بدر الحسن معلم ۔ جس نے درویشی میں بادشاہی کی -۲

اس وقت کی ابتدائی سرگرمیوں میں سابق مدیر تعمیر حیات لکھنو اور شعلہ جوالہ مولانا اسحاق جلیس ندوی مرحوم کی آمد پر ۸۷۹۱ءبھٹکل میں پیام انسانیت کے اولین اور عظیم الشان جلسہ کا ماری کاٹے کے کھیت میں انعقاد آتا ہے ، اس اجلاس میں فاضل خطیب نے کنڑی،ہندی ،سنسکرت ،مراٹھی اور کوکنی زبان سے مرکب زبان میں خطابت سے جو سماں باندھا تھا ، ایسا سما ں دوبارہ نظر نہیں آیا، ہندومسلم عیسائی اور بھٹکل میں بسنے والی جملہ برادریاں اس خطاب سے یکساں طور پربغیر کسی مترجم کے سہارے کے لطف اندوز ہوئیں اور پیام انسانیت کے پیغام کو لے کے مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی رحمة اللہ علیہ کی بھٹکل آمد کا انتظار کرنے لگیں۔ کوئی چار ماہ بعد حضرت مولانا کی آمد پر انجمن گراؤنڈ میں پیام انسانیت کا دوسرا اجلاس ہوا یہ بھی اپنی نوعیت کا منفرد عظیم الشان اجلاس تھا ، اس اجلاس میں انجمن کے ایک مشہور استاد پنڈٹ ماسٹر (اچاریہ جی) نے حضرت مولانا کے خطاب کا کنڑی زبان میں ترجمہ پیش کیا تھا، غیر مسلم برادری کے اعلی ذمہ داران کی ایسی نمائندگی بھٹکل کے پھر کسی اجلاس میں نظر نہیں آئی ، اس کی کامیابی میں بھی آپ کا بھرپور حصہ رہا۔

چند ہی دن بعد کولا محی الدین کوچو باپا کے بعد وہ مجلس اصلاح و تنظیم کی جنرل سکریٹری منتخب ہوگئے اور تیس سال تک اس کے عہدوں پر فائز رہ کر اس ادارے کی مرکزیت کی تقویت اور اس سے وابستہ قوم کی امنگوں کو پورا کرنے کے لئے اپنا جملہ صلاحیتیں اور زندگی کے لمحات قربان کرتے رہے ۔یہاں تک تنظیم کی پہچان اور ، بھٹکل اور باہر وہ اس ادارے کی علامت بن گئے ۔یہاں تک کہ اطراف و اکناف اور غیرمسلموں میں ان کے آنے کو تنظیم کے آنے سے تعبیر کیا جانے لگا۔

اب بھٹکل میں شایدیہ بات بتانے والے لوگ نہیں رہے کہ آزادی ہند کے بعد مسلمانان ہند کے عظیم قائد ہوا کرتے تھے مجاہد ملت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی ؒ ، جمعیة علمائے ہند کے ناظم کی حیثیت سے تحریک آزادی کے دوران خدمات انجام دی تھیں، تقسیم ہند کے بعد جب مسلمانان ہند پر مایوسی کے بادل منڈلانے لگے تو آپ اور مولانا ابوالکلام آزاد ؒ دو ایسی شخصیتیں تھی جنہوں نے انہیں سنبھالا دینے میں اہم کردار ادا کیا ، آنجہانی وزیر اعظم جواہر لال نہرو کے پاس ان کا بڑا وزن تھا ،۷۵۹۱ءکے آس پاس الحاج محی الدین منیری ؒ کی دعوت پر آپ بھٹکل تشریف لائے تھے ، ان کے ساتھ جمعیة علمائے ہند ہبلی شاخ کے صدر مولانا ریاض احمد فیض آبادی ؒ بھی جمعیة کی بھٹکل میں شاخ کھلوانے ممبری رسید بک لے کر آئے تھے ، منیری صاحب نے جب مولانا سیوہاروی سے تنظیم کا تعارف کیا اور بھٹکل میں اس کے کردار اور اتحاد ملت کے میدان میں اس کی کاوشوں کے بارے میں بتایا تو آپ نے مولانا ریاض صاحب کو یہاں پر ممبر سازی مہم سے یہ کہہ کر روک دیا کہ یہاں پر مجلس اصلاح و تنظیم کی موجودگی میں کسی دوسری تنظیم اورتحریک کی ضرورت نہیں ہے۔ تنظیم جمعیة کے مقاصد کو بہ اتم پورا کررہی ہے ۔ یہاں پر یہی جمعیة کی بھی نمائندہ بنے گی۔ بد رالحسن معلم کو تنظیم کے فرض منصبی اور بھٹکل و اطراف میں اس کی مرکزیت اور اس کے مضبوط ہونے سے امت مسلمہ کی حیثیت کو جس طرح تقویت مل سکتی ہے اس کا بھرپور احساس تھا ، اور اسی مقصد کو انہوں نے اپنی زندگی کو اولین ہدف بنایا اور اسی جد وجہد میں اپنی جان جان آفریں کے سپرد کردی۔

جہاں تک تنظیم کا تعلق ہے آپ کے سامنے خصوصیت کے ساتھ ۴۶۹۱ءکا وہ دور بھی تھا ، جب کہ جناب شمس الدین جوکوکا صاحب کی رحلت کے بعد بھٹکل اور اطراف کے مسلمان اپنے ایک عظیم قائد سے محروم ہوکر سیاسی یتیمی کو شدت سے محسوس کررہے تھے۔ چاروں طرف ایک مایوسی کا عالم تھا، ایسے میں جناب عبد القادر حافظکا صاحب کی دعوت پر دریائے شراوتی سے دریائے گنگاولی کے درمیان بسنے والے مسلمانوں کی ایک عظیم کانفرنس ۴۶۹۱ءمیں بلائی گئی تھی ، اس کانفرنس کے کنونیر شاءالحمید رکن الدین حلوائی صاحب اور معاون جواں سال بدر الحسن معلم تھے ، اس کانفرنس میں جہاں برادران قوم کی فلاح و بہبود کے لئے بہترین تجاویز منظور کی گئی تھیں ، وہیں حافظکا صاحب نے قوم کو تجویز دی تھی فرد کے بجائے تنظیم کو اجتماعی قیادت دی جائے اور اس کے اجتماعی فیصلوں کے سامنے پور ی قوم سر تسلیم ختم کرے ، اس کانفرنس سے مندوبین بڑے حوصلوں اور امید کے ساتھ نکلے تھے ، انہیں امید تھی کہ عبد القادر حافظکا صاحب کی شکل میں قوم کے عظیم ترین سیاسی قائد اور اسٹیسٹسمین کی رہنمائی اسے دوبارہ حاصل ہوگی ، جنہوں نے ۵۴۹۱ءکے الیکشن کے موقعہ پر تنظیم کے فیصلے کے نفاذ میں ناکامی اور سرمایہ دارانہ سیاست کی طاقت کے سامنے ہارنے کے بعد جس طرح دریا سامنے چٹان آنے پر اس سے اپنا سر نہیں پھوڑتا بلکہ بہنے کے لئے دوسری راہ بنا لیتا ہے آپ نے بمبئی کو اپنی خدمات کی آماجگاہ بنادیا تھا ۔ وہ تحریک آزادی کے موقعہ پر مالابار ہل کے پاس گاندھی جناح کے درمیان ہونے والی اہم میٹنگوں کے موقعوں پر ممبئی مسلم لیگ کے جنرل سکریٹری رہے، آزادی کے بعد متحدہ کانگریس میں یس کے پاٹل ، نجلنگپا ، اچاریہ کرپلانی اور مرارجی دیسائی جیسے قد آور نیتاوں کی موجودگی میں ممبئی پردیش کانگریس کے صدر بنے ، وہ ممبئی ڈوکیارڈ کے بھی سربراہ رہے، آپ نے یہودی قبضہ کے بعد بیت المقدس میں آگ لگائے جانے کے سانحہ پر بھنڈی بازار سے مہالکشمی تک جاری ممبئی کی تاریخ کے سب سے عظیم الشان جلوس کی قیادت کی ، جس کے بعد آپ نے مسلمانان ہند کو متحدہ پلیٹ فارم پر لانے کے لئے سنہ ۲۷۹۱ءممبئی میں عظیم کل ہند کنوینشن منعقد کیا جس میں آل انڈیا مسلم پرسنل بورڈ کی بنیاد پڑی ، ایمرجنسی کے بعد بننے والی جنتا پارٹی دور حکومت میںوزیر اعظم مرارجی دیسائی کی جانب سے صدارت ہند کے عہدے کے زیر غور ناموں میں آپ کا بھی نام سامنے آیا ، جو ارض مقدس میں حکومت ہند کے سفارت کے عہدے پر منتج ہوا۔بدر الحسن معلم کو مرتے دم تک اس بات کا رنج رہا کہ حافظکا صاحب تعمیری کانفرنس کے بعد اپنے ٹھکانے پر ممبئی واپس چلے گئے اور وہاں سے مسلسل تنظیم کو خطوط لکھ کر تنظیم کو متوجہ کرتے رہے اور رفتار کار کے بارے میں استفسار کرتے رہے ، جب چھ ماہ کے بعد وہ بھٹکل لوٹے اور تنظیم کے اجلاس میں حاضر ہوکر اپنے خطوط کے بارے میں استفسار کیا تو ان کے رنج و حیرت کی انتہاءنہ رہی جب اس دور کے سکریٹر ی صاحب نے موصولہ خطوط کا بند بنڈل نکالا ، جنہیں اس وقت تک کھولنے کی بھی زحمت گوارا نہیں کی گئی تھی وہ تمام خطوط سیل بند تھے ۔اس کے بعد جو انہیں مایوسی ہوئی تو پھر بھٹکل آئندہ دنوں میں اس عظیم لیڈر کے تجربات اور توجہات سے محروم ہوگیا ۔ جو کہ جوکاکو کی موت کے بعد رونما ہونے والا سب سے بڑا المیہ تھا۔بدر الحسن معلم کے ذہن میں ہمیشہ یہ بات رہی کہ افراد آتے جاتے ہیں ، ادارے باقی رہتے ہیں ، حافظکا صاحب نے ۴۶۹۱ءمیں اجتماعی قیادت کا جو خواب دیکھا تھا اسے شرمندہ تعبیر ہونا چاہئے ،اس ہدف کی حصولیابی کے لئے انہوں نے اپنا سب کچھ نچھاور کردیا ۔

۴۶۹۱ءکے بعد تنظیم جمود کا شکار ہوئی ، بعض ذمہ داران کی مالی بے ضابطگیوں کی افواہ نے انتشار کی کیفیت پیدا کی ، جس کو دور کرنے کے لئے الحاج محی الدین منیری مرحوم کو ایڈمنیسٹریٹر مقرر کیا گیا جنہوں نے حسابات کی تفصیلی رپورٹ پیش کی اور انتظامیہ کے الیکشن کروائے اور تنظیم کو اس سر نو پٹر ی پر ڈال دیا ،جس کے بعد تنظیم نے یس یم یحیی صاحب کے الیکشن وغیرہ کے موقعوں پر اپنا کردار وقتی طور پر خوب نبھایا ، لیکن اس میں شک نہیں کہ بدر الحسن معلم کی قیادت میں اس ادارے کی جڑیں عامة الناس میں بہت مضبوط ہوئیں ۔اس کے لئے آپ نے کئی اہم اقدامات کئے ،۹۷۹۱ءمیں معاشرتی حالات اور تبدیلیوں کو دیکھتے ہوئے تنظیم کے دستور کی از سر نو تشکیل کی ، تنظیم کی قراردادوں کو تقویت پہنچانے کے لئے مجلس انتظامیہ کے علاوہ ایک علیحدہ مجلس مشاورت بھی تشکیل دی جس میں مجلس انتظامیہ کے باہر سے تمام مرکزی جماعتوں کے صدور او ر سکریٹری صاحبان، قوم کے فعال متحرک اور دانشور افراد اور میونسپل کونسلر شامل تھے ۔ آپ نے بھٹکل سے باہر قائم تمام جماعتوں سے روابط قائم کئے ،ان کے بھٹکلی معاشرے کی تعمیر وترقی میں اہم کردار کی ادائیگی کے لئے کوشاں رہے ، ۴۶۹۱ءسے ابتک منعقد ہونے جملہ بین الجماعتی کانفرنسوں میں آپ کا کلیدی کردار رہا۔

آپ کی وفات کے بعد جو تاثرات سامنے آئے اس سے یہ احساس شدت سے سامنے آیا کہ کینرا کے مسلمانوں کے مختلف طبقات کو مربوط کرنے ان میں آپسی افہام و تفہیم کا ماحول تیار کرنے کے تعلق سے آپ اہم ترین کڑی تھے ، آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ کے بھٹکل اجلاس کے موقعہ آپ کے اطراف و اکناف میں اثر کی وسعت کا احساس ہو ا ، جب آپ نے کینرا کے مسلمانوں کے جملہ طبقات کی جامعہ آباد کے اجلاس اصلاح معاشرہ میں گاؤں گاؤں اور دیہات گھوم کر نمائندگی کروائی ،اس دوران ایسے ایسے علاقوں سے گذر ہوا شاید اس سے قبل کسی بھٹکلی مسلمان کو اس کے بارے میں معلوم بھی نہ تھا، اس دوران دور دراز علاقوں میں ساتھیوں نے جو آپ کی پذیرائی دیکھی اس سے آنکھیں دنگ رہ گئیں۔بد ر الحسن معلم نے تعصبات سے بلند ہوکر ہر مسلمان کی مدد کی اور وحدت امت کے لئے جان توڑ کوشش کی ،آپ کے تعلقات اور روابط کو دیکھ اندازہ ہوتا ہے کہ گراس روٹ لیول پر اس ٹکر کا دوسرا قائد سرزمین بھٹکل نے دیکھا ، اس لحاظ سے بھٹکل اور کینرا کے مسلمانوں کا جو نقصان ہوا ہے اس کی تلافی ہوتی نظر نہیں آتی ، اس کردار کی بھٹکل کے مسلمانوں کو آج کے دور میں سب سے زیادہ ضرورت ہے۔
Abdul Mateen Muniri
About the Author: Abdul Mateen Muniri Read More Articles by Abdul Mateen Muniri: 18 Articles with 20208 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.