یو۔کے برطانیہ میں جعلی علماء اور امام مسجد کیسے تیار کیے جاتے ہیں

آئی ایس آئی نے صوبہ خیبرپختونخواہ میں ایک (امریکن ) خفیہ ( ایجنسی سی آئی اے) کا ایجنٹ دبوچ لیا اس انتہائی خطرناک دہشت گرد کا اصل نام جان والکر تھا پکڑا گیا۔۔۔یہ پشاور میں ایک مسجد کا پیش امام تھا اور اسکا مشن اہل سنت۔شیعہ ۔دیوبندی۔ بریلوی۔اہل حدیث۔کے درمیان نفرت پیھلانا اور انکو آپس میں لڑانا اسکی ڈیوٹی میں شامل تھا۔ اور پاکستان میں دہشت گردی کرانا اسکے مشن میں شامل تھا ۔ نہ جانے کتنے لوگوں نے اس کے پیچے نمازیں پڑھیں ہونگی پر اس سانپ کو کوئی بھی مسجد کے امام کے بھیس میں نہیں پہچان سکا ۔۔لیکن مارخور نے ا س سانپ نما دہشت گرد کا شکار کیا تو اپنے ملک اور قوم کی خفاظت کیسی ہوتی ہے آئی ایس آئی اور پاک فوج خوب اچھی طرح جانتی ہے

مسلمانوں کو بہت سے مسائل کے ساتھ جس ایک بڑے چیلنج کا سامنا ہے، وہ ہے باہمی اتحاد کی کمی،ایک خدا،ایک رسولؐ صلی اللہ والہ وسلم ،ایک کتاب،ایک امت ،لیکن پھر بھی امت اتنی پارہ پارہ کیوں ہے ۔ اس میں ہماری اپنی کوتاہیوں کے ساتھ اسلام کے دشمنوں کی بھی کوشش اور اسلام سے انکی ازلی دشمنی شامل ہے۔ زیرِ نظر تحریر ایک ایسی ہی حقیقت ہے۔کہ کیوں ابھی تک ہم ایک عید کے چاند پر بھی متفق نہیں ہو پارہے ہیں؟۔۔”نواب راحت سعید خان چھتاری 1940 ءکی دہائی میں ہندوستان کے صوبے اتر پردیش کے گورنر رہے ۔

انگریز حکومت نے انہیں یہ اہم عہدہ اس لئے عطا کیا کہ وہ مسلم لیگ اور کانگریس کی سیاست سے لاتعلق رہ کر انگریزوں کی وفاداری کا دم بھرتے تھے عام الفاظ میں وہ انگریز کے تلوے چاٹنے تھے۔نواب چھتاری اپنی یادداشتیں لکھتے ہوئے انکشاف کرتے ہیں کہ ایک بار انہیں سرکاری ڈیوٹی پر لندن بلایا گیا ۔ان کے ایک پکے نہایت جگری انگریز دوست نے، جو ہندوستان میں کلکٹر رہ چکاتھا ،نواب صاحب سے کہا: ”آئیے ! آپ کو ایک ایسی جگہ کی سیر کرائوں، جہاں میرے خیال میں آج تک کوئی ہندوستانی نہیں گیا ہی نہیں۔“نواب چھتاری صاحب خوش ہوگئے ۔انگریز کلکٹر نے پھر نواب صاحب سے پاسپورٹ مانگا کہ وہ جگہ دیکھنے کیلئے حکومت سے تحریری اجازت لینی ضروری تھی۔دو روز بعدکلکٹر اجازت نامہ ساتھ لے آیا اور کہا: ”ہم کل صبح چلیں گے۔اگلی صبح نواب راحت سیعد خان چھتاری صاحب اور وہ انگریز منزل کی طرف روانہ ہوئے ۔شہر سے باہر نکل کر بائیں طرف جنگل شروع ہوگیا ۔جنگل میں ایک پتلی سی سڑک موجودتھی۔جوں جوں چلتے گئے جنگل گھنا ہوتا گیا ۔سڑک کے دونوں جانب نہ کوئی ٹریفک تھا، نہ کوئی پیدل مسافر۔ نواب صاحب حیران بیٹھے اِدھراُدھر دیکھ رہے تھے۔ موٹرچلے چلتے آدھے گھنٹے سے زیادہ وقت گزر گیا۔تھوڑی دیربعد ایک بہت بڑا دروازہ نظر آیا ۔پھر دور سامنے ایک نہایت وسیع وعریض عمارت دکھائی دی،اس کے چاروں طرف کانٹے دار جھاڑیاں اور درختوں کی ایسی دیوار تھی، جسے عبور کرنا ناممکن تھا،عمارت کے چاروں طرف زبردست فوجی پہرہ تھا۔اس عمارت کے باہر فوجیوں نے پاسپورٹ اور تحریری اجازت نامہ غور سے دیکھا اور حکم دیا کہ اپنی موٹر وہیں چھوڑ دیں اور آگے جو فوجی موٹر کھڑی ہے، اس میں سوار ہو جائیں،نواب صاحب اور انگریز کلکٹر پہرے داروں کی موٹر میں بیٹھ گئے۔ اب پھر اس پتلی سڑک پر سفر شروع ہوا،وہی گھنا جنگل اور دونوں طرف جنگلی درختوں کی دیواریں۔نواب صاحب گھبرانے لگے تو انگریز نے کہا :”بس منزل آنے والی ہے۔“آخر دورایک اور سرخ پتھر کی بڑی عمارت نظر آئی تو فوجی ڈرائیور نے موٹر روک دی اور کہا: ”یہاں سے آگے آپ صرف پیدل جا سکتے ہیں “۔راستے میں کلکٹر نے نواب صاحب سے کہا :”یاد رکھیں ‘کہ آپ یہاں صرف دیکھنے آئے ہیں، بولنے یا سوال کرنے کی بالکل اجازت نہیں ۔“عمارت کے شروع میں دالان تھا ،اس کے پیچھے متعدد کمرے تھے ۔دالان میں داخل ہوئے تو ایک باریش نوجوان عربی کپڑے پہنے سر پر عربی رومال لپیٹے ایک کمرے سے نکلا۔ دوسرے کمرے سے ایسے ہی دو نوجوان نکلے ۔ پہلے نے عربی لہجے میں ”السلام علیکم“ کہا۔دوسرے نے ”وعلیکم السلام !کیا حال ہے ؟“نواب صاحب یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گئے۔کچھ پوچھنا چاہتے تھے لیکن انگریز نے فوراً اشارے سے منع کردیا۔چلتے چلتے ایک کمرے کے دروازے پر پہنچے ،دیکھا کہ اندر مسجد جیسا فرش بچھاہے ،عربی لباس میں ملبوس متعدد طلبہ فرش پر بیٹھے ہیں، ان کے سامنے استاد بالکل اسی طرح بیٹھے سبق پڑھا رہے ہیں، جیسے اسلامی مدرسوں میں پڑھاتے ہیں۔طلباءعربی اور کبھی انگریزی میں استاد سے سوال بھی کرتے ۔نواب صاحب نے دیکھا کہ کسی کمرے میں قرآن کا درس ہورہا ہے ،کسی جگہ بخاری کا درس دیا جارہا ہے اور کہیں مسلم شریف کا ۔ایک کمرے میں مسلمانوں اور مسیحوں کے درمیان مناظرہ ہورہا تھا۔ ایک اور کمرے میں فقہی مسائل پر بات ہورہی تھی ۔سب سے بڑے کمرے میں قرآن مجید کا ترجمہ مختلف زبانوں میں سکھایا جارہا تھا۔انہوں نے نوٹ کیا کہ ہر جگہ باریک مسئلے مسائل پر زور ہے ۔مثلاً وضو،روزے،نماز اور سجدہ سہو کے مسائل ، وراثت اور رضاعت کے جھگڑے ،لباس اور داڑھی کی وضع قطع،چاند کانظر آنا،غسل خانے کے آداب ،حج کے مناسک،بکرا ،دنبہ کیساہو،چھری کیسی ہو ،دنبہ حلال ہے یا حرام،حج بدل اور قضاءنمازوں کی بحث،عید کا دن کیسے طے کیاجائے اورحج کا کیسے؟پتلون پہنناجائزہے یا ناجائز ؟عورت کی پاکی کے جھگڑے ،امام کے پیچھے سورة الفاتحہ پڑھی جائے یا نہیں ؟تراویح آٹھ ہیں یا بیس؟وغیرہ ۔ایک استاد نے سوال کیا،پہلے عربی پھر انگریزی اور آخر میں نہایت شائستہ اردو میں!”جماعت اب یہ بتائے کہ جادو ،نظربد،تعویذ ،گنڈہ آسیب کا سایہ برحق ہے یا نہیں ؟“پینتیس چالیس کی جماعت بہ یک آواز پہلے انگریزی میں بولیTRUE,TRUE پھر عربی میں یہی جواب دیا اور اردو میں!ایک طالب علم نے کھڑے ہو کر سوال کیا: ”الاستاد ،قرآن تو کہتا ہے ہر شخص اپنے اعمال کا ذمہ دار خود ہے۔“استاد بولے: ”قرآن کی بات مت کرو،روایات اور ورد میں مسلمان کا ایمان پکا کرو۔ستاروں ،ہاتھ کی لکیروں ،مقدراور نصیب میں انہیں اُلجھاو۔“یہ سب دیکھ کر وہ واپس ہوئے تو نواب چھتاری نے انگریز کلکٹر سے پوچھا: ”اتنے عظیم دینی مدرسے کو آپ نے کیوں چھپارکھا ہے؟“انگریز نے کہا: ”ارے بھئی ،ان سب میں کوئی بھی مسلمان نہیں، یہ سب عیسائی ہیں یہودی ۔اور کافر ہیں ،تعلیم مکمل ہونے پرانہیں مسلمان ملکوں خصوصاًمشرق وسطیٰ،ترکی،ایران اور ہندوستان بھیج دیا جاتا ہے۔وہاں پہنچ کر یہ کسی بڑی مسجد میں نماز پڑھتے ہیں ۔پھر نمازیوں سے کہتے ہیں کہ وہ یورپی مسلمان ہیں ۔انہوں نے مصر کی جامعہ الازہر میں تعلیم پائی ہے اور وہ مکمل عالم ہیں ۔یورپ میں اتنے اسلامی ادارے موجود نہیں کہ وہ تعلیم دے سکیں،وہ سردست تنخواہ نہیں چاہتے ،صرف کھانا،سر چھپانے کی جگہ درکار ہے۔وہ مؤذن،پیش امام ،بچوں کیلئے قرآن پڑھانے کے طورپراپنی خدمات پیش کرتے ہیں ،تعلیمی ادارہ ہو تو اس میں استاد مقررہوجاتے ہیں۔جمعہ کے خطبے تک دیتے ہیں۔“نواب صاحب کے انگریز مہمان نے انہیں یہ بتا کر حیران کردیا کہ اِس’ عظیم مدرسے‘ کے بنیادی اہداف یہ ہیں:۔(۱) مسلمانوں کو وظیفوں اور نظری مسائل میں الجھاکر قرآن سے دور رکھا جائے۔(۲) حضوراکرم ﷺ کا درجہ جس طرح بھی ہوسکے ،گھٹایا جائے۔اس انگریز نے یہ انکشاف بھی کیا کہ 1920ء میں توہینِ رسالت کی کتاب لکھوانے میں یہی ادارہ شامل تھا۔اسی طرح کئی برس پہلے مرزاغلام احمد قادیانی کو جھوٹا نبی بناکر کھڑا کرنے والایہی ادارہ تھا ۔اسکی کتابوں کی بنیاد لندن کی اسی عمارت سے تیار ہوکر جاتی تھی۔ خبر ہے کہ سلمان رشدی کی کتاب لکھوانے میں بھی اسی ادارے کا ہاتھ ہے اور مالی سپورٹ بھی شامل ہے۔مسلمان سے یہ یہودی ۔کافر مشرک ہندو اتنے خوف زدہ ہیں کے اگر سچے اور پکے مسلمان سے واسطہ پڑ گیا تو تاریخ گواہ کے مسلمان کو صیہونی یہودی کوئی بھی آج تک شکست نہیں دے پایا۔اسلیے مسلمانوں اللہ کی رسی قرآن کو مضبوطی سے پکڑ لو اس پر عمل پیرا رہو گے تو کوئی دشمن تھمارا بال تک بیگا نہیں کرسکتا۔

 

Maqsood Ali Hashmi
About the Author: Maqsood Ali Hashmi Read More Articles by Maqsood Ali Hashmi: 171 Articles with 173306 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.