ایک بار مریم نواز سے سنا تھا کہ جب انسان مایوسی کا شکار
ہوتو زبان درازی پر اتر آتاہے شاید محترمہ نے یہ بات اپنے مداح سراہوں کے
لیئے کہی تھی ،ان کے اباواجداد کی جانب سے دی گئی سیاسی تربیت کا یہ نتیجہ
نکلاکہ ان کے ایک رکن اسمبلی شیخ روحیل اصغر سے جب پوچھا گیا کہ انہوں نے
پارلیمنٹ میں گالی کیوں دی تو ان کا موقف یہ تھا کے یہ پنجاب کا کلچر ہے
پتہ نہیں وہ کونسے پنجاب کا کلچر پیش کررہے تھے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ
کیا یہ لوگ پنجاب کی نمائندگی کرنے کے اہل ہیں،اس قسم کے لوگ پنجاب کی
ثقافت اور سیاست کو بدنام کر رہے ہیں،کیونکہ وہ خود اپنی زبان پر قابو نہیں
رکھ سکتے اس لیئے اپنے اس بیان سے پورے صوبے کو بدنام کر رہے ہیں،قومی
اسمبلی میں گزشتہ دنوں جو ہلڑ بازی ہوئی اس طرح ماضی کی اسمبلیوں میں بیشتر
ارکان آپے سے باہر ہوکر اپنی زبان سے بیہودہ الفاظ اداکرچکے ہیں،مگر اس بار(
ن) لیگ کے لوگوں کو دیکھ کر ایسا لگا کہ یہ پوری تیاری کے ساتھ آئے تھے ،
یہ کیسے ممکن ہے کہ جس کی حکومت ہو وہ خود ہی ایوان میں بدامنی چاہے اور یہ
چاہے کہ ان کے اچھوں کاموں کا رزلٹ برا ئی میں نکلے ، اور یہ بھی نہیں کہ
پی ٹی آئی کے ارکان کی جانب سے ن لیگ کے جواب میں کچھ نہیں کہا گیاضرور
اینٹ کا جواب پتھر سے دیا گیاہے اور دونوں ہی طرف سے ایوان کا تقدس جس میں
کلمہ طیبہ لکھا ہواہے قرآنی آیات آویزاں ہیں کو پامال کیا گیاہے، مگر لفظ
گالی کی پشت پناہی وفاقی حکومت کے کسی بھی نمائندے نے نہیں کی ہے ، اس کے
برعکس ن لیگ کے ایم این اے شیخ روحیل اصغر نے گالی کا لفظ پنجاب سے منسوب
کرکے پورے پنجاب کو گالی دی ہے ان الزامات کا بوجھ پورے صوبہ پنجاب پر ڈال
کر انہوں نے اپنی تعلیم و تربیت کا پتہ دیا ہے۔ اس واقعہ کے بعد پنجاب کا
ہر شہری یہ کہنے میں حق بجانب ہے کہ روحیل اصغر صاحب یہ آپ کی ثقافت و کلچر
تو ہوسکتاہے،لیکن اہلِ پنجاب کی یہ روایت نہیں ہے آپ کے اس عمل نے نہ صرف
پنجاب کی عوام کو بلکہ پورے پاکستان کو بدنام کیا ہے ۔ پنجاب کی خوبصورت
ثقافت تو اپنے اندر بے پنا ہ ر وسعت رکھتی ہے جو قدیم اور جدید ادوار کا
ایک بہترین امتزج ہے پنجاب میں ہر علاقے کا ایک اپنا کلچر اور روایات ہیں
جو اس علاقے کے طرز تمدن کی عکاسی کرتا ہے ان تمام خوبیوں میں گالی کا کلچر
دور دور تک موجود نہیں ہے،ممکن ہے کہ ایک طبقہ اپنی اٹھ بیٹھ کے دوران گالی
کی طرز کے چند الفاظ اداکرتا ہو مگر ایسا صرف پنجاب میں ہی نہیں ہوتا بلکہ
یہ عمل کسی بھی صوبے یا کسی بھی مقام پر ممکن ہوسکتاہے اور کسی بھی دوسرے
ملک میں ہوسکتاہے مگر جس انداز میں شیخ روحیل اصفر نے اہل پنجاب پر لفظ
گالی کی مہر لگانے کی کوشش کی ہے اس کی ہر طبقہ فکر نے بھرپور مذمت کی ہے ،
افسوس کہ ساتھ کہنا پڑتاہے کہ ن لیگ کے ارکان کی جانب سے پاکستان کی سیاست
کو گندہ کیا جارہا ہے تیس سال سے زائد اسی پنجاب کے لوگوں نے ان کے لوگوں
کو مسلسل ایم این اے ایم پی اے اور وزرات اعلی ٰاور وزیراعظم کے منصب سے
نوازا ،مگر یہ لوگ یہ تک نہ جان سکیں کہ اس پنجاب کی عزمت اور عزت کیاہے
پنجاب کا کلچر کیا ہے اور اسکے کیا خدو خال ہیں میں سمجھتاہوں کہ کچھ اس پر
بات کرنے کی ضرورت ہے، پنج آب سے عیاں ہے کہ یہ پانچ دریاؤں کی دھرتی ہے ،یہاں
تیزی سے ترقی کی جانب دوڑتے ہوئے پنجاب میں چاروں طرف صنعتوں کا جال بچھا
ہوا ہے ،یہ پنجاب رومانوی انداز میں لہلاتے ہوئے کھیتوں اور زرعی پیداوار
میں مالا مال ہے فوج اور دیگر سرکاری محکموں میں پنجاب کی سب سے زیادہ
نمائندگی اور آبادی صوبہ پنجاب کا ملک کے تمام صوبوں کا بڑا بھائی ہونے کا
اعزاز دیتاہے، بابا فرید ، وارث شاہ ، بلھے شاہ، سلطان باہو، اقبال ،فیض
احمد،اور اس طرح کے برصغیر پاک وہند کے شاعر اور ادیب بھی پنجاب ہی سے تعلق
رکھنے والے ہی اس مختصر تعارف کا مقصد یہ بتانا ہے کہ اس قدر ادب سے مالا
مال صوبے کا کلچر پھر کیسا ہوگا یقینی طورپر گالی نہیں ہوسکتا،پنجاب کے
ثقافتی تہوار ہوں یا اس کے روائتی رقص لڈی تاریخی اہمیت رکھتے ہیں،یہ تمام
خوبیاں آج کی نہیں بلکہ قیام پاکستان سے لیکر اب تک اپنی مثال آپ ہیں مسلم
لیگ ن کو تواتر کئی دہائیاں یہا ں حکومت کرنے کا موقع ملا مگر اس پنجاب کا
کھانے والے اسے ہی لوٹ کرفرار ہوتے رہے ہیں ن لیگ کے لوگوں نے اپنے ہی ملک
کے سیاست دان ہونے کے باوجود نہ صرف اپنی تجوریوں کو بھرا بلکہ کروڑوں
نوجوانوں کے مستقبل سے بھی کھیلتے اور اپنی اولادوں اور ان کی بھی اولادوں
کے مستقبل کو محفوظ بناتے رہے،مگر اﷲ پاک کے ہاں دیر ہے اندھیرے نہیں ، وقت
کو بدلنے میں دیر نہیں لگتی آج کا پاکستان اور اس کا پنجاب اب بدل چکاہے
شریفوں زرداریوں کے چنگل سے نکل کر پاکستان کامستقبل اب نوجوانوں کے ہاتھوں
میں جاچکاہے ، کل جو لوگ عمران خان کے وزیر اعظم بننے کے سخت مخالفت تھے
اور اس کو سیاست سیکھنے کے مشورے دیتے تھے آج وہی لوگ کسی دوسری طرح سوچتے
ہیں ،ان لوگوں کو اس قدر توفیق نہ ہوسکی کہ پنجاب کی تعریف میں چند اچھے
الفاظ ہی اداکردیئے جائیں ، اس کے برعکس پنجاب کے وزیر اعلیٰ جناب عثمان
بزدار نے پہلی بار 14 مارچ کو پنجاب کلچر ڈے سرکاری طور پر منانے کا اعلان
کیا ہے، اس تمام گفتگو سے یہ اندازہ لگانا اب آسان ہوچکا ہے کہ گالی دینا
پنجاب کی ثقافتی نہیں ، بلکہ ن لیگ کے رہنما ؤ ں کا کلچر ہے ، کیونکہ ہر
باشعور آدمی یہ بات جانتا ہے کہ بیہودہ اور گندی بات کو گالی کہتے ہیں اور
عیب جوئی و الزام تراشی ، لعن طعن اور ہتک عزت یہ سب گالی کے مفہوم میں
شامل ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ تمام تر الزامات پنجاب اور پنجاب کے
بسنے والوں پر برائے راست لگائے گئے ہیں جن کی تعداد گیارہ کروڑ سے بھی
زیادہ ہے اور دیکھا جائے توپاکستان اور بھارت میں کیئے گئے مردم شماریوں کے
مطابق دنیا میں پنجابی بولنے والوں کی تعداد 15-14 کروڑ سے زائد ہے، آج کے
اس دور میں پاکستان ایک عظیم مملکت بن کر ابھررہاہے وزیرِ اعظم عمران خان
کی کاوشوں سے ملک ترقی کی منازل طے کر رہا ہے عوام خوشحال ہورہی ہے مہنگائی
میں کمی اور روزگار کے مواقعوں میں اضافہ ہو رہا ہے بیرونی سطح پر بھی ملکی
ساکھ بہتر ہوئی ہے اور مسئلہ کشمیر کا حل یقینی نظر آرہا ہے جو وزیر اعظم
عمران خان کی جدو جہد کا ثمر ہے، پاکستان کے با شعورعوام ترقی مخالف سیاست
سے متفر ہوچکے ہیں۔عوام کی بیداری بھی روز بروز بڑھتی جارہی ہے ،ملک کے
کونے کونے میں بجلی کا بحران ہو یا پولیس کی زیادتیاں ہوں یا ورکرز کے
مطالبات ، متاثرہ لوگ ملک کے کونے کونے میں سڑکوں پر آکر اپنی ناراضگی کا
اظہار کرتے ہیں ،وہ خاموش رہ کر زیادتی برداشت نہیں کرنا چاہتے ،ملکی
اشرفیہ کیلئے انہیں نظر انداز کرنا بہت مشکل ہوگیا ہے، جس سے اندازہ لگایا
جاسکتا ہے کہ پاکستان کا مستقبل بہت روشن ، بہت خوبصورت ہے اور درست سمت کا
تعین ہوچکا ہے ،عملی اقدامات کے ذریعے اور اپنی نیتوں کو ٹھیک رکھتے ہوئے
باقی ماندہ چیلنجز پر قابو پالیا گیا تو وہ وقت دور نہیں جب پاکستان کا
شمار انشا ء اﷲ دنیا کے صف اول کے ممالک میں ہوگا، اور اس ترقی میں سب سے
اہم کردار صوبہ پنجاب کا ہوگا ۔ |