افغانستان بسفرِ جہنم

Sadiq Amin is a new Political, and social artist. He is among the most constructive and critical thinkers in Pakistan.


افغانستان بسفر جہنم، کوئی رکھوانے والا نہیں، مستقبل قریب سے خون اور انسانی لوتھڑوں کی بو آرہی ہیں۔ مایوسی، بے چینی اور افرات و تفریط۔ پورے ملک میں مایوسی، بے چینی اور افراط تفریت کا سماں ہیں۔
کوئی نہیں جانتا، کیا بنے گا اس ملک کا؟
کس طرح بنے گا؟
آمن میں کیا مددگار ثابت ہوگا، کیا زہر قاتل؟
اس وقت افغانستان شدید شش و پنج کا شکار ہیں۔ کوئی نہیں جانتا کہ اس آمن عمل کا کیا ہوگا، اس ریاست کا کیا ہوگا؟
اس کو لیڈ کون کرے گا؟ کون رہنما ہوگا، کون نہیں؟
معیشت تو زمین بوس ہو چکی ہیں، سماج میں افراط تفریت ہیں، انسانوں کے درمیان فا صلے بڑھ چکے ہیں۔ سیاسی میدان سلطانی دنگل کا مظہر ہے۔ ہر طرف ہتھیار، ہتھیار۔ اس لڑائی کو، کشت و خون کو رکھوالے تو کون؟
کوئی نہیں جانتا؟ ہوگا، تو کیا ہوگا؟
اس لڑائی، جنگ و جدل، اور خون کا بہاو کو اب بھی روکا جاسکتا تھا، کاش اگر یہ دو چیزیں درمیان میں آڑے نہ آتے تو شاید بہت بڑھی حد تک انسانی خون کو بچھایا جاسکتا تھا۔
(1) امریکی بلنڈرز
(2) مختلف آرا
1: امریکی بلنڈرز

افغانستان کی سرزمین پر اس صدی کا سب سے اہم پیشرفت پچھلے سال یعنی 2020 میں امریکہ اور طالبان کے درمیان معاہدہ Agreement for bringing peace to Afghanistan ہوئی۔ اس سے پہلے بھی آمن کے لئے کئی کوشیشیں کی گئی تھی مگر کامیاب نہ ہوئی تھی۔ آمن عمل کا حامد کرزئی یعنی سابق افغان صدر بہت بڑا داعی تھا مگر کاش امریکہ بلنڈر پہ بلنڈر نہ کر بیٹھتا تو ابھی افغانستان ایک نئے اور خوشگوار موڈ میں ہوتا۔ اگر امریکہ کی اس بلنڈرز پر بات کی گئی جو 2001 سے اب تک امن میں آڑے آئی ہیں، تو کالم اتنا لمبا ہوجائے گا کہ پڑھنا محال ہوجائیگا۔ اس لیے اس محدود وقت میں یعنی Agreement for bringing peace to Afghanistan کے معاہدے سے یا اس معاہدے کے لئے مذاکرات سے اب تک۔

یہ معاہدہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے اسلئے کہ افغان سرزمین پر پچھلے چالیس سال سے سوائے کشت و خون کے کچھ بھی نہیں ہوا ہیں، یہ معاہدہ امن کی طرف ایک بڑی پیشرفت سمجھی جاتی تھی۔ اگر اس دوران اور بعد میں یہ بلنڈرز نہیں ہوجاتی یا ہوئی تو بہت سی معصوم انسانوں کی خون کو بچھایا جاسکتا تھا یا بچھایا جاسکتا ہیں۔

اس آمن عمل میں پہلی بلنڈر یا کوتاہی یہ سرزد ہوئی کہ امریکہ اور طالبان کے مذاکرات تو ہورہے تھے لیکن ایک بڑے حصہ دار کو یعنی افغان حکومت کو دعوت تک نہ دی گئی۔ جس کی وجہ سے امریکی حکام کی امن کیلئے مخلصانہ کردار پر سوالات کھڑے ہوئے۔ دوسری بات یہ کہ اگر امریکہ افغان حکومت کو اپنے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھا دیتا تو ممکن ہے کہ طاقت کی لڑائی سے افغان سرزمین بہت حد تک بچھی جاسکتی تھی۔ اسکے علاوہ افغانستان کی عوام کو اپنے ملک کی مستقبل کے متعلق چمگوئیوں میں کمی آجاتی اور پریڈکشن کرنے میں آسانی ہوجاتی۔ اگر یہ مذاکرات کامیابی سے ہمکنار ہوتے، جس طرح ہوچکے ہیں اور کابل حکومت اور طالبان کی بھی بات ہوجاتی یعنی ممکنہ ڈیل ہوجاتی، جو نہیں ہوا ہیں اور نہ ہونے کی کوئی امید ہیں، تو بڑی حد تک انسانی خون کو بہانے سے بچھایا جاسکتا تھا۔ لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ پچھلی دفعہ جب امریکہ اسطرح سے نکلا اور کوئی حل نکالے بغیر چلا گیا تو اس سے ایک تو خون ریز خانہ جنگی نے جنم لیا تھا، دوسری ایک کثیر آبادی دوسرے ملکوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوچکے تھے، تیسری رہی سہی کسر انسانی سمگلروں نے پوری کی تھیں۔ اسکے بعد بھی جو غریب و مزدور باقی رہے وہ وار لارڈز کے نشانے بنے۔ اگر اس دفعہ پہلے دن سے افغان حکام کو بھی اپنے مذاکرات میں حصہ دار بنائے جاتے تو شاید اب اسطرح کے چیزوں کی گنجائش نہ رہ جاتی۔ اگر امریکی حکام اپنے اور طالبان کے مذاکرات میں افغان حکومت کو بھی مذاکرات کا حصہ بنا دیتے، تو ایک تو دونوں کو کسی ممکنہ حل پر مجبور کا جاسکتا تھا، اس کے علاوہ اب جو صورتحال پیدا ہوئی ہیں کم از کم یہ نہ ہوتی، کہ ایک طرف بھی بے لچک اور دوسرا بھی بے لچک۔

اس بلنڈر یعنی افغان حکومت کو اپنے اور طالبان کے مذاکرات میں شامل نہ کرنے کے بعد دوسرا بلنڈر یہ ہوا کہ مذاکرات میں جلدی سے کام لیا گیا اور مستقبل کے حوالے سے طالبان سے کوئی خاص وعدہ وعید نہیں کیا گیا، بلکہ صرف اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کی گئی کہ آئیندہ افغانستان کی سرزمین امریکہ کے خلاف استعمال نہیں ہوگی اور اس کی ذمےداری طالبان سے لی گئی۔

تیسرا بلنڈر یہ کی جا رہی ہے کہ انخلا میں جلدی کی جا رہی ہے اور خلا کو پر کرنے کےلئے کوئی میکینزم یا طریقہ کار نہ تشکیل دی گئی ہیں اور نہ کوئی ایسا سوچ پایا جاتا ہے۔

چوتھا بلنڈر یہ ہوا کہ امریکہ ڈیل کرتے وقت شکست خوردہ کی حیثیت سے ڈیل کر بیٹھے، جس سے طالبان فاتحین بن گئے اور انکے مورال میں کافی اضافہ ہوا۔ جسکی وجہ سے وہ اب اپنی من مانی کر رہے ہیں اور کسی لچک کا مظاہرہ نہیں کر رہے ہیں۔

امریکہ کی جلدی انخلاء اور شکست خوردہ ڈیل کی وجہ سے افغان عسکر کا مورال بھی گرا۔ اور پانچواں بلنڈر یہ کی جا رہی ہیں کہ افغان عسکر کا مورال بہتر بنانے کے لیے کوئی نیا اور بہتر طریقہ استعمال نہیں کی جارہی ہیں اور پروانہ بے کار ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ افغانستان کی سرزمین کو محفوظ نہیں بنا سکتے ہیں۔

2: آراء کا اختلاف
افغانستان کے باسی اس وقت مختلف آراء میں بھٹی ہوئی ہیں اور ہر کوئی چاہتا ہے کہ وہ ہوجائے جس میں اسکی بہتری ہوں۔

جیسا کہ عوامی سطح پر بہت بڑے حلقے کا خیال ہے کہ اب امن ہونی چاہئے، جنگ و جدل کی فضاء بہت دیکھی۔ بہت سے پیارے اس بدامنی کے آگ میں جلس گئے، بہت سے لاشیں اٹھائیں، اب اور برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ وہ طاقت کی لڑائی کا حصہ نہیں بننا چاہتے، نہ اس میں اسے کوئی فائدہ دیکھائی دیتی ہیں۔ اس ہم خیال حلقے کا اس سے بھی کوئی سروکار نہیں، کہ حکومت کس کی بننی چاہیے؟ اسکا حکومت سے کوئی سروکار نہیں مگر امن اس کے لئے سب کچھ ہیں۔

طالبان کا خیال ہے کہ حکومت امریکہ کا کٹھ پتلی ہیں اور اس کے اشارے پر ہے۔ اگرچہ امریکہ اب جا رہی ہے لہذا اسے بھی جانا چاہیے۔ اسکا یہ بھی خیال ہے کہ اشرف غنی کا استعفی زلمے خلیل زاد کی جیب میں پڑی ہوئی ہے اور جب امریکہ چاہیے اسے چلتا کرسکتےہیں۔ طالبان کا شاید یہ بھی خیال ہے کہ بیرونی طاقتوں سے ہم لڑ چکے ہیں، مشکلات ہم نے سہی ہیں اور حکومت کوئی اور کریں درست نہیں۔
طالبان سمجھ رہی ہیں کہ اس موجودہ سیٹ اپ کا حصہ بننا مطلب اپنا بیانیاں دفن کروانا ہیں۔ مگر، کیا وہ بعد میں جب اپنا اسلامی نظام نافذ کرے گی تو موجود عہدیداروں کو اسکا حصہ دار بنائےگی یا نہیں؟ یہ ابھی کلئیر نہیں۔ کیونکہ طالبان نے سارے پتے سینے سے لگائے رکھے ہوئے ہیں اور ابھی کچھ بتانے کے حق میں نہیں۔

اشرف غنی حکومت سمجھ رہی ہے کہ کہ ہماری حکومت چونکہ ایکشن کے ذریعے سے آئی ہیں اور ہمیں عوام کا اعتماد حاصل ہیں، اسلئے ہم سے حکومت چھوڑنے کی بات نہ کی جائے۔ اور اگر کوئی حکومت چاہتا ہیں تو الیکشن میں آکر جیت لے۔ افغان حکومت سمجھ رہی ہے کہ طالبان پر پاکستان کا کنٹرول ہے اور وہ جو چاہے اس سے منوا سکتے ہیں۔ اسلئے بار بار پاکستان کے متعلق نئی نئی باتیں کررہی ہیں۔ مگر انٹرا-افغان امن عمل میں کوئی لچک دیکھانے کے لئے تیار نہیں۔ بلکہ پاکستان پر زور دے رہے ہیں کہ طالبان کو کنٹرول کریں۔

شمالی اتحاد چونکہ اب طاقت تو نہیں رہ چکی ہے اور اسکی قیادت ایک بڑھے کے ہاتھ میں ہیں، جو اب اسکو دوبارہ اتنی کم مدت میں طاقت نہیں بنا سکتی۔ دوسری جانب اسے اسکے کئے گئے مظالم کھا رہی ہیں کہ ہم نے تو یہ یہ مظالم کئے تھے اور طالبان کا رویہ اب کیا ہوگا؟ اسے اپنی زندگی پیاری ہے اور اس کو بچھانے میں لگے ہوئے ہیں۔

اشرف غنی اور طالبان ایک دوسرے کو راستہ نہیں دیں رہی ہیں۔ طالبان کا خیال ہے کہ ہم امریکہ جانے کے بعد کچھ ہی مہینوں میں پورے افغانستان پر کنٹرول حاصل کرلے گے، اسلئے لچک کا مظاہرہ کرنا اور اس حکومت کو کوئی رعایت دینا غلطی ہوگی۔ پاکستان، چائنہ، ماسکو اور ترکی اس وقت افغانستان میں امن کے حامی ہیں اور اس کی مفادات امن سے جڑے ہیں نہ کہ بدامنی سے۔ اسلئے وہ سرتوڑ کوششیں کر رہےہیں کہ انٹرا-افغان مذاکرات کامیاب ہوں مگر دونوں فریقین خصوصی طور پر اشرف غنی کسی لچک کا مظاہرہ نہیں کر رہے ہیں۔ اشرف غنی کسی پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں۔ وہ ہر گز صدارت کی کرسی کو چھوڑنے کے حق میں نہیں۔ اس بے لچک رویوں کی وجہ سے افغانستان جہنم کی طرف جا رہی ہیں۔ ملک میں ایک طویل مدتی خانہ جنگی کی تیاری ہورہی ہے اور کوئی اسے رکھوانے والا نہیں۔ مختلف آراء کا ہونا جہاں جمہوریت کا حسن مانا جاتا ہے، تو دوسری جانب افغانستان میں عذاب کا حسن بن رہا ہیں اور پورا افغانستان جہنم کی آگ میں جاتے دیکھ رہے ہیں۔

Sadiq Amin
About the Author: Sadiq Amin Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.