ماضی میں ہم نے موجودہ حکمران جماعت واتحادیوں سمیت
اپوزیشن کی کئی جماعتوں کو سپریم کورٹ ، قومی اسمبلی ،پاکستان ٹیلی ویژن
اور دیگر اہم سرکاری عمارتوں پر حملہ آور ہوتے دیکھا ہے ۔اِس کی علاوہ چند
جماعتیں ایسی بھی تھیں اوراب بھی موجود ہیں جنہوں نے بوری بند لاشوں کی
سیاست کی اور اِس کے علاوہ جودشمن ممالک کی خفیہ ایجنسیوں سے روابط رکھنے
میں ملوث رہی ہیں مگر اِن میں کچھ آج بھی قائم و دائم ہیں اور اُن پر کسی
قسم کی کوئی پابندی عائد نہیں کی گئی ہے۔
جہاں تک وفاقی حکومت کی طرف سے مذہبی وسیاسی جماعت تحریک لبیک پاکستان (TLP)پر
پابندی عائد کرنے کی بات ہے تو اِس معاملے کو اب بھی زیر التوا ء رکھا
گیاہے اورآئین کے آرٹیکل 17(2)کے تحت اِ س معاملے کو تکمیل تک نہیں پہنچایا
جاسکا ۔شاید اِس کی بڑی وجہ موجودہ حکومتی کابینہ میں اختلافات کا سامنے
آنا بھی ہے کیونکہ حکومتی فیصلہ سے ایسا معلو م ہوتا ہے کہ حکومتِ وقت نے
تحریک لبیک پر پابندی جلد بازی میں لگائی ہے اور اِس پابندی کو ختم کروانے
کیلئے وہ خود نہیں بلکہ اعلیٰ عدلیہ کی طرف دیکھ رہی ہے تاکہ وہ اِس پیچیدہ
معاملہ سے ا علیٰ عدلیہ کے سہارے بچ نکلے۔
اگر یکم اگست 2015کو علامہ خادم حسین رضوی ؒ (مرحوم) کی قیادت میں قائم
ہونے والی مذہبی وسیاسی جماعت تحریک لبیک پاکستان کا موزانہ 25اپریل 1996کو
موجودہ وزیراعظم جناب عمران خان کی قیادت میں وجود میں آنے والی سیاسی
جماعت پاکستان تحریک انصاف (PTI)سے کیا جائے تو صاف نظر آئے گا کہ صرف پانچ
سال کے عرصے میں تحریک لبیک کی مقبولیت کا گراف جو ہے وہ تحریک انصاف کا
پندرہ سال بعد بھی نہیں تھا۔
تحریک لبیک پر پابندی عائد کرنے کے بعد سے اب تک کچھ قومی و صوبائی اسمبلی
کی نشستوں پر ضمنی الیکشن ہوئے ہیں۔ اِن میں خاص طور پر قومی اسمبلی کے دو
حلقوں جن میں NA-249کراچی اور NA-75 ڈسکہ (سیالکوٹ)شامل ہیں ۔اِ ن دونوں
حلقوں میں تحریک لبیک کی کارکردگی پچھلے الیکشن سے کافی بہتر رہی ہے ۔اِسی
طرح صوبائی حلقوں میں ہونے والے ضمنی الیکشن میں بھی تحریک لبیک کے ووٹ بنک
میں پہلے سے اضافہ دیکھا گیا ہے۔
اِسی طرح اب 25جولائی کو آزاد جموں و کشمیر میں قانون ساز اسمبلی کے جنرل
الیکشن ہونے جارہے ہیں ۔ جہاں رجسٹرڈ جماعت کی حیثیت سے تحریک لبیک بھی
پہلی بار الیکشن میں حصہّ لینے جارہی ہے ۔یہاں ایک بات قابل ذکر ہے کہ
الیکشن کے شیڈول جاری ہوتے ہی محکمہ داخلہ آزاد جموں و کشمیر نے تحریک لبیک
پر الیکشن میں حصہّ لینے پر پابندی کا نوٹیفکیشن جاری کیا ۔جسے پہلے الیکشن
کمیشن جموں و کشمیرنے مسترد کیا اور اُس کے بعد تحریک لبیک کی طرف سے سپریم
کورٹ آزاد جموں و کشمیرسے رجوع کیا گیا جس پر عدالتِ عظمیٰ نے وزارت داخلہ
کا نوٹیفکیشن منسوخ کرتے ہوئے تحریک لبیک کو آئندہ الیکشن میں مکمل طور پر
حصہّ لینے کی اجازت دی اور یہ بھی واضح کیا ہے کہ تحریک لبیک کوئی ’’کالعدم
‘‘ جماعت نہیں ہے۔اب دیکھنا یہ ہوگا کہ تحریک لبیک 25جولائی کو آزاد جموں و
کشمیر قانون ساز اسمبلی کے الیکشن میں کتنی نشستوں پر کامیابی حاصل کرپاتی
ہے ۔یاد رہے کہ تحریک لبیک کی نمائندگی سندھ اسمبلی میں بھی ہے جہاں اِن کے
تین ایم پی اے موجود ہیں جن میں سے دو جنرل نشستوں پر اور ایک مخصوص خواتین
نشست پر رکن اسمبلی ہیں۔
وفاقی حکومت کی طرف سے تحریک لبیک پر پابندی کے بعد اِس مذہبی وسیاسی جماعت
کے بنک اکاؤ نٹس منجمد کردئیے ہیں اور تقریباً تمام تر لیڈر شپ کو ایم پی
او کے تحت نظر بند یا دہشت گردی کے مقدمات میں گرفتا ر کرلیا گیا ہے ۔مگر
اِس معاملے میں عدالتِ عالیہ لاہور کے تین رکنی ــ’’ریویو بورڈ‘‘جوکہ جسٹس
ملک شہزاد احمد خان ، جسٹس عالیہ نیلم اور جسٹس صداقت علی خان پر مشتمل
تھا،اِس نے گذشتہ دنوں امیر تحریک لبیک پاکستان علامہ سعد حسین رضوی کی نظر
بندی میں حکومت ِ پنجاب کی مزید توسیع کیلئے دائر ریفرنس کو مسترد کردیا
تھا۔جس کے بعد اب قوی امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ امیر تحریک لبیک پاکستان
علامہ سعد حسین رضوی 10جولائی کو رہا ہوجائیں گے ۔
دوسری طرف حکومت ِ وقت نے جو پنجاب حکومت کی سفارش پر تحریک لبیک پر پابندی
عائد کی تھی اُس فیصلے پر وفاقی کابینہ نے نظرثانی کیلئے معاملہ وزارت ِ
داخلہ کی ’’ریویو کمیٹی‘‘ کے سپرد کردیا ہے ۔جس نے پابندی کے حوالے سے
دونوں طرف کے دلائل سننے کے بعد اپنی سفارشات مکمل کرلی ہیں جو آئندہ وفاقی
کابینہ کے اجلاس میں پیش کردی جائے گی ۔ ویسے بھی حکومت ِ وقت نے آئین ِکے
آرٹیکل 17(2)کے تحت اب تک کاروائی مکمل نہ کی ہے اور اب تحریک لبیک بھی
اِســ’’ پابندی‘‘ کو اعلیٰ عدالتوں کے سامنے اس بنیاد پر چیلنج کرسکتی ہے
کہ چند افرادپر دہشت گردی یا دیگر الزامات کی بناء پرایک مذہبی وسیاسی
جماعت کو ختم کرنا ۔اِس جماعت کے بنیادی حقوق پامال کے مترادف ہوگا۔
میری ذاتی رائے میں حکومت ِ وقت کو چاہئے کہ وہ تحریک لبیک کو ’’چند
لوگوں‘‘ کی خواہش پر دیوار سے لگا نے کی کوشش نہ کرے کیونکہ سدا حکمرانی
صرف رب العالمین کی ہے۔پہلے بھی ایساکئی باردیکھا جاچکا ہے کہ جن جماعتوں
یاتنظیموں پر ماضی میں پابندی لگائی گئی تھی وہ آج بھی کسی نہ کسی دوسرے
نام سے کام کررہی ہے۔آخر میں ، میں دُعا کرناچاہوں گا کہ اﷲ پاک ہمارے
حکمرانوں کوانتقام کی بجائے پاکستان کے مفاد میں اور انصاف پر مبنی فیصلے
کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین ․․․(ختم شُد)․․․
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
|