ماسکو میں افغان امن کانفرنس

امریکہ، بھارت، آسٹریلیا اور جاپان پر مشتمل ممالک کے اتحادــ ’’کواڈ گروپ ‘‘کی تشکیل کے بعدامریکہ اور روس کے درمیان سرد جنگ میں شدت آرہی ہے ۔اس موقع پر روس کی میز بانی میں افغان امن کانفرنس ہو رہی ہے۔دوحہ قطر میں امریکہ اور طالبان کے مابین گزشتہ ماہ امن معاہدہ کے بعدماسکو میں 18 مارچ کو ہونے والی کانفرنس میں افغان حکومت اور طالبان کے وفودشرکت کر رہے ہیں۔روس کی دعوت پر امریکہ، چین اور پاکستان بھی اس میں شریک ہیں۔ کانفرنس کا مقصد افغانستان میں قیامِ امن کی کوششوں کو تیز کرنا ہے۔افغان حکومت کے وفد میں اعلیٰ مفاہمتی کونسل کے چیئرمین عبداﷲ عبداﷲ، سابق صدر حامد کرزئی اور اعلٰی مذاکرات کار معصوم ستنکزئی سمیت دیگر کئی افغان سیاسی رہنما شامل ہیں۔امریکی نمائیندے زلمے خلیل زاد کابل میں ان سب سے کئی روز تک بات چیت کرنے کے بعد ماسکو پہنچے۔اعلیٰ مفاہمتی کونسل نے یقین دہانی کرائی تھی کہ افغان وفد روس میں افغانستان میں قیامِ امن کے لیے ہونے والی 'ماسکو کانفرنس' میں شرکت کرے گا۔طالبان کا 10 رکنی وفد بھی ماسکو میں ہونے والی کانفرنس میں شریک ہے۔ جب کہ اس وفد کی قیادت طالبان کے اعلیٰ مذاکرات کار ملا عبد الغنی برادر کررہے ہیں۔ عبداﷲ عبداﷲ نے سوشل میڈیا پر جاری بیان میں کانفرنس کی کامیابی کی امید ظاہر کی اور کہا کہ کانفرنس میں طالبان کے وفد اور روس کے حکام سے بھی تبادلہ خیال ہو گا۔ کانفرنس کا مقصد دوحہ میں جاری بین الافغان مذاکرات میں پیش رفت، افغانستان میں تشدد میں کمی اور افغان تصفیے کے لیے راہیں تلاش کرنا ہے۔وہ ایسی راہوں اور طریقہ کار کو زیرِ بحث لانا چاہتے ہیں جس سے ایک خودمختار، پُر امن اور خؤد کفیل افغانستان کی راہ ہموار ہو جہاں دہشت گردی اور منشیات سے متعلق جرائم نہ ہوں۔ امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان زلمے خلیل زاد بین الافغان امن عمل میں پیش رفت کو تیز اور افغانستان میں مستقل جنگ بندی ، تنازع کے سیاسی تصفیے کی کوششوں میں مصروفیت کا تاثردے رہے ہیں۔تا ہم امریکہ افغان امن عمل میں تیزی لانے کے لیے ماسکو میں ہونے والی کانفرنس کو قطر میں طالبان اور افغان حکومت میں جاری مذاکرات کے متبادل نہیں سمجھتا۔جس کا اعلان امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان جالینا پورٹر نے ایک میڈیا بریفنگ میں بھی کیا۔

ماسکو میں ہونے والے کانفرنس میں افغانستان کے لیے پاکستان کے خصوصی نمائندے محمد صادق کی قیادت میں پاکستانی وفد شرکت کررہا ہے۔ماسکو کانفرنس میں شرکت سے پہلے گزشتہ ہفتے محمد صادق نے ایران کا دورہ کیا جہاں انہوں نے ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف سے ملاقات میں افغان امن عمل کے بارے میں تبادلہ خیال کیا اور افغانستان کے تنازع کے پرامن حل کے لیے دونوں ملکوں کے ممکنہ کردار کے بارے میں بھی تبادلہ خیال کیا ہے۔ گزشتہ ماہ روس کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان ضمیر کابلوف سے اسلام آباد میں ملاقات کے بعد وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ایک ٹوئٹ میں کہا تھا کہ پاکستان افغانستان میں سیاسی تصفیے کے چار ممالک کی کانفرنس کی حمایت کرتا ہے۔ماسکو میں افغانستان سے متعلق اجلاس ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب حال ہی میں امریکہ کے وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے افغان صدر اشرف غنی کو ایک خط لکھا تھا۔اس خط میں افغانستان میں قیام امن کے لیے اقوامِ متحدہ کی میزبانی میں بین الاقوامی کانفرس بلانے کے ساتھ ساتھ ترکی میں افغان حکومت اور طالبان کے نمائندوں کے درمیان اجلاس کی تجویز بھی دی گئی ہے۔ تاکہ افغان امن عمل میں تیزی لائی جا سکے۔ترکی نے اپریل میں استبول امن کانفرنس کی میزبانی کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔

افغانستان کے صدر اشرف غنی انتخابات کے انعقاد کے بغیر اپنے پیش رو کو اختیار منتقل کرنے پر تیار نہیں ہیں۔امریکہ نئے آئین کے تحت ہی انتخا بات چاہتا ہے۔طالبان عبوری حکومت کو مسلے کا حل نہیں سمجھتے۔ دوحہ کانفرنس میں افغانستان میں کسی عبوری حکومت کی تشکیل اور اس میں طالبان کو شامل کرنے کی بات کی گئی تھی۔ جب کہ مئی سے قبل افغانستان سے2500 امریکیوں سمیت دیگر غیر ملکی فورسز کے انخلاء کی ڈیڈ لائن دی گئی تھی۔ جس سے امریکی اب مکر گیا ہے۔ نومنتخب امریکی صدر جو بائیڈن کا بیان اس کی ہی ایک کڑی ہے۔ کابل میں منگل کو افغانستان کی خارجہ پالیسی کی ترجیحات اور اصلاحات سے متعلق ایک کانفرنس میں صدر اشرف غنی کا خطاب قابل ذکر ہے جس میں کہا گیا کہ خطے کے ممالک اور افغانستان کے پڑوسیوں کی معاونت کے بغیر افغانستان میں امن و استحکام ممکن نہیں ہے۔افغانستان میں قیامِ امن اور سیاسی تصیفے کے لیے امریکہ کے ساتھ ساتھ روس ایک ایسے وقت میں متحرک ہوا ہے جب فروری 2020 کو امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والے دوحہ معاہدے کے تحت افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کی یکم مئی ڈیڈ لائن سے بائیڈن دستبردار ہو گئے ہیں۔ہو سکتا ہے کہ ایک بار پھر طالبان پر الزام عائد کر دیا جائے کہ وہ تشدد میں کمی اور جنگ بندی پر تیار نہیں ہیں۔ماسکو کانفرنس کو بھی امریکی حمایت حاصل ہے مگر امریکہ اب افواج کے انخلاء کی ڈیڈ لائن میں الزامات کے تحت توسیع کر سکتا ہے۔مریکہ، بھارت، آسٹریلیا اور جاپان پر مشتمل ممالک کے اتحادــ ’’کواڈ گروپ ‘‘کی تشکیل کے بعدپاکستان نئے چیلنجز کا سامناکر سکتا ہے۔تا ہم یہ نادر موقع ہے کہ اسلام آبادداخلی طور مفاہمتی سیاست پر توجہ سفارتی حکمت عملی سے خطے میں اپنے مفاد میں اس طرح فضا تیار کرے تا کہ خطے کے ممالک ہی نہیں بلکہ امریکہ ، روس سمیت عالمی طاقتیں پاکستان کوصرف راہداری کے طور استعمال کرنے کے بجائے اسے امن اور معیشت کے لئے بھی اپنی ضرورت سمجھیں ۔جیسے کہ سابق سفیر اور امریکی جاج ٹاؤن یونیورسٹی سے وابستہ توقیر حسین کا کہنا ہے کہ پاکستان کو امریکہ اور چین دونوں کی ضرورت بننا ہو گا۔ اس طرح اسلام آباد اپنے مفادات کی پاسداری اور تنازعات کو اپنے اہداف کے مطابق حل کرانے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔


 

Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 555693 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More