ہمارے گاؤں کا ماحول بہت اچھا ہے ۔ یہاں لوگ بہت پیار اور
محبت سے رہتے ہیں ۔ میں شہر میں جاکر اپنے گاؤں کی سب سے زیادہ جو چیز مس
کرتا ہوں وہ چوپال ہے ۔ ہمارے گاؤں میں آج بھی ستھ بچھایا جاتا ہے گاؤں کے
بزرگ وہاں بیٹھ کر حقہ پیتے ہیں اور خوب گپ شپ کرتے ہیں ۔ لیکن حیرت کی بات
یہ ہے کہ اس چوپال میں نوجوان بھی موجود ہوتے ہیں ۔ وہ نوجوان جو تاریخ
سیاست سفرنامے یا بزرگوں کی حکایات سننے کا شوق رکھتے ہوں ۔ یہ بزرگ مجھے
کسی یونیورسٹی کے ریٹائر پروفیسرز لگتے ہیں لیکن حقیقت میں یہ سب انڈر
میٹرک ہیں ۔ میں اس چوپال کو ایک یونیورسٹی کا درجہ دیتا ہوں مجھے اگر وقت
میسر ہو تو میں ضرور یہاں حاضر ہوتا ہوں اور دانائی کے موتی چنتا ہوں
یہاں روزانہ ایک موضوع پر بحث کی جاتی ہے اس کے بارے میں تمام لوگ اپنے
اپنے تجربات اور معلومات دوسروں تک پہنچاتے ہیں ۔
آج کی اس نشست کا موضوع ہے ""یوم تکبیر""
ایک بابا جی نے حقے کا چلم لیا اور پائپ کو آگے بڑھاتے ہوئے آج کی اس نشست
کا آغاز کیا ۔ یہ بات ہے 1998 کی ۔بھارت میں جب بی جے پی برسر اقتدار آئی
تو اس نے پاکستان سے چھیڑ چھاڑ شروع کر دی ۔ بی جے پی وہی جماعت تھی جس نے
چند سال قبل بابری مسجد پر حملہ بھی کیا تھا ۔ یعنی بی جے پی مسلمانوں اور
پاکستان کے لئے کافی جارحانہ سوچ رکھتی تھی ۔
بھارت نے دو میزائل بنائے ۔ ان میں پہلا میزائل پریتھوی جس کی رینج 350km
اور اگنی۲ اسکی رینج 2000km تھی جبکہ پاکستان کے پاس صرف M-11 موجود تھا جس
کی رینج 300Km تھی ۔ یعنی اگر مجموعی طور پر دیکھا جاتا تو بھارت دفاعی و
جنگی ہتھیاروں کے حساب سے پاکستان سے کافی آگے تھا ۔اسی دوران پاکستان نے
غوری میزائل کا کامیاب تجربہ کیا جسکی رینج 1500Km تھی اب بھارت کے بہت
سارے شہر پاکستان کے نشانے پر تھے اور یہ میزائل بھی ایسا تھا جو اپنے
سامنے آنیوالی کسی بھی میزائل شکن طاقت کو ناکارہ بنا سکتا تھا۔
یہ سن کر بھارت آگ بھگولہ ہو گیا ۔ ہتھیاروں کے اس ترازو میں پاکستان کا
پلڑا بھاری ہو گیا تھا ۔ اس پلڑے کو بھارت کی طرف جھکانے کے لئے بھارت نے
ایٹمی دھماکے کرنے کا فیصلہ کیا ۔
بابا جی کے حقہ پینے کی باری آچکی تھی سو انھوں نے پائپ پکڑا اور دوسرے
بابا جی کہانی سنانے لگے ۔
یہ خبر جب پاکستان پہنچی تو متحدہ عرب امارات کے سفارتخانے میں ایک تقریب
ہو رہی تھی جس میں چیف آف آرمی اسٹاف جنرل جہانگیر کرامت اور ڈاکٹر
عبدالقدیر خان بھی شامل تھے ۔ جبکہ پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف قازقستان
کے دورے پر تھے انھیں بذریعہ ٹیلیفون مطلع کیا گیا ۔ چیف آف آرمی سٹاف نے
ڈاکٹر قدیر خان سے کہا کہ ان ایٹمی دھماکوں کا جواب دیا جائے ۔
ڈاکٹر قدیر خان نے کہا کہ ہم پوری طرح تیار ہیں ۔
بھارت نے اپنی طرف سے دھماکے کر دیے پاکستان دھماکے کرنے کی تیاری کر رہا
تھا لیکن مسئلہ کہیں اور تھا۔
اب باری ان بزرگوں کی تھی جو انٹرنیشنل ریلیشن کے ماہر مانے جاتے ہیں ۔
انہوں نے ایک چلم حقے کا لیا اور تازہ دم ہو کر بولے مسئلہ یہ تھا کہ
امریکہ سمیت پورا یورپ دنیا کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک کرنے کے تحریک چلا
رہا تھا۔جب انڈیا نے دھماکے کیے آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ نے اپنے سفیر واپس
بلا لیے ڈنمارک نے بھارت کی امداد بند کر دی ۔ روس اور چین نے بھی اظہار
تشویش کیا ۔جبکہ امریکہ نے بھی بھارت پر پابندیوں کا اعلان کر دیا ۔ جاپان
جو کہ ایٹمی دھماکے خود سہہ چکا تھا اس نے بھی اسکی مذمت کی ۔
چونکہ بھارت میں امریکہ نے کافی سرمایہ کاری کر رکھی تھی اسکو ضائع ہونے سے
بچانے کے لئے امریکہ بھارت پر زیادہ دیر پابندیاں نہ رکھ سکا اور پابندیاں
دم توڑ گئیں ۔اسی غرور اور تکبر کی وجہ سے بھارت نے دو اور ایٹمی دھماکے کر
دیے ۔
بھارت اتنا غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کر رہا تھا کہ بارڈر پر فوج لگا کر جنگ
کی دھمکیاں دینے لگا ۔ پاکستان نے بھی بارڈر پر فوج لگا دی ۔ اب یہ سارا
بوجھ صرف ایک شخص کے کاندھوں پر تھا اور وہ تھے پاکستانی وزیراعظم میاں
محمد نواز شریف
انکو یہ نہیں سمجھ آ رہی تھی کہ کرنا کیا ہے؟
یہی بتانے کے لئے امریکی صدر بل کلنٹن نے فون کیا اور کہا کہ اگر پاکستان
نے ایٹمی دھماکے کیے تو اسے عراق جیسی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔
امریکہ چونکہ ہمارا معاشی پارٹنر تھا ۔ امریکہ نے دھماکے نہ کرنے کے بدلے
پاکستان کو F-16 طیارے اور نقدی امداد دینے کا لالچ بھی دیا لیکن میاں صاحب
نے نہ کہہ دیا ۔
پھر امریکی صدر نے ایک وفد اس لئے پاکستان بھیجا کہ پاکستان کی سول اور
فوجی قیادت کو دھماکے نہ کرنے پر آمادہ کرے لیکن وہ وفد بھی ناکام لوٹا ۔
امریکی صدر اور برطانوی وزیراعظم نے آخری دفعہ جب فون کر کے نواز شریف کو
منع کیا تو میاں صاحب نے معصومانہ انداز میں کہا کہ وعدہ نہیں کر سکتا
جب امریکہ اور بھارت نے دباو اور لالچ کا ٹیسٹر لگا کر دیکھ لیا اور
پاکستان نہ مانا تو ان دونوں ممالک نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں یہ
قرار داد منظور کروانے کا فیصلہ کیا کہ آج کے بعد جو ملک بھی ایٹمی دھماکے
کرے گا اس پر عراق جیسی پابندیاں لگا دی جائینگی ۔
یہ وہ وقت تھا جب روس اور امریکہ دونوں بھارت کے ساتھ شانہ بشانہ چل رہے
تھے ۔ بھارت نے آو دیکھا نہ تاؤ اور چین کو بھی دھمکانا شروع کر دیا ۔
چین سی مطالبہ کیا کہ. 1972 کے ہمارے مقبوضہ علاقے واپس کرے ۔ چین نے تمام
دنیا کو خبردار کیا کہ اگر ایٹمی دھماکوں کے حوالے سے کوئی قرارداد پیش
ہوئی تو چین ویٹو کرے گا ۔ بھارت کی بیوقوفی کی وجہ سے یہ قرارداد پیش ہوتے
ہوتے رہ گئی ۔
یہ تو تھا سارا بیرونی دباؤ اب آئیے دیکھتے ہیں اندرونی دباو کیا تھا ؟
بابا جی نے حقہ کا پائپ آگے بڑھاتے ہوئے کہا
پاکستان تحریک انصاف کے چئرمین عمران خان کہہ رہے تھے کہ روکھی سوکھی
کھائیں گے ایٹم بم بنائیں گے ۔ادھر قاضی حسین نے بھی 30 مئی کا الٹی میٹم
دے دیا ۔ اپوزیشن لیڈر محترمہ بینظیر بھٹو نے بھی موقعہ کا پورا پورا فائدہ
اٹھایا اور ایٹمی دھماکے کرنے کا مطالبہ کر دیا ۔
حتی کہ راولپنڈی میں بچوں نے جلوس نکالا جس میں انھوں نے کہا ہمیں فیڈر
نہیں بلکہ نیوکلئیر بلاسٹ چاہئے ۔
پاکستان جہاں پر ایٹمی دھماکے کرنے کی تیاری کر رہا تھا وہیں پر اس نے
عالمی دنیا سے مطالبہ کیا کہ اگر بھارت اپنے جوہری ہتھیاروں کو تلف کر دے
تو پاکستان عالمی پابندیوں کے بارے میں سوچ سکتا ہے ۔ لیکن ایسا ہونا نا
ممکن تھا۔
آخر کار پاکستان نے 20 سال سے انتخاب شدہ مقام چاغی پر دھماکے کرنے کا
فیصلہ کیا ۔ اس جگہ کے انتخاب کی دو بڑی وجوہات تھیں
نمبر۱ یہاں پانی کم ہونے کے باعث آبادی کم تھی۔
نمبر۲ چاغی کا جغرافیہ اتنا مشکل تھا کہ امریکی سیٹلائٹ کے علاوہ کوئی
جاسوسی نہیں کر سکتا تھا۔
چاغی کا 100 کلومیٹر کا علاقہ پاک فوج نے خالی کروا لیا بھارت کے کئی شہروں
کو میزائلوں کے نشانوں پر رکھ کے پاکستانی ٹائم کے مطابق دوپہر 3 بجکر 16
منٹس پر 5 ایٹمی دھماکے کیے گئے اور چاغی۱ مکمل ہوا بعد میں ایک اور دھماکا
ہوا اور چاغی۲ مکمل ہوا ۔ چھ دھماکے کرنے کے بعد پاکستان دنیا کا ساتواں
اور اسلامی دنیا کا پہلا ایٹمی ملک بن گیا ۔
ہر طرف خوشی کا سماں تھا۔ مساجد میں اعلان ہونے لگے اخبارات اور نیوز چینلز
خبر نشر کرنے لگے لوگ گھروں چوراہوں اور مساجد میں ختم کا اہتمام کرنے لگے
۔ یہاں تک کہ مٹھائی کی دوکانیں تک خالی ہو گئیں ۔
کہانی کافی لمبی ہو چکی تھی ۔ رات بھی کافی ڈھل چکی تھی ۔ ہم نے بھے بزرگوں
کے ساتھ نعرہ تکبیر "اللہ اکبر " بلند کیا اور گھروں کو چل دیے
کالم نگار :ابوبکر سیدزادہ
|