اتر پردیش حکومت کے ایک اعلیٰ افسر پرشانت کمار نے اعلان
کیا کہ کچھ لوگ حکومت کو بدنام کررہے ہیں ۔ لوگ کورونا سے ہلاک ہورہے ہیں
ان کو اپنی بدنامی کی پڑی ہے۔وزیر اعلیٰ نے اعلان کیا آکسیجن کی کمی سے
متعلق افواہ پھیلانے والوں کے خلاف این ایس اے لگا کر ان کی جائیداد ضبط
کرلی جائے گی ۔ اتر پردیش میں نہ تو آکسیجن کی کمی نئی ہے اور نہ اس کی
قسم کی دھمکی پہلی بار دی جارہی ہے۔ کورونا کی وبا نہیں تھی اس وقت بھی
گورکھپور کے اسپتال میں بچوں کی موت آکسیجن کی کمی کے سبب ہوئی تھی ۔ اس
کو دور کرنے والے ڈاکٹر کفیل خان کو گرفتار کرلیا گیا تھا۔ سی اے اے کی
تربیک چلانے والے بلکہ کسان تحریک میں حصہ لینے والوں کی جائیداد ضبط کرنے
کی کوشش بھی کی گئی تھی ۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ گزشتہ سال جب وزیر اعظم
نے کورونا کو شکست دینے کی خاطر اچانک لاک ڈاون کا اعلان کرکے عوام کو شدید
مصائب کا شکار کردیا تو اس کو پہلے ہی دنپامال کرنے کا سہرا کسی اور کے
نہیں خود وزیر اعلیٰ یوگی ادیتیہ ناتھ کے سر تھا ۔ انہوں نے 25 کو مارچ کی
شب ایودھیا کے رام مندر احاطہ میں واقع ماناسا بھون میں رام للا کی مورتی
منتقل کرکے 11 لاکھ کا چیک دیا اور ہزاروں عقیدتمندوں کو وہاں جمع ہونے کی
بے روک ٹوک دعوت دی ۔ کمبھ تو اس کا اعادہ تھا۔
وزیر اعلیٰ کے دورے کے بعد ایودھیا میں جم غفیر کی ذرائع ابلاغ میں
آنےوالی تصاویر سرکار پر تنقید کاسبب بنی تو اس کو دبانے کی خاطر 2؍ اپریل
کو اترپردیش پولیس نے ’ دی وائر‘ کے مدیر اعلیٰ سدھارت ورداراجن کے خلاف دو
ایف آئی آر درج کی۔ اس میں یوگی آدتیہ ناتھ کے خلاف توہین آمیز تبصرہ کرنے
اوراپنے مضمون میں افواہ اور دشمنی پھیلانے کاکا بے بنیاد الزام لگایا گیا
تھا ۔ راجن کا ٹویٹ یہ تھا کہ ’جس دن تبلیغی جماعت کا اجلاس ہوا اسی دن
یوگی آدتیہ ناتھ نے اصرار کیا کہ 25 مارچ سے 2 اپریل تک رام نومی کے موقع
پر ایودھیا میں مجوزہ ایک بڑے میلے کا منصوبہ معمول کے مطابق آگے بڑھے گا
جب کہ آچاریہ پرمہنس نے کہا کہ بھگوان رام عقیدت مندوں کو کورونا وائرس سے
بچائیں گے۔‘‘دن رات دشمنی اور افواہ پھیلا کر اپنی سیاست چمکانے والوں کی
جانب سے یہ الزام مضحکہ خیز تھا ۔
تبلیغی جماعت کے خلاف دھرم یدھ کے دوران اس حقیقت بیانی کی تلخی کو ہندوتوا
نواز برداشت نہیں کرسکے ۔ اس کے آئینے میں اپنا بھیانک عکس دیکھ کر یہ لوگ
آگ بگولہ ہوگئے۔ ورداراجن کے ٹویٹ میں دو باتیں مل گئی تھیں جس کا فائدہ
سنگھ پریوار نے اٹھانے کی کوشش کی لیکن انہوں پرانا ٹویٹ ہٹانے یا معافی
مانگنے کے بجائے نئے ٹویٹ میں یہ وضاحت کردی ’’مجھے یہ واضح کرنا چاہیے کہ
یہ ہندوتوا کے عقیدت مند اور سرکاری مندر ٹرسٹ کے سربراہ آچاریہ پرمہنسکا
کہنا تھا کہ رام بھکتوں کو کورونا وائرس سے بچائیں گے، آدتیہ ناتھ کا نہیں،
حالاں کہ انھوں نے 25/3 کو لاک ڈاؤن کی مخالفت کرتے ہوئے ایک عوامی تقریب
کی اجازت دی اور خود بھی اس میں حصہ لیا۔‘‘ اس طرح وردا راجن یہ بتادیا کہ
ان کی آواز کو دھونس دھمکی سے دبایا نہیں جاسکتا اور وہ ڈرنے والوں میں سے
نہیں ہیں ۔ صحافی برادری اور مہذب سماج نےآزاد صحافت پر اس حملے کی خوب
مخالفت کی اور بالآخروسط مئی میں الہ باد ہائی کورٹ نے انہیں پیشگی ضمانت
بھی دے دی۔
23؍ مارچ کو 21؍دنوں کے لیے لگائی جانے والی تالہ بندی۷؍جون تک جاری رہی۔
اس کے بعد لاک ڈاون کےکھلنے کا عمل کا بتدریج شروع ہوا۔ دریں اثنا وزارت
داخلہ نے یکم اگست سے'اَن لاک 3‘ کے متعلق 29جولائی کو ہدایات جاری کیں اس
میں تمام سماجی، سیاسی، تفریحی، تعلیمی، ثقافتی اور مذہبی تقریبات اور بڑے
اجتماعات پر پابندی برقرار رکھی گئی تھی ۔ اس دوران ۵؍ اگست کو ایودھیا میں
رام مندر کے سنگ بنیاد کی تقریب کا اعلان ہوچکا تھا ۔ وزارت داخلہ کے افسر
سےجب اس بابت پوچھا گیا کہ سنگ بنیاد اس حکم سے مستثنیٰ کیوں ہے؟ تو وہ
خاموش رہا ۔ اس تقریب کے قبل معروف سماجی کارکن اور صحافی ساکیت گوکھلے نے
الہ آباد ہائی کورٹ میں ایک عرضی داخل کرکے کہا تھا کہ کورونا کے دور میں
اس طرح کے تقریب کا انعقاد ضابطوں کے خلاف ہے۔ گوکھلے نے اپنی دلیل میں یہ
بھی کہا تھا کہ جب مسلمانوں کواجتماعی طورپر عیدالاضحی ٰکی نماز اجازت نہیں
دی جارہی ہے تو پھر رام مندر کی تعمیر کے لیے سنگ بنیاد کا پروگرام کس طرح
منعقد کیا جارہاہے؟ حسبِ توقع الہ باد ہائی کورٹ نے اس عرضی کو مسترد کردیا
۔
بی جے پی کو بہار میں انتخاب جیتنا تھا اور وہ چاہتی تھی کہ رام مندر کو
بھنا کر نتیش کمار کے بغیر ریاست میں اقتدار پر قبضہ کرلیا جائے۔ اس لیے ۵؍
اگست کو وزیر اعظم مودی نے شنکر اچاریہ سوامی سوروپ آنند اس گھڑی کو ہندو
جیوتش شاستر کے مطابق شبھ نہیں بلکہ منحوس بتایا کہ جس میں مندر کا سنگ
بنیاد رکھا گیا تھا ۔ انہوں نے اس کی مخالفت میں یہاں تک کہہ دیا کہ
ایودھیا میں رام مندر نہیں بلکہ وشوہندو پریشد کا دفتر بن رہا ہے۔ اس تقریب
میں کوئی شنکر آچاریہ تو موجود نہیں تھا مگر آر ایس ایس کے سربراہ موہن
بھاگوت، اترپردیش کے وزیر اعلی یوگی ادیتیہ ناتھ، گورنر آنندی بین، یوگا
گرو بابا رام دیو اور آرٹ آف لیونگ کے بانی روی روی شنکرحاضر تھے۔ مودی کے
ذریعہ سنگ بنیاد رکھے جانے پر مختلف حلقوں اور بالخصوص سِویل سوسائٹی نے
ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ آئینی عہدے پر فائز فرد کاکسی مخصوص مذہب کی
تقریب میں حصہ لینا درست نہیں ہے۔ وزیر اعظم کا یہ قدم عہدے کی حلف برداری
کے وقت آئین اور قانون کا احترام کرنے کے عہد کیخلاف ورزی ہے لیکن نقار
خانے میں طوطی کی آواز کسی نے نہیں سنی۔
بی جے پی والے منصوبہ بند طور پرپانچ اگست کو غیر معمولی اہمیت کا دن بنانے
میں مصروف ہے ۔ ایک سال قبل اسی دن جموں کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کو ختم
کرکے وادی میں مکمل لاک ڈاؤن نافذ کیا گیا جسے کورونا نے ملک بھر میں پھیلا
دیا لیکن یہ لوگ اس سے عبرت نہیں پکڑ سکے ۔ اس فیصلے کے بعد کشمیری رہنماؤں
کو ان کے گھروں میں نظر بند کیا گیا اور پھر وزیر اعظم سمیت ملک کے سارے
رہنما اپنے گھروں میں دبک کر بیٹھنے پر مجبور ہوگئے۔ اس موقع پر مسلمانوں
کی نمائندہ تنظیم آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے اپنا احتجاج درج کراتے
ہوئے کہا کہ بابری مسجد کل بھی مسجد تھی، آج بھی مسجد ہے اور انشاء اللہ
آئندہ بھی مسجد رہے گی۔ مسجد میں مورتیاں رکھ دینے سے،پوجا پاٹ شروع کر
دینے سے یا ایک طویل عرصے تک نماز پر روک لگا دینے سے مسجد کی حیثیت ختم
نہیں ہو جاتی۔ مولانا ولی رحمانیؒ کا مزید کہنا تھا ”رام مندر کی تعمیر کے
حوالے سے ہندوتوا کی پوری تحریک ظلم، جبر، دھونس، دھاندلی، کذب اور افتراء
پر مبنی تھی۔ یہ سراسر ایک سیاسی تحریک تھی جس کا مذہب یا مذہبی تعلیمات سے
کوئی تعلق نہیں تھا۔"
کورونا کے ساتھ ابتدائی ۶ ماہ میں تو وزیر اعظم ٹیلی ویژن پر آکر لوگوں کو
اپنا بخار اتارتے رہے لیکن اس سے کوئی سیاسی فائدہ نہیں ہورہا تھا اس لیے
مزہ کیسے آتا؟ اس کے بعد بہار کا اعلان ہوا تو مودی جی لنگوٹ کس کےانتخابی
اکھاڑے میں کود گئے اور پھر تو جیسے کورونا کو بھول ہی گئے ۔ دنیا بھر میں
اس کی دوسری لہر آئی مگر یہ حکومت خواب غفلت میں پڑی رہی ۔ بہار کے بعد
حیدرآباد شہر کے انتخاب کو قومی سطح پر لڑا گیا ۔ اس کے بعد علاقائی
انتخابات کا دہانہ کھل گیا ۔ بہار کے بعد مرکزی حکومت کا حوصلہ بلند تھا اس
لیے چار صوبوں اور ایک یونین ٹریٹری میں الیکشن کا اعلان ہوا ۔ مغربی بنگال
میں الیکشن کا دورانیہ غیر معمولی طویل رکھا گیا تاکہ پرچار منتری کی اپنی
ہنر مندی کا خوب مظاہرہ کر سکیں ۔ اس دوران بی جے پی والوں نے جوش میں آکر
یہ اعلان بھی کردیا کہ وزیر اعظم کی قیادت میں ہم نے بغیر ویکسین کے کورونا
کو شکست دے دی ہے ۔ وہ جرثومہ تو گویا اسی کا انتظار کررہا تھا ۔ یہاں
اعلان ہوا اور وہاں اس نے ہلہ ّ بول دیا۔ یہ حملہ اتنا شدید تھا کہ سرکار
کو دن دہاڑے تارے نظر آنے لگے ۔
کورونا کے دوسرے شدید حملے میں تادمِ تحریر(26؍اپریل 2021) کو سرکاری اعداد
و شمار کے مطابقہندوستان میں یومیہ متاثرین کی تعداد 352991 ہے اور وبا سے
ایک دن میں 2812 مریض لقمۂ اجل بنے ہیں ۔ اس کے ساتھ ہی ملک میں اب فعال
کیسز کی تعداد 28 لاکھ 13ہزار658 ہو گئی ہے۔ اس سے زیادہ تشویشناک بات یہ
ہے کہ آئی آئی ٹی کانپور اور حیدرآباد کے سائنسدانوں نے مئی کے وسط تک زیر
علاج اور قرنطینہ معاملوں کی تعداد میں زائد از 10 لاکھ تک کا اضافہ کا
امکان ظاہر کیا ہے ۔ گزشتہ ہفتہ محققین نے وبا کے 11 سے 15 مئی کے درمیان
عروج پر پہنچنے کی پیشن کوئی کی تھی اور یہ بھی کہا تھا فعال معاملوں کی
تعداد 33-35 لاکھ تک جا سکتی ہے۔ اب اس میں تبدیلی کی گئی ہے اور کہا جارہا
ہے عروج پر پہنچنے کے بعد ملک میں جملہ 38-48 لاکھ فعال معاملے ہوں گے ہر
دن 3.4 سے 4.4 لاکھ مریضوں کا اضافہ ہوگا ۔
ایک طرف بیماری کی یہ شدت ہے دوسری جانب اس کا مقابلہ کرنے کے لیے کل تک
دوائی برآمد کرنے والے وزیر اعظم کے پاس انجکشن تو دور آکسیجن بھی نہیں
ہے۔ وزیر اعظم کی ناک کے نیچے چار دن قبل سر گنگا رام اسپتال مںک 25 مریضوں
کی موت آکسیجن کی کمی کے سبب ہو گئی نیز 60 سب سے زیادہلوگوں کی زندگی
خطرے میںتھی کیونکہ صرف دو گھنٹے کی آکسیجن موجود تھا ۔ اگر راجدھانی دہلی
میں یہ حالت ہے تو دیگر چھوٹے شہروں لوٹ مار نہیں ہوگی تو کیا ہوگا؟ تعجب
کی بات ہے فی الحال سعودی عرب سے ۸۰ ٹن مائع آکسیجن درآمد کی جارہی ہے۔
دیگر ممالک سے بھی درآمد کے لیےٹینڈر منگوائے گئے ہیں لیکن اتر پردیش کے
وزیر اعلیٰ فرماتے ہیں ان کے یہاں آکسیجن کی کوئی کمی نہیں ہے۔ یہ اس ملک
کا کوئی صوبہ ہے جادو نگری ہے؟ اور اس کا سربراہ ایک انسان ہے یا کوئی اور
ہی مخلوق ہے؟ یہ اپنی عوام ہمدرد و بہی خواہ ہے یا کوئی جلاد ہے جو اپنی
جان پر کھیل کر حقیقت نگاری کرنے والے نامہ نگاروں کو ڈرا دھمکا رہا ہے؟
یوگی جیسے حکمرانوں کی بابت عبدالرشید قمر نے کیا خوب کہا ہے؎
ظلم و ستم کا جبر کا انجام کیا ہوا
تھا نامور تو خوب مگر نام کیا ہوا
یہ پوچھتی ہے وقت کی دیمک بتا ذرا
جمشید تو کہاں ہے ترا جام کیا ہوا
|