خاموشی۔۔۔۔سننا ٹے۔۔۔عالم ہو کا منظر۔۔۔خوف وہراس کے سائے
ہر طرف چھائے ہوئے ابھی چند ایام ہی گذرے تھے۔وہ ایام اسے آج بھی یاد ہیں
جب ہر طرف پژمردگی و بے حسی چھائی ہوئی تھی۔وہ کلفت و بیچارگی، بے بسی اور
مجبوری، اضطراب و بے چینی، کرب اور آشفتہ سری کے وہ منظر اس کی آنکھوں کے
سامنے آج بھی گھومتے ہیں۔
اسے یاد ہے وہ کورو نا کی دہشت زدہ مناظر جب انسان انسان سے خوف کھا رہا
تھا ۔عجیب سراسیمگی اور بے چارگی میں وہ بستر پر پڑا تھا۔انسانوں کے جم
غفیر میں اسے تنہائی کا احساس جاگا۔اپنے گھر میں وہ تنہا ویکتا بڑا سوچ رہا
تھا ۔بھیڑ میں بھی اکیلے پن کا آج اسے احساس ہوا۔وہ تنہائی کے صحیح مفہوم
سے آج آشنا ہوا۔وہ سوچنے لگا کہ انسان کی ہمدردی کو آج کیا ہوا۔۔۔؟آج اس کے
تمام سہارے ٹوٹ چکے تھے۔۔۔۔۔دوست احباب نہ خیر خواہ ،رشتےدار نہ پڑوسی آج
اس کے اطراف کوئی موجود نہیں تھا۔اسے لگا کہ یہ منظر گو یاقیامت صغریٰ کا
ہو جہاں آج کوئی کسی کا نہیں۔۔۔۔۔!!!
اس کا احساس اسے پہلے بھی تھا مگر آج پھر اکیلے کئے جانے۔۔۔۔۔ اور اکیلے
ہوجانے ۔۔۔۔۔کا مطلب اسکے سمجھ میں آیا۔ایسا نہیں تھا کہ اسے اکیلے کئے
جانے کااحساس نہیں تھا بلکہ یہ اس سے زیادہ کون سمجھ سکتا تھا۔آج خداوند
متعال نے سب کو اکیلے کر دیا۔۔۔۔۔اکیلے کئے جانے اور اکیلے ہونے سے سب واقف
ہوگئے۔۔۔۔....
انسان کتنے خود غرض ہیں کسی فرد کو تنہا ویکتا چھوڑ دیتے ہیں اور اکیلے
رہنے کا الزام اس پر تھونپ دیتے ہیں۔ہمدردی سے پہلوتہی کرتے ہیں اور سرد
مہری کا ٹھپا اس پر لگا دیتے ہیں۔ملنساری سے بھاگتے ہیں اور پرے رہنے و
دوری بنائے رکھنے کا الزام اس پر لگاتے ہیں۔اخوت سے آنکھیں چراتے ہیں اور
پتھردل اسے گردانتے ہیں۔محبت و اپنائیت سے کتراتے ہیں اور کٹھور اس مانتے
ہیں۔۔۔۔۔
کتنی عجیب بات ہے کہ ہم ہمدردی، اپنائیت، اخوت بھائی چارگی، ملنساری، عزت،
دوستی کی امید اس سے کرتے ہیں جس کو ہم نے سوائے نفرتوں، حقارتوں، بے
اعتنائیوں کے کچھ دیا نہ ہو۔اورجس کو صرف بے رحمی و بے عزتی سے نوازا ہو۔
اور شق القلبی کا سلوک اس سے روا رکھا ہو۔۔۔۔۔۔۔
جن کے حقوق دبائے ہوں ان سے حقوق کی تمنا۔۔۔
جن سے بے رحمی کا سلوک ان سے ہمدردی کی چاہ۔۔۔۔ جن سے قطع تعلقی ان سے تعلق
کی امید۔۔۔۔جن سے بے حسی کا سلوک ان سے اپنائیت کی آرزو۔۔۔۔جن سے بے رخی کا
رویہ ان سے ملنساری کی طلب۔۔۔۔جن سےبے عزتی کا سلوک ان سےعزت کی توقع۔۔۔۔جن
کی اندر ہی اندر بیخ کنی ان سے سہاروں اور مدد کی درخواست۔۔۔۔۔
انسانوں کی اس بدلتے رویوں کے تعلق سے وہ سوچتا رہا کہ اسے وہ کیا نام دے۔
چہروں پر چہرے اوڑھنے والے نقاب پر نقاب چڑھانے والوں کا کوئی نام تو
ہو۔۔۔۔۔۔
ایسا تو نہیں کہ حالات سے سے نبرد آزما نہ ہو نے سے وہ کتراتا ہو۔وہ ارادوں
کاپکا،مضبوط اعصاب اورعالی حوصلہ کا مالک تھا۔اسے سنگین حالات سے مقابلہ
جوئی کا کافی تجربہ تھا۔خداوند متعال کے مضبوط سہاروں کا اسے ایقان کامل
تھا۔پروردگار کی بصیرت افروز قوت کے سہارے وہ تنہا آگے بڑھنے کا عزم رکھتا
تھا۔اور وہ حالات سے گذر گیا۔۔۔۔۔۔۔۔
زندگی نے ان گنت منفرد تجربات اس کے جھولی میں ڈال دئیے۔
آج اسی کی طرح کئ لوگ (ایام قرنطینہ) محصورئ مسکن میں گزارنے کا لطف بھی
اٹھا چکے اور تجربات سے بھی گذرے۔کئی لوگ اس کی طرح بستر پر پڑے گھر میں
تنہا ویکتا تھے۔بیمار ہونے کے باوجود خود ڈرائیو کرکے دوائیاں لائیں،خود
کھانا تیار کیا۔عمدہ کالونیزاور اپارٹمنٹ میں رہنے کے بعد بے سہارا زندگی
کی مدافعت سےوہ واقف ہوا۔آبادی میں جنگل کی زندگی۔۔۔۔۔۔۔!!جم غفیر میں تنہا
رہنا۔۔۔۔۔ !!یہ سبق قدرت نے اسے سکھلا دیا۔
وہ سوچنے لگا،آج اس محصور مسکن و ماوی کے ایام میں تنگ دلی،شقاوت،کرختی اور
شق القلبی کی وجہ سے انسان دربار خداوندی سے دھتکار دیاگیا ہے۔جن کو بے یار
و مددگار چھوڑ ا گیا،بےخانماں کیا گیا،دلوں کے دروازے جن کے واسطے مقفل کئے
گئے۔ مسلم ممالک اور جنت نشاں ریاست ہند کی حالت زار اس کے سامنے گھومنے
لگی۔کس طرح ہم نے اپنا ردعمل ان واقعات پر ظاہر کیا۔لفظی کاروائیاں۔۔۔۔آہ
وزاریاں۔۔۔۔ لو آج خدائے لم یزل نے اپنی عبادت گاہوں کے دروازے سب کے لئے
بند کردئیے۔ مساجد کے منابر سے ہمیں پرے کردیا۔دروازے بند کردینے کی خصلت
سے سب واقف ہو گئے۔چاہے وہ درگزر کرنے کے ہوں،خلوص وعقیدت کے ہوں،شفقت و
رحمدلی کے ہوں،معافی وخواستگاری کے ہوں، پشت پناہی اور سہاروں کے ہوں۔۔۔۔۔
بندے ابلیس کی طرح کتنی عبادت کرلیں اور کسی بھی قسم کا کتنا بھی گھمنڈ
کرلے اللّٰہ کی رحمت اور وسیع دامنی کا مقابلہ کر نہیں سکتے ہیں۔غفور و
رحیم،قدوس و مالک نہیں ہوسکتے ہیں۔
اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود ہم پھر بھی اپنی روش سے باز نہیں آتے ہیں تو
قصور کس کا ہے ۔ مالک وخالق انتباہ پر انتباہ کئے جارہا ہے مگر ہم سنبھلنے
کو تیارنہیں ہیں۔
وہ اٹھا اور خدائے یزدی کے سامنے سجدہ ریز ہوگیا۔۔۔۔۔کہ وہ مالک کل
ہے۔۔۔۔۔۔دریوزہ گری اسی کے سامنے زیب دیتی ہے۔ آج اللّٰہ کے وانصاف و رحمت
پر اسے مزید یقین ہوگیا۔ تیرا سالہ طویل ایام نے آج سب کو وہاں لا کھڑا کیا
جہاں کبھی وہ اکیلا و تنہا کھڑا دنیا کو حسرت و یاس سے امید محبت سے
اپنائیت و خلوص سے دیکھتا رہا اور تڑپتا رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔ اسے وہ الفاظ
یکلخت یاد آگئے آج کسی کا کوئی نہیں سب اکیلے ہیں۔۔۔۔۔۔!!!!!
|