سینیٹ الیکشن کے پیچیدہ مراحل

تین مارچ کو سینیٹ الیکشن ہونے جارہے ہیں سینیٹ الیکشن پاکستان کی تاریخ میں ہمیشہ سے ہی پیچید ہ رہے ہیں اور سیاسی دانشور وں کی پیشگوئیاں سینیٹ الیکشن کے معاملے میں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں اور نتائج یکسر مختلف نکلتے ہیں۔پی ٹی آئی اور تمام اپوزیشن پارٹیز (حزب اختلاف پارٹیز) اپنے اپنے شہ سوار میدان میں اتار چکی ہیں اور صاف نظر آرہا ہے کہ تمام اپوزیشن جماعتیں حکومت کے خلاف کھڑی ہیں بلکہ اپوزیشن جماعتوں نے تو پی ڈی ایم اتحاد بنا رکھا ہے تو کیا پی ڈی ایم اپنے مشترقہ امیدوار میدان میں اتار سکتی ہے ؟ جبکہ ایسا کرنے سے اپوزیشن بماعتیں ذیادہ فائدہ حاصل کرسکتی ہیں اور ممکن ہے کہ جنرل نشستیں ان کے حصے میں آجائیں۔ساری گیم اعداد و شمار کی ہے جس نے اپنے ووٹوں کا فگر پورا کرلیا وہی کامیاب ہوگا۔اپوزیشن جماعت کی سینیٹ الیکشن میں ہمیشہ یہی کوشش ہوتی ہے کہ حکمران جماعت کے سینیٹرز کی تعداد میں اضافہ نہ ہو پائے اور بعض دفعہ تو اپنے مقاصد کی بجا آوری میں سیاسی رہنما ہارس ٹریڈنگ کرنے سے بھی باز نہیں آتے جبکہ یہ گھناؤنا عمل ہمارے جمہوری ملک کے ماتھے پر ایک بد نما داغ ہے جس کی بیخ کنی کرنا حکومت وقت کی ہی نہیں تمام سیاسی پارٹیز کی ذمہ داری ہے لیکن اپوزیشن جماعتیں ن لیگ اور پیپلز پارٹی ہارس ٹریڈنگ روکنے کے لیے قانون سازی کرنے کے عمل کی مخالفت کر رہی ہیں جب کہ ماضی میں یہی دونوں جماعتیں ہارس ٹریڈنگ روکنے کے لیے قانون سازی کے حق میں تھیں۔

سیاسی پارٹییز نے آج کل سینیٹ الیکشن کی طرف ہی توجہ مرکوز کر رکھی ہے کیونکہ سینٹ میں اپنے امیدواروں میں اضافہ کرنا ایسا ہی ہے جیسے اپنی طاقت اور ملک کے قانونی معاملات میں عمل دخل میں رسائی حاصل کرناہے یہ ایسا دلچسپ انتخاب ہوتا ہے گر حزب اختلاف اس میں کچھ مخصوص تعداد میں ہی اپنے سینٹیرز قومی اسمبلی میں اتارنے میں کامیاب ہوجائے تو اقتدار بالا کے لیے بہت بڑا سردرد ثابت ہوتی ہے کیونکہ پھر اقتدار میں موجود پارٹی کو کوئی بھی قانون یا پالیسی تیار کرنے کے لیے بڑی دھینگا مشتی سے کام لینا پڑتا ہے اور بعض دفعہ تو حزب اختلاف کی رضامندی کے بنا قانون یاپالیسی بنانا انتہائی کٹھن ہوجاتا ہے یعنی کے اقتدار میں آنے کے باوجود احکام بالا حزب اختلاف کی مرضی کے بنا اپنی مرضی کا قانون لاگو نہیں کرسکتے ۔

صوبائی اسمبلی اور اسلام آباد سے سینیٹ کی نشستوں کا انتخاب الگ الگ طریقے سے ہوتا ہے لیکن رائج طریقے کار یہی ہے صوبوں سے سینیٹرز کا انتخاب صوبائی اسمبلیز سے ہی ہوتا ہے لیکن اسلام آباد سے جو سینیٹرز منتخب ہوتے ہیں ان کا انتخاب پوری قومی اسمبلی کرتی ہے قومی اسمبلی میں سینیٹرز کی تعداد ایک سو چار (۱۰۴) تھی لیکن فاٹا کے خیبر پختونخواہ میں انضمام کے بعد آٹھ سینیٹر کم ہونے سے سینیٹرز کی تعداد چھیانوے(۹۶) ہو جائے گی اور اس دفعہ الیکشن میں اڑتالیس (۴۸) سینیٹرز منتخب کیے جائیں گے ۔سینیٹ الیکشن میں سندھ اسمبلی کے امیدوار کو سینیٹر بننے کے لیے چوبیس (۲۴) ووٹ لینے ہونگے اور خیبر پختونخوا اسمبلی سے امیدوار کو سینیٹر بننے کے لیے اٹھارہ (۱۸ ) ووٹ حاصل کرنے ہونگے اور اسی طرح بلوچستان اسمبلی سے سینیٹر بننے کے امیدوار کو نو (۹) ووٹ حاصل کرنے ہونگے۔

سینیٹرز کی مدت کا دورانیہ چھے سال ہے اور وفاقی قانون کے مطابق ہر تین سال بعد سینیٹرز کے الیکشن کروائے جاتے ہیں چونکہ نصف سینیٹرز دورانیہ پورا کرچکے ہوتے ہیں ان نشستوں کے لیے پارٹیز میں خفیہ طور پر جوڑ توڑ شروع ہوجاتا ہے سینیٹ الیکشن میں جو سب سے بڑا سقم پایا جاتا ہے وہ خفیہ رائے شماری ہے جس کی وجہ سے اسمبلی میں جوڑ توڑ کی سیاست پنپ رہی ہے اور بعض دفعہ تو ، اپنے ہی گراتے ہیں نشیمن پہ بجلیاں ، کے مصداق اپنی ہی پارٹی کے سینیٹرز بھی ہاتھ کرجاتے ہیں اور پیسوں یا کسی عہدے کے عوض اپنا ایمان بیچ کر ووٹ دوسری پارٹی کو دے دیتے ہیں اس ہارس ٹریڈنگ کی وجہ سے ہر پارٹی محتاط ہوتی ہے( مطلب جنھوں نے ہارس ٹریڈنگ کرنی ہے تو محتاط رہ کر کرنی ہے اور جنھوں نے نہیں کرنی وہ محتاط ہونگے کہ کوئی کر بھی نہ پائے) ۔ پی ٹی آئی کو پہلی دفعہ اقتدار منتقل ہوا ہے اور یہ پارٹی خفیہ رائے شماری کے حق میں ہی نہیں ہے،یہ بات منطقی بھی ہے اور ٹھیک بھی، ایسا ہی ہونا چاہیئے۔ ہارس ٹریڈنگ کو روکنا صرف حکمران جماعت کا ہی نہیں بلکہ اپوزیشن جماعتوں کا بھی کام ہے یہ فعل تو سب کے ساتھ ممکن ہے ۔ضروری نہیں ہے کہ ہارس ٹریڈنگ صرف حکمران جماعت کے خلاف ہی ہوسکتی ہے آخر حکمران جماعت میں بھی سیاستدان ہی بیٹھے ہیں کچھ بھی ممکن ہے کچھ بھی ہوسکتا ہے سب جماعتوں کو مل کر اس سطحی اقدام کی بیخ کنی کرنی ہوگی لیکن سابقہ اور حالیہ حالات کے تناظر میں راقم کو لگتا نہیں ہے کہ آئیندہ سینیٹ الیکشن میں ہارس ٹریڈنگ کی حوصلہ شکنی کی جائے۔

سننے میں آرہا ہے کہ الیکشن کمیشن نے سینیٹ الیکشن میں کرپشن روکنے کے لیے ایک نیا طریقے کار وضع کیا ہے جس کے مطابق پارٹی کے سربراہ ،امیدوار اور ووٹرز سے بیان حلفی لیا جائے گاجس کے مطابق پارٹی سربراہ یہ بیان حلفی جمع کرائے گا کہ اس نے امیدوار کو ٹکٹ دینے کے بدلے میں کوئی پیسہ نہیں لیا اور پھر ایسا ہی بیان حلفی سینیٹ کے امیدواروں سے بھی لیا جائے گاجبکہ اراکین اسمبلی بھی بطور ووٹر ایسا ہی بیان حلفی الیکشن کمیشن آف پاکستان کو جمع کروائیں گے۔


 

Ghulam Mustafa
About the Author: Ghulam Mustafa Read More Articles by Ghulam Mustafa: 12 Articles with 8324 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.