طارق عزیز کو ہم سے بچھڑے ہوئے ایک سال ہوچکا ہے

وہ شاعر ٗ ادیب پروڈیوسر ٗ ڈائریکٹر ٗ کمپیئر اورکمنٹیٹربھی تھے،سب سے بڑھ کر پاکستان سے پیار کرنے والے تھے
انہوں نے اپنی زندگی میں بیشمار کامیابیاں سمیٹیں لیکن ناکامیوں نے بھی ان کا پیچھا نہ چھوڑا

پاکستان میں ایک شخصیت ایسی بھی ہے جو صدا کار‘ اداکار‘ نیوز ریڈر‘ دانش ور‘ شاعر‘ ادیب‘ پروڈیوسر‘ ڈائریکٹر‘ کمپیئر‘ کمنٹیٹر‘ سیاست دان اور ایم این اے کی حیثیت سے گھر گھر پہچانا جاتا ہے۔ ان کا ایک جملہ ’’دیکھتی آنکھوں اور سنتے کانوں کو میرا سلام پہنچے آج بھی ہمارے ذہنوں میں تازہ ہے۔ ریڈیو اور ٹی وی پر ان کے کام کو اتھارٹی مانا جاتاتھا۔ ان کے دہن سے ہزاروں شعر ایسے برآمد ہوتے ہیں جیسے کوئی چھپا ہوا خزانہ عیاں ہو رہا ہو۔ انہوں نے فلموں اور ڈراموں میں بھی اداکاری کی۔ ذوالفقار علی بھٹو اور میاں نواز شریف کے قریبی ساتھیوں میں شمار کئے جاتے ہیں۔ اس ہردلعزیز شخصیت کا نام ’’طارق عزیز‘‘ ہے۔ وہ 6 مارچ 1938ء کو پیدا ہوئے اور 17 جون 2020ء کو لاہور میں انتقال کرگئے۔یہ مضمون بہت سال پہلے سنڈے میگزین روزنامہ جنگ میں انٹرویو کی شکل میں شائع ہواتھا۔انٹرویو لینے کا فریضہ برادرم اعجاز احمد بٹ نے انجام دیا۔روزنامہ جنگ اور برادرم اعجاز احمد بٹ کے شکریے کے ساتھ یہ مضمون قارئین کی نذر کیا جارہا ہے ۔ چونکہ اس انٹرویو میں طارق عزیز مرحوم کی زندگی کے اہم واقعات خود ان کی زبانی شامل ہیں ،اس لیے ان کے مرنے کے بعد اس انٹرویو کی قدر، اہمیت اور افادیت میں کئی سو گنا اضافہ ہوچکا ہے۔اسے مضمون کی شکل دینے کا اعزاز اﷲ تعالی نے مجھے بخشا ہے۔طارق عزیزاپنی زندگی کے مختلف پہلوؤں روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں -:
.................
ہمارا آبائی گھر جالندھر کے گاؤں ’’چوگٹی‘‘ (جسے میں چوگڑھی کہتا ہوں) کے محلے چہار باغ میں تھا۔ والد صاحب مسلم لیگ کے رہنما تھے۔ انہوں نے اپنا نام 1936ء میں تبدیل کرکے’’عبدالعزیز پاکستانی‘‘ رکھ لیا تھا۔ قیام پاکستان کے وقت پاکستان کے مخالفین نے ہمارے گھر کو آگ لگا دی۔ سب گھر والے تین کپڑوں میں جالندھر کے نواح میں واقع پٹھانوں کی بستی میں چلے گئے۔ وہاں والد کے دوست فیروز صاحب رہتے تھے۔ انہوں نے ایک ٹرک کے ذریعے پچاس لوگوں کا قافلہ پاکستان کی طرف روانہ کیا جس میں ہمارا خاندان بھی شامل تھا۔ ٹرک میں خواتین‘ بچے اور نوجوان بھی تھے۔ ٹرک کے اوپر ترپال ڈال دی گئی تاکہ دشمنوں کی نظر سے بچا جا سکے۔ ٹرک سے اتر کر ہمارا قافلہ کافی دور تک پیدل چل کر کوئینز روڈ لاہور میں واقع ایک پیلی کوٹھی میں پہنچا۔ وہاں چند دن قیام کے بعد ہم منٹگمری (ساہیوال) چلے گئے۔ جہاں چک نمبر L-9/142 میں ہمیں کچھ زمین الاٹ ہوئی۔ اس وقت میرے والد کے ساتھ میری والدہ سکینہ خانم‘ بڑا بھائی خالد عزیز‘ میں اور دو چھوٹی بہنیں تھیں۔ میری تیسری بہن کی پیدائش پاکستان میں ہوئی۔ تینوں بہنوں نے گریجویشن کیا‘ وہ ہاؤس وائف ہیں۔ بڑے بھائی خالد عزیز کراچی میں کسٹم سپرنٹنڈنٹ رہے‘ ان کا 8 جنوری 1987ء کو انتقال ہو گیا۔

ابتدائی تعلیم منٹگمری ہائی سکول سے حاصل کرنے کے بعد گورنمنٹ کالج منٹگمری میں داخل ہو گیا۔ 10 مربع زمین پر واقع یہ کالج اس وقت پاکستان کا سب سے خوبصورت ترین کالج تھا۔ والد صاحب منٹگمری میں ایک ہفت روزہ میگزین ’’سیل نو‘‘ (نیا سیلاب) کے نام سے نکالتے تھے۔ مجھے کالج کے میگزین ’’ساہیوال‘‘ میں فرسٹ ایئر ہی میں سب ایڈیٹر بنا دیا گیا۔ میں شروع ہی سے تقریری مقابلوں میں پوزیشن لیتا رہا‘ حیدرآباد اور ملتان میں ہونے والے کالج سطح کے مقابلوں میں بھی میں نے اول پوزیشن حاصل کی۔ فورتھ ایئر تک کئی ٹرافیاں اور سر ٹیفکیٹ حاصل کر چکا تھا لیکن مجھے کورس کی کتابیں اچھی نہیں لگتی تھیں۔ ان کے علاوہ دنیا بھر کی کتابیں پڑھتا تھا۔ پھر بھی میری پیاس نہ بجھتی۔ طبیعت شروع سے آوارہ گردوں والی تھی۔ فورتھ ایئر میں تعلیم کو خیرباد کہہ کے لاہور آگیا۔ یہاں ایم اے او کالج کے پرنسپل نے میری اسناد‘ سر ٹیفکیٹ اور انعامات دیکھ کر کہا ’’تم اتنے لائق طالب علم تھے تو تمہیں کالج سے نکالا کیوں گیا؟‘‘ میں خاموش رہا تو کہنے لگے ’’یہاں تو یتیم خانہ کھلا ہے‘ تم بھی داخلہ لے لو‘‘ پھر مجھے ایم اے او کالج میں داخلہ دے دیا گیا۔

میرے پردادا مہر جامی اور ان کے بھائی مہر شادی تھے۔ دادا کا نام میاں غلام محمد تھا۔ میں اکثر اپنے دوستوں کو کہتا ہوں کہ جب آرائیں امیر ہوتا ہے تو مہر کہلاتا ہے۔ جب تھوڑا امیر ہوتا ہے تو میاں ہو جاتا ہے اس سے کم امیر چودھری بن جاتا ہے اور پھر جب غریب ہو جاتا ہے تو صرف طارق عزیز رہ جاتا ہے۔ ایوب خان نے ایبڈ ونافذ کیا تو دو بندے عدالت میں چلے گئے یعنی ظہور الٰہی اور حسین شہید سہروردی‘ ان میں سے حسین سہروردی سے والد صاحب کی کلکتہ کے دور کی دوستی تھی۔ والد نے اپنے اخبار میں ان دونوں شخصیات کی خبریں شائع کرنا شروع کر دیں۔ حکومت میرے والد کے خلاف ہو گئی اور ان کی زمین ضبط کر لی گئی۔ وہ 1961ء میں بہت زیادہ بیمار ہو گئے۔ ڈاکٹروں کے کہنے پر میں اپنی والدہ اور تینوں بہنوں کے ساتھ انہیں لے کر ایبٹ آباد چلا گیا۔ اس دوران پیسے کی تنگی کی وجہ سے ہمیں منٹگمری والا گھر 19 ہزار روپے میں فروخت کرنا پڑا۔ سارے پیسے والد صاحب کے علاج اور زمین کے مقدمات پر خرچ ہو گئے۔ اس دوران والد صاحب کا انتقال ہو گیا‘ ان کی تدفین ایبٹ آباد میں ہوئی۔

والد صاحب کے انتقال کے بعد راولپنڈی کمیٹی چوک‘ بھابھرا بازار کے قریب اظہر لودھی کا دو منزلہ مکان تھا۔ انہوں نے ہمیں وہاں رہنے کی اجازت دے دی۔ وہاں مجھے پانچ روپے روزانہ پر ریڈیو اناؤنسر کی حیثیت سے نوکری مل گئی‘ جس روز چھٹی کرتا پانچ روپے کٹ جاتے۔ اس وقت ریڈیو کے پروڈیوسر خود کو بہت بڑی چیز سمجھتے تھے اور فنکاروں کی عزت نفس پر حملہ کرنا وہ اپنا فرض سمجھتے تھے۔ بارش ہو جائے تو چپڑاسی کو لینے کے لئے ریڈیو سٹیشن سے گاڑی بھیج دی جاتی لیکن فنکار کو ایسی کوئی سہولت نہیں دی جاتی تھی۔ ایک روز میں اناؤنسمنٹ کر رہا تھا کہ ’’سرخ بتی‘‘ جلنے کے باوجود ایک پروڈیوسر اندر آ گیا۔ میرے منع کرنے پر وہ گالم گلوچ کرنے لگا۔ میں نے سوئچ آن کر کے اس کی گالیاں آن ایئر چلا دیں۔ ریڈیو کا سارا عملہ میرے کمرے کی طرف بھاگ کر آ گیا۔ قدرت اﷲ شہاب کی بیگم میرے کام کو بہت پسند کرتی تھیں‘ میں نے ان کو تمام واقعہ بتایا تو ان کی سفارش پر مجھے ریڈیو سٹیشن لاہور منتقل کر دیا گیا۔

لاہور میں میرے ساتھ میرا دوست مہدی حسن (جو بعد میں ڈاکٹر مہدی حسن بنے) بھی تھا۔ ہم پہلے موہنی روڈ والے چاچا دودھ فروش کی دکان کی چھت پر رہے۔ رات کو زمین پر بستر لگا کر سوتے۔ کرایہ دینے کے لئے ہمارے پاس پیسے نہ تھے‘ چاچا دودھ فروش پہلے ہم سے کرائے کا مطالبہ کرتا اور پھر خود ہی مفت ناشتا بھی کروا دیتا۔ اس کے بعد بھاٹی دروازے کے پاس 17 روپے ماہانہ کرائے میں ایک کمرہ لے لیا جس میں پانی تھا نہ ہی بجلی۔ جب رات کو بہت گرمی لگتی تو میں قمیض اتار کر سڑک کنارے گھاس پر لیٹ جاتا۔ ایک رات پولیس والے نے ٹھڈا مار کر اٹھایا اور کہا ’’تم کون ہو‘ جو بغیر قمیض زمین پر لیٹے ہو‘‘ میں نے کہا ’’میں ریڈیو میں کام کرتا ہوں‘‘ وہ کہنے لگا ’’یہاں چور اچکے سب لیٹے ہوئے ہیں‘ یہاں سے اٹھو اور گھر جا کرسو جاؤ۔‘‘ ان دنوں خرچا پورا کرنے کے لئے میں نے امروز اخبار میں 7 روپے فی کالم کے حساب سے کالم لکھنا شروع کر دیئے۔ ایک روز مہدی حسن کی سائیکل چوری ہو گئی تو تفتیشی پولیس اہل کار نے میرا بستر دیکھ کر مجھے ہی چور قرار دے دیا۔ بڑی مشکل سے مہدی حسن نے درخواست واپس لے کر پولیس سے میری جان چھڑوائی۔ اس کے بعد ہم دونوں نے لاء کالج میں ایک کمرہ لے لیا جہاں پہلی بار پانی اور بجلی دستیاب ہوئی۔

1964ء میں پی ٹی وی لاہور کا پہلا سنٹر ریڈیو سٹیشن میں بنایا گیا۔ اس وقت میرے حالات بہت خراب تھے‘ بڑھی ہوئی شیو‘ میلے کپڑے‘ میں ریڈیو سے اپنا کام کر کے نکلنے لگا تو مجھے بتایا گیا کہ آپ کو ٹی وی کے لئے بلایا گیا ہے۔ آڈیشن دیا تو میرے الفاظ کی ادائیگی کو دیکھتے ہوئے منتخب کر لیا گیا ۔ اس وقت اسلم اظہر ایم ڈی تھے۔ دو ماہ کی تربیت لینے کے بعد میں ساؤتھ ایسٹ ایشیا کا پہلا نیوز کاسٹر اور پہلا اناؤنسر بن گیا۔ اس وقت میری تنخواہ 500 روپے ماہانہ مقرر ہوئی جبکہ پروفیسر اور سی ایس پی افسر کی تنخواہ 350 روپے ہوا کرتی تھی۔ یوں برے حالات سے اچھے حالات کی طرف سفر شروع ہوا۔
ان دنوں ڈراموں میں کام کر رہا تھا۔ ایک دن شباب کیرانوی کا فون آ گیا‘ غالباً 1965ء کا واقعہ ہے۔ شباب کیرانوی نے کہا ’’میں آپ کو اپنی فلم میں لینا چاہتا ہوں‘‘ میں نے حامی بھر لی فلم ’’انسانیت‘‘ میں انہوں نے مجھے وحید مراد اور زیبا کے ساتھ ٹرائی اینگل لو سٹوری کا کردار دیا۔ میں نے اس فلم میں کینسر کے مریض کا رول کیا۔ اس فلم کو کرنے سے قبل ایک مہینے تک ڈائٹنگ کی۔ سگریٹ اور بلیک کافی بہت زیادہ پینے کی وجہ سے میں واقعی مریض لگنے لگا تھا۔ بہت سے لوگوں نے شباب کیرانوی کو ٹوکا کہ اس نے وحید مراد کے بالمقابل طارق عزیز کو کاسٹ کر کے بہت بڑی غلطی کی ہے لیکن جب وہ فلم سینماؤں میں لگی تو ’’سپر ہٹ‘‘ ہوئی۔ ’’انسانیت‘‘ کی کامیابی کے فوری بعد ’’کٹاری‘‘ فلم میں کاسٹ کیا گیا۔ اس میں زمرد اور اعجاز درانی کے علاوہ ولن کے کردار میں مصطفی قریشی بھی تھے۔ وہ بھی اچھی فلم ثابت ہوئی۔ اس کے بعد ’’زندگی‘‘ میں میرے ساتھ غزالہ کیفی اور شکیل کو کاسٹ کیا گیا۔ اگلی فلم ’’سالگرہ‘‘ میں شمیم آرا‘ وحید مراد اور سنتوش رسل کو کاسٹ کیا گیا۔ نوشاد کے میوزک کی وجہ سے یہ فلم بھی سپرہٹ ثابت ہوئی۔ اس کے بعد فلموں کا سلسلہ چل نکلا۔ پرائی بیٹی‘ منزل‘ کردار‘ چراغ کہاں روشنی کہاں سمیت میں نے 25 فلموں میں اداکاری کی۔ کئی سال بعد میرے دوست قوی خاں نے مجھے ’’ماں بنی دلہن‘‘ میں زبردستی ایک منفی رول کرنے پر مجبور کیا۔ بابرہ شریف کی موجودگی کے باوجود یہ فلم بھی فلاپ ہو گئی‘ اس کے بعد میں فلم انڈسٹری سے مکمل طور پر کنارہ کش ہو گیا۔

...............
ذوالفقار علی بھٹو نے ایک بار میری تقریر سنی تو انہوں نے فون کر کے ملنے کے لئے کہا۔ جب میں نے کہا مجھے آپ کے گھر کا پتا معلوم نہیں تو وہ بہت حیران ہوئے‘ پھر انہوں نے گاڑی بھجوا دی۔ اس ملاقات میں انہوں نے مجھے اپنی پارٹی میں شامل ہونے کی دعوت دی۔ جب مارشل لاء حکومت نے مجھے حیدرآباد جیل میں بند کیا تو بھٹو صاحب مجھ سے جیل میں بھی ملنے آئے۔ اس کے بعد ان کے ساتھ ساتھ رہا۔ رات کب آئی اور دن کیسے گزرا کچھ پتا نہیں چلتا تھا۔ ایک بار بھٹو کے ساتھ 14 ممالک کے دورے پر گیا۔ وہ بیرون ملک دوروں پر بھی ہمارا بہت خیال رکھتے تھے۔ ایک بار میرے پاس رقم ختم ہو گئی‘ مجھے پتا چلا ترکی میں پانی بھی پیسوں میں ملتا ہے۔ میں نے بھٹو صاحب سے کہا تو کہنے لگے ’’اپنے کمرے میں واپس جاؤ‘‘۔ پھر انہوں نے ملٹری سیکرٹری کے ذریعے ایک ہزار ڈالر بھجوا دیئے۔ میں نے اپنے وفد کے دوسرے ساتھیوں کو اکٹھا کیا اور ان کی دعوت کر دی۔ ہم ایک بار مشرقی پاکستان سے واپس آئے‘ بھٹو نے وہاں فوجی آپریشن کرنے کے عمل کو سپورٹ کیا۔ میں نے کہا ’’بھٹو صاحب! میں آپ کے اس فیصلے پر خوش نہیں‘ لہٰذا میں آپ کی پارٹی سے الگ ہوتا ہوں۔‘‘ یوں میں نے پیپلزپارٹی چھوڑ دی۔

...................
میرا ایک دوست تاج الملوک ان دنوں ننکانہ کا اے سی تھا‘ وہ مجھے شادی کی ایک تقریب میں اپنے ساتھ لے گئے۔ وہاں نواز شریف بھی موجود تھے۔ انہوں نے مجھے اپنے پاس بلایا‘ کافی دیر تک ہم باتیں کرتے رہے۔ اس کے بعد نواز شریف مجھے اپنے ساتھ گاڑی میں لاہور سے فیصل آباد لے کر گئے۔ راستے میں ہر جگہ لوگ ان کا استقبال کرتے رہے۔ اس دوران ایک دو جلسوں میں میری تقریریں سن کر نواز شریف نے مجھے تحریک نجات میں اپنے ساتھ رکھنا شروع کر دیا۔ میں نے کوئٹہ کے ایک جلسے میں عوام سے پوچھا کہ میں نے 13 سال قبل پیپلزپارٹی چھوڑ دی تھی کیا اب مسلم لیگ (ن) میں شامل ہو جاؤں‘ لوگوں نے ہاں کہا تو میں مسلم لیگ میں شامل ہو گیا۔ میں نے مسلم لیگ (ن) کی طرف سے 1997ء میں لاہور کے حلقے سے الیکشن لڑا تھا۔ جب ووٹ دینے کی باری آئی تو اسی لاہور شہر کے باسیوں نے مجھے 50 ہزار سے زائد ووٹ دیئے جس شہر کے فٹ پاتھوں پر میں سوتا رہا تھا۔ میرے مقابل عمران خاں کو 4 ہزار اور میاں مصباح الرحمن کو 17 ہزار ووٹ ملے تھے۔

...............
سپریم کورٹ پر حملہ کرنے کا مجھ پر الزام سو فیصد جھوٹا ہے۔ آپ کو اصل بات بتاتا ہوں۔ اس مقدمے میں 26 افراد کا چالان ہوا تھا‘ سب نے غیرمشروط معافی نامہ لکھ کر دے دیا۔ ان میں سے 19 افراد کا معافی نامہ تسلیم کر لیا گیا۔ باقی چھ افراد پر مقدمہ چلایا گیا۔ ان میں دو مسلم لیگی ایم این ایز یعنی میں اور میاں منیر بھی شامل تھے۔ تین ایم پی ایز جن میں اختر رسول اور دو راولپنڈی کے ایم پی ایز شامل تھے۔ چھٹا لڑکا مسلم لیگ یوتھ ونگ کا گوشی تھا۔ سپریم کورٹ کے تین ججوں نے ہمیں اس کیس سے بری کر دیا۔ اس کے بعد ایک اور لارجر بنچ بنایا گیا۔ ہم سے کوئی نیا سوال نہیں کیا گیا۔ ہمارا نیا بیان تک نہیں لیا گیا لیکن ہمیں سزا سنا دی گئی۔ اس وقت ایک جج نے واضح طور پر کہہ دیا تھا کہ وہ ہمیں سزا دے کر رہیں گے۔ (اس کے بعد طارق عزیز نے کلمہ طیبہ پڑھ کر کہا) میں حلفاً کہتا ہوں کہ مجھے اس روز بھی معلوم نہیں تھا کہ آج سپریم کورٹ پر حملہ ہونے والا ہے ۔ جہاں تک شادی کا تعلق ہے ،میری ارینج میرج تھی۔ 27 اگست 1982ء کو قبائلی علاقے کے مہمند قبیلے کی پڑھی لکھی فیملی میں میری شادی ہوئی۔ سر سیدان شاہ نے اپنی بیٹی کو اعلیٰ تعلیم دلائی‘ میرے ایم این اے بننے کے بعد میری اہلیہ ڈاکٹر حاجرہ طارق عزیز بھی ایم این اے بنی تھیں۔ ہمارا گھر آٹھ سال سے زائد عرصہ ایم این اے ہاؤس رہا۔

.................
یہاں یہ عرض کرتا چلوں کہ طارق عزیز نے اپنی زندگی میں دو کتابیں لکھیں۔پہلی کتاب پنجابی شاعری پر مشتمل تھی؟ جس کا نام ’’ہم زاد دا دکھ‘‘ ہے۔ اس کا پہلا ایڈیشن 1980ء کو شائع ہوا تھا۔ اب تک کئی ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ دوسری کتاب ’’داستان‘‘ ہے جس میں طارق عزیز کے سیاسی مضامین شامل ہیں۔ اس کا پہلا ایڈیشن 1996ء میں شائع ہوا تھا۔ یہ بھی شنید تھی کہ طارق اپنی موت سے پہلے اپنی آپ بیتی لکھ رہے تھے جس کا نام ’’فٹ پاتھ سے پارلیمنٹ ہاؤس تک‘‘ تھا۔اب اس بات کا علم نہیں کہ وہ کتاب پایہ تکمیل کو پہنچی کہ نہیں۔ یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہطارق عزیز نے 1975ء میں نیلام گھر کا پہلا پروگرام شروع کیا تھا۔ اس کے بعد اس کو طارق عزیز شو اور بعد میں بزم طارق عزیز کے نام سے پیش کیا جا تارہا ۔ مختلف ادوار میں اس پروگرام کو تین بار بند کیا گیا اس کے باوجود 32 سال تک یہ پروگرام نشر ہوتا رہا ۔ یہ پاکستان کا واحد پروگرام ہے جو لاہور‘ کراچی‘ پشاور‘ کوئٹہ‘ ملتان‘ اسلام آباد اور فیصل آباد کے علاوہ کئی ممالک سے بھی پیش کیا گیا جن میں دبئی‘ شارجہ‘ ابو ظہبی‘ عمان‘ بنگلہ دیش‘ امریکہ‘ جاپان اور برطانیہ شامل ہیں۔ اس پروگرام کے ذریعے بنگلہ دیشیوں سے بھی ’’پاکستان زندہ باد‘‘ کا نعرہ لگوایا گیا۔ اگر اس پروگرام کو بعض حکومتیں سیاست کی نذر کر کے بند نہ کرتیں تو 37 سال تک مسلسل چلنے کی وجہ سے یہ پروگرام ورلڈ ریکارڈ بنانے میں کامیاب ہو جاتا۔آپ کی زندگی کا ایک اہم واقعہ یہ ہے کہ 1996ء میں ایک بار ایک انڈین ٹی وی چینل نے آپ کو لندن بلایا اور اپنے پروگرام کی کمپیئرنگ کرنے کی پیشکش کی۔ آپ نے کہا ’’سکرپٹ میں خود لکھوں گا۔‘‘ وہ نہ مانے تو طارق عزیزنے انکار کر دیا کیونکہ وہ کوئی ایسا پروگرام نہیں کرنا چاہتے تھے جس میں پاکستان کے نظریات کی خلاف ورزی ہو۔ واپسی پر طارق عزیز عمرے پر چلے گئے۔ ان دنوں خانہ کعبہ کی تزئین وآرائش کا کام ہو رہا تھا۔ ایک شخص ان کے پاس آیا اس نے طارق عزیز کو خانہ کعبہ کے اندر دو جگہ پر ٹائلیں لگانے کا موقع دیا‘ یہ خدمت ایک اعزاز کی شکل دھارگیا کہ خانہ کعبہ کے اندر دو ٹائلیں (یا پتھر) طارق عزیز کے ہاتھ سے لگے ہیں۔
***************** -
 

Muhammad Aslam Lodhi
About the Author: Muhammad Aslam Lodhi Read More Articles by Muhammad Aslam Lodhi: 781 Articles with 662424 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.