہت ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جواب بھی بہت ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر شاید میں
سننا ہی نہیں چاہتا کیوں کہ اس میں ہم سب کے نام آجاتے ہیں۔ |