حالیہ دنوں چند مغربی ممالک نے سنکیانگ میں انسانی حقوق
کی خلاف ورزیوں کے الزامات عائد کرتے ہوئے متعدد چینی عہدیداروں پر
پابندیاں عائد کی ہیں۔چین نے ایسے بیانیے کو جھوٹ اور بد نیتی پر مبنی قرار
دیتے ہوئے مسترد کیا ہے اور جوابی اقدامات اپناتے ہوئے متعلقہ ممالک کے
اہلکاروں اور اداروں پر پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔چین کا موقف ہے کہ ایسے
عناصر نے جھوٹی معلومات کی تشہیر سے چین کی خود مختاری اور بنیادی مفادات
کو نقصان پہنچایا ہے اور یکطرفہ اقدامات اپناتے ہوئے چین پر بلا جواز
پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔حقائق کے تناظر میں مغربی ممالک کے ایسے رویےغیر
متوقع نہیں ہیں اور ماضی میں بھی متعدد ممالک کو مغرب کی جانب سے ایسی
یکطرفہ پابندیوں کا سامنا رہا ہے لیکن فرق صرف اتنا ہے کہ چین نے مضبوط
موقف اپناتے ہوئے جوابی پابندیاں عائد کی ہیں اور اپنے مفادات کے تحفظ کے
لیے جائز اور معقول قدم اٹھایا ہے۔ چین نے ایک ترقی پزیر ملک کی حیثیت سے
مغرب کے ایسے متکبر اورمتعصب ممالک کو واضح پیغام دیا ہے کہ انہیں جھوٹ کی
بنیاد پر دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت ترک کرنی چاہیے اور
تمام ممالک کی خودمختاری اور بنیادی مفادات کا احترام لازم ہے۔
مغرب کے چین مخالف رویے کوئی نئی بات نہیں ہے کیونکہ ایک طویل عرصے سے
مغربی ممالک کے سیاستدان اور میڈیا ادارے چین کے خلاف پروپیگنڈا مہم چلا
رہے ہیں اورسنکیانگ کے حوالے سے جعلی اور من گھڑت الزامات کی بنیاد پر چینی
عہدہ داروں پر پابندیاں عائد کرنا اسی سلسلے کی کڑی ہے۔سچائی تو یہ ہے کہ
حالیہ عرصے میں متعدد ممالک کےصحافیوں ، سفارت کاروں ، دانشوروں ، سیاست
دانوں ، قانون دانوں ، مسلم ممالک کے مذہبی اسکالرز ، سرکاری اور غیر
سرکاری عہدیداروں ، طلباء اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے سنکیانگ کے دورے
کیے ہیں اور انہوں نے سنکیانگ میں ترقی و خوشحالی اور استحکام کا اپنی
آنکھوں سے مشاہدہ کیا ہے۔ سنکیانگ کے مختلف نسلی گروہوں کے باشندے امن ،
سلامتی ، ترقی اور خوشحالی سے بھرپور لطف اندوز ہو رہے ہیں ۔سنکیانگ میں
اقتصادی سماجی ترقی سے انسانی حقوق کا جامع تحفظ کیا گیا ہے تاہم چند مغربی
ممالک سنکیانگ کی ترقی پر اپنی آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں اور محض جھوٹی
رپورٹس کی بنیاد پر چین کی مخالفت میں پیش پیش ہیں۔یہاں تک کہ انہوں نے
سیاق و سباق سے ہٹ کر چینی سرکاری دستاویزات اور اعداد و شمار کو مسخ کیا
ہے۔
یہ بات قابل زکر ہے کہ بیس عرب ریاستوں اور عرب لیگ کے چین میں تعینات
سفارتی اہلکاروں نے اکتوبر 2020 میں سنکیانگ کا دورہ کیا تھا۔ انہوں نے
اسلامی مراکز ،مساجد، مقامی کمپنیوں ،اسکولوں سمیت دیگر مقامات کے دورے کیے
اور عام افراد کے ساتھ بالمشافہ تبادلہ خیال کیا اور سنکیانگ میں معاشرتی
استحکام ، نسلی مساوات اور اتحاد کے ساتھ ساتھ لوگوں کے معاش اور معاشی
ترقی کے حوالے سے اپنائے جانے والے اقدامات کا خود مشاہدہ کیا۔ اسلامی
تعاون تنظیم کی وزرائے خارجہ کونسل نے 2019 میں ایک قرار داد منظور کی جس
میں چین کی جانب سے مسلم آبادی کی فلاح و بہبود کے لیے اٹھائے جانے والے
اقدامات کو سراہا گیا ہے۔ یہ بلاشبہ سنکیانگ کے حوالے سے چین کے مؤقف کی
توثیق اور چند مغربی ممالک کے منفی پروپیگنڈے کو مسترد کرنے کا اظہار ہے۔اس
قرارداد کی منظوری سے قبل او آئی سی کے جنرل سیکرٹریٹ کے ایک وفد نے
سنکیانگ کا دورہ بھی کیا تھا تاکہ زمینی حقائق کا مشاہدہ کیا جا سکے ۔
کونسل کی جانب سے اس دورے کے نتائج کا خیرمقدم کیا گیا تھا اور سنکیانگ میں
ویغوروں سمیت دیگر مسلمان شہریوں کی دیکھ بھال کے لیے چین کی کوششوں کی
تعریف کی گئی تھی۔
حقائق کے تناظر میں کچھ مغربی ممالک کے چند سیاست دان سچائی سے نظریں چرا
رہے ہیں ،انھیں سنکیانگ میں عوام کی ترقی و خوشحالی اور انسانی حقوق کے
شعبے میں حاصل شدہ کامیابیوں کی پرواہ نہیں ہے۔اُن کا واحد مقصد مختلف حیلے
بہانوں سے چین کے داخلی امور میں مداخلت ہے ، ایسے عناصر چین کی ترقی میں
رکاوٹ ڈالنے کے درپہ ہیں اورچین کے استحکام کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر
رہے ہیں۔ ایسے عناصر ایک خوشحال اور ترقی یافتہ چین ، یا چینی عوام کی بہتر
زندگی نہیں دیکھنا چاہتے ہیں۔اسی باعث اُنہوں نے چینی عوام کی ساکھ اور
وقار کو نقصان پہنچانے کی خاطر جھوٹ ، بہتان اور الزام تراشی کا سہارا لیا
اور چین کے قومی مفادات کو زک پہنچانے کی خاطر ہر قسم کے حربے اپنائے۔دوسری
جانب ایسے عناصر کو عالمی فورمز پر ناکامی ہوئی ہے اور ابھی حال ہی میں
جنیوا میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے حالیہ اجلاس میں متعدد
ممالک کے چین کی حمایت میں مشترکہ بیانات ،تحفظ انسانی حقوق میں چین کی
کامیابیوں کا مظہر ہیں ۔ ان ممالک نے چند مغربی عناصر کے بے بنیاد الزامات
کی مذمت کی ہے جس کا مقصد ترقی پذیر ممالک کی نمو کو روکنا ہے۔
مغربی ممالک کی چین کی کاٹن صنعت پر حالیہ پابندیاں یہ واضح کرتی ہیں کہ
انسانی حقوق تو محض ایک بہانہ ہے درپردہ مقاصد کچھ اور ہیں ۔آج ٹیکنالوجی
اور مشینری کے جدید دور میں جبری مشقت جیسی اصطلاح کی ویسے بھی کوئی گنجائش
نہیں ہے ۔ہاں مگر اتنا ضرور ہے کہ ایسے مغربی رویے سنکیانگ میں عوام کو
بےروزگاری کی جانب دھکیل سکتے ہیں۔مغربی ممالک کو چاہیے کہ چین کی ترقی کو
کھلے دل سے تسلیم کریں اور بالادست رویوں سے اجتناب کرتے ہوئے اشتراکی رویے
اپنائیں تاکہ ترقی کے ثمرات ترقی پزیر ممالک تک بھی پہنچ سکیں۔
|