مہشور شاعر۔۔۔۔۔نام : عزیز محمد خان تخلص : قیسی

اپنوں کے کرم سے یا قضا سے
مر جائیں تو آپ کی بلا سے

نام : عزیز محمد خان
تخلص : قیسی

پیدائش: یکم جولائی 1913ء
وفات : 30 ستمبر 1992ء

اپنوں کے کرم سے یا قضا سے
مر جائیں تو آپ کی بلا سے

نام : عزیز محمد خان
تخلص : قیسی

پیدائش: یکم جولائی 1913ء
وفات : 30 ستمبر 1992ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آج یعنی یکم جولائی ( 1913ء ) مشہور ترقی پسند شاعروں میں شامل ، تخلیقی سطح پر ترقی پسند نظریات کے حامی، عملی تحریک کے سرگرمِ رکن اور معروف شاعر” عزیزؔ قیسی صاحب “ کا 108 واں یومِ ولادت ہے
حیدرآباد دکن جیسے اردو ادب کے شہر میں عزیز قیسی کا نام آج بھی بہت عزت و احترام سے لیا جاتا ہیے اور ہمیشہ لیا جاتا رہے گا ، اردو کے معروف شاعر عزیزؔ قیسی یکم جولائی 1913ء کو پیدا ہوئے آپ کا پورا نام عزیز محمد خان تھا ، آپ جامعہ عثمانیہ حیدر آباد سے تعلیمی ڈگری حاصل کی عزیز قیسی نے شاعری بھی کی اور افسانے بھی لکھے لیکن ان کی تمام تخلیقی کارگزاریاں دوسرے ترقی پسندوں سے اس معنی میں مختلف ہیں کہ ان میں سماجی ذمے داری کا احساس زیریں سطح پر تیرتا ہے ترقی پسند نظریات سے وابستگی ان کے اپنے نجی تخلیقی عمل پر حاوی نہیں ہونے پاتی ، عزیزؔ قیسی نےشاعری میں غزل کے ساتھ نظموں پر بھی خاص توجہ دی۔ ان کی نظمیں ایک طور پر ان کے عہد کے آشوب کی تاریخ ہیں محترم عزیز قیسی کا مجموعہ کلام " گرد باد " کے نام سے شا ئع ہوکر مقبولیت حاصل کرچکا ہیے ، عزیزؔ قیسی کی وابستگی فلموں سے بھی رہی انہوں نے ممبئی میں رہ کر کئی فلموں کیلئے کہانیاں اور نغمے لکھے ، ان کا انتقال 30 ستمبر 1992ء کو ہوا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
💖 محترم عزیز قیسی صاحب کے 108 ویں یوم ولادت پر انکا منتخب کلام بطور خراج عقیدت پیش ہے 💖 👇
#انا ایک آزاد نظم

اک نگار تنہائی
انجمن سے نالاں بھی انجمن طلب بھی ہے
ایک وہم یکتائی
زندگی کا ساماں بھی موت کا سبب بھی ہے
اک جنون دارائی
خود رقیب ہے اپنا خود حریف یزداں ہے
خواب ہے تو ایقاں ہے وہم ہے تو ایماں ہے
اک حصار آئینہ
سنگ زن کی زد میں ہے
ایک بے کراں قلزم
آب جو کی حد میں ہے
اک فنا کا زندانی
حسرت ابد میں ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا ہاتھ اٹھائیے دعا کو
ہم ہاتھ اٹھا چکے دعا سے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اک نوائے رفتہ کی بازگشت تھی قیسیؔ
دل جسے سمجھتے تھے دشت بے صدا نکلا

سسکتے چاند سے بجھتے چراغ کی لو سے
مجھے کہیں سے پکارو بہت اکیلا ہوں

خدا کرے کوئی رہزن ہی ساتھ ہوجائے
وفا کی راہ گزارو بہت اکیلا ہوں

عزیزؔ کیسی یہ سوداگروں کی بستی ہے
گراں ہے دل سے یہاں کاٹھ کا کھلونا بھی

مجھ کو جو قتل کر کے مناتا رہا ہے جشن
وہ بد نہاد شخص مری ذات ہی میں تھا

نہ ہم سیاہی نہ ہم اجالا چراغ ہیں اشکِ آرزو کے
کہ ہم سرِ دشت بے کراں ہیں سلگتے رہتے ہیں شام سے ہم

عجیب شہر ہے گھر بھی ہیں راستوں کی طرح
کسے نصیب ہے راتوں کو چھپ کے رونا بھی

الجھاؤ کا مزہ بھی تری بات ہی میں تھا
تیرا جواب ترے سوالات ہی میں تھا

اپنوں کے کرم سے یا قضا سے
مر جائیں تو آپ کی بلا سے

والہانہ مرے دل میں مری جاں میں آ جا
میرے ایماں میں مرے وہم و گماں میں آ جا

شکوہ درست قیسیؔ کے پیہم سکوت کا
لیکن اس انجمن میں سخنور کوئی تو آئے

ہجومِ راہِ رواں روند کر گزرتا ہے
بساطِ دل کی کہاں ہم نے یہ بچھا دی ہے

گردن فرازیوں یوں ہے مقتل زمیں تمام
کیسے کہاں یہ بات پہ تم اپنی اڑ گئے

اک نوائے رفتہ کی بازگشت تھی قیسیؔ
دل جسے سمجھتے تھے دشتِ بے صدا نکلا

آپ کو دیکھ کر، دیکھتا رہ گیا
کیا کہوں اور کہنے کو کیا رہ گیا

بات کیا ہے کہ سب غرقِ دریا ہوئے
اک خدا رہ گیا، ناخدا رہ گیا

سوچ کر آئو، کوئے تمنا ہے یہ
جانِ من! جو یہاں رہ گیا، رہ گیا

دل کے وحشت سرا سے خدا جانے کیوں
سب گئے، ایک داغِ وفا رہ گیا

اُن کی آنکھوں سے کیسے چھلکنے لگا
میرے ہونٹوں پہ جو ماجرا رہ گیا

ایسے بچھڑے سبھی رات کے موڑ پر
آخری ہم سفر راستہ رہ گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
#آئینہ ایک اور معروف نظم
آئینے ! کچھ تو بتا ان کا تو ہمراز ہے تُو
تو نے وہ زلف وہ مکھڑا وہ دہن دیکھا ہے
ان کے ہر حال کا بے ساختہ پن دیکھا ہے
وہ نہ خود دیکھ سکیں جس کو نظر بھر کے کبھی
تو نے جی بھر کے وہ ہر خطِ بدن دیکھا ہے
ان کی تنہائی کا دلدار ہے دم ساز ہے تو
آئینے ! کچھ تو بتا ان کا تو ہمراز ہے تُو

کیا وہ شاعر کی طرح خود کو کبھی دیکھتے ہیں؟
ٹکٹکی باندھ کے کیا اپنی چھبی دیکھتے ہیں؟
شوخ، معصوم، جواں، مست، سجل، بے پرواہ
کیا وہ خود اپنے یہ انداز سبھی دیکھتے ہیں؟
اتنا گم سم ہے کہ خود اُن کا اِک انداز ہے تو
آئینے ! کچھ تو بتا ان کا تو ہمراز ہے تُو

رنگِ رُخ کیا کبھی اور نکھر جاتا ہے؟
آنکھیں جھکتی ہیں تو کیا روپ سنور جاتا ہے؟
کھوئے کھوئے سے وہ کچھ سوچ کے جب ہنستے ہیں
کیا کوئی نام بھی ہونٹوں پہ ابھر آتا ہے؟
ان کے جذبات کی سہمی ہوئی آواز ہے تو
آئینے ! کچھ تو بتا ان کا تو ہمراز ہے تُو

کبھی گھبرائے ہوئے بھی تو وہ آتے ہوں گے
دل کی دھڑکن کو جو رخسار پہ پاتے ہوں گے
کانپتا جسم سنبھالے نہ سنبھلتا ہو گا
اپنی آنکھوں سے بھی خود آنکھ چراتے ہوں گے
ضبطِ ناکام کا گھبرایا ہوا ناز ہے تُو
آئینے ! کچھ تو بتا ان کا تو ہمراز ہے تُو

سنبلیں زلف بنانے وہ جب آئیں گے نا
پہلے اس چاند سے مکھڑے کی بلائیں لینا
پھر زباں تجھ کو جو مل جائے تو سرگوشی سے
حسن کو اور نکھرنے کی دعائیں دینا
خلوتِ حسن میں اِک عشق کی آواز ہے تُو
آئینے ! کچھ تو بتا ان کا تو ہمراز ہے تُو
 

 وشمہ خان وشمہ
About the Author: وشمہ خان وشمہ Read More Articles by وشمہ خان وشمہ: 308 Articles with 428986 views I am honest loyal.. View More