علّامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ ۔۔۔۔۔،
میں ان کی شان میں الفاظ کہاں سے لاؤں، یہ تو وہ ہستی ہے جنہوں نے اسلام ،پاکستان،اُردو
ادب،وکالت، اور طب میں ایسے بیج بوئے کہ دنیا میں ان کی کامیابی منہ بولتا
ثبوت ہے، میں یہ کہتا ہوں کہ یہ اللہ کے ایک ولی کی نسبت تھے، ہیں اور رہیں
گے۔ یہ وہ شخصیت ہیں جنہوں نے گرنے والے وقت میں سنبھلنا سیکھ لیا تھا اور
اپنی منزل کی جانب گامزن ہو گئے انہوں نے اپنے انداز میں ایسی سیاست کی کہ
آج کی سیاست اُس سیاست کے آگے کچھ بھی نہیں، یوں کہنا غلط نہ ہوگا کہ سیاست
نام کی کوئی چیز ہے ہی نہیں،مگر افسوس ہم نے ان جیسے کئی عظیم الشان لوگوں
کی قدر نہیں کی اور اِن جیسی کامیاب شخصیات نے ہر وقت اسلام کا بول بالا
چاہا اور اسلام کے لیے ہر طرح کا جہاد کیا اسی امید سے لگے رہے کہ ایک دن
ضرور کامیابی اِن کا مقدر بنے گی، اور ان کی امید،دلگی اور محنت نے انہیں
ہر مقصد میں کامیابی دلائی اور حُسنِ کارگردگی میں نام کمایا، میں یہ کہتا
ہوں کہ ہر مسلمان کے اندر ایک اقبال ہوتا ہے اگر وہ چاہے تو کچھ کر دکھائے
اور اگر نہ چاہے تو مر ہی جائے اور میں یہ بھی کہتا ہوں کہ اگر اس نے کوئی
ایسا کام نہ کیا جس سے اسلام اور معاشرے کا کوئی فائدہ ہو تو یہ کہنا غلط
نہ ہوگا کہ اس کی بےغيرتی اس کے بے غيرت ہونے کا منہ بولتا ثبوت ہے اس کی
اس معاشرے میں کوئی ضرورت نہیں۔اقبال کہتا ہے کہ میرا والد پڑھا ہوا نہیں
تھا مگر اُن کے پاس علم بہت تھا، یہاں اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ایک عظیم
شخصيت جو بلکل بھی نہیں پڑھے اور ان کے پاس اتنا علم تھا کہ جو وہ اندازہ
لگاتے وہ سچ ہو جاتا تھا۔ اور ہم پڑھ بھی لیتے ہیں اور سہولیات بھی میسر
ہیں مگر پھر بھی کچھ نہیں کرتے اِن کی کامیابی کی ایک ہی وجہ ہے کہ مقصد
حاصل کرنا ہے ۔ افسوس صد افسوس ہمارا مقصد تو یہ بن چکا ہے کہ بس ہم ہرحال
میں خوش رہیں باقی سب بھاڑ میں جائیں اور پھر اللہ سے محبت اسلام سے محبت
کا کہتے ہو اور اپنے حقیقی رب کو بھول چکے ہیں، اور پھر کہتے ہیں کہ مسلمان
ہیں لعنت ایسے مسلمان ہونے پر اللہ کا کو ایسے لوگ نہیں چاہیے اقبال کہتا
ہے ۔۔۔۔۔۔،
گونگی ہو گئی آج کچھ زبان کہتے کہتے
ہچکچا گیا خود کو مسلماں کہتے کہتے
یہ بات نہیں کہ مجھ کو اُس پر یقین نہیں
بس ڈر گیا خود کو صاحبِ ایماں کہتے کہتے
توفیق نہ ہوئی مجھ کو اِک وقت کی نماز کی
اور چپ ہوا موذن آذان کہتے کہتے
کسی کافر نے جو پوچھا ہے کونسا مہینہ
شرم سے پانی ہاتھ سے گر گیا رمضان کہتے کہتے
یہ سن کر چپ سادھ لی اقبال اس نے
یوں لگا جیسے رُک گیا وہ مجھے حیوان کہتے کہتے
میں بس اتنا ہی کہوں گا اقبال اقبال ہے اور ذرا سا سوچئے گا ضرور!۔ |