ہیٹرک

پی ٹی آئی کوبڑی کامیابی ملی ہے۔ الیکشن ہارتے تو پی ڈی ایم میں نئی جان پڑ جاتی اوروزیراعظم پاکستان سے استعفے کا مطالبہ زور پکڑ جاتا۔ اس جیت کے سہارے اگلے چند ماہ آسانی سے گزر جائیں گے۔ پی ٹی آئی کو مگر یہ سوچنا ہوگا کہ آزادجموں وکشمیر میں ان کی پارٹی تنظیمی سطح پر بہت کمزور ہے، اگر چند اچھے امیدوار انہیں نہ ملتے توسادہ اکثریت نہ بن پاتی۔ تحریک انصاف کو کشمیر میں پہلی بار موقعہ ملا ہے، عمران خان کو اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے

Syed Haseeb Shah

تحریک انصاف نے آزاد جموں کشمیر کا الیکشن جیت کر اپنی سیاسی کامیابیوں کی ہیٹرک کر لی ہے۔ تین سال پہلے پاکستان کے عام انتخابات میں کامیابی، پھر گلگت بلتستان میں جیت کر حکومت بنانا اور اب آزاد جموں کشمیر میں انتخابی معرکہ مار لینا۔

تحریک انصاف کے حامیوں کی مسرت دیدنی اور قابل فہم ہے۔ وہ ہر جیت کو عمران خان کی کرشمہ سازی کا نتیجہ گردانتے ہیں، چاہے فتح میں چند دن پہلے پارٹی میں آنے والے پیراشوٹر الیکٹ ایبلز کا حصہ ہو۔ دلچسپ بات تینوں انتخابات میں تحریک انصاف کی مخالف جماعتوں کاملا جلا ردعمل ملا جلا ہے۔ مسلم لیگ ن کا تینوں انتخابات میں ہارنے کے بعد یہی بیانیہ کہ دھاندلی ہوئی، ہم ان نتائج کو نہیں مانتے، اس پر احتجاج کر یں گے۔ ان جملوں کے ساتھ مریم نواز صاحبہ کی مخصوص طنزیہ مسکراہٹ بھی تصور میں لے آئیں۔ پیپلز پارٹی کا بیانیہ: یہ سلیکٹڈ ہے، اسے دھاندلی کے ساتھ جتوایا گیا، الیکشن کمیشن اسے روکنے میں ناکام رہا، وغیرہ وغیرہ۔ ان فقروں کے ساتھ بلاول کی روایتی بے وقت، بے محل جگمگاتی مسکراہٹ سوچ لیں۔

مولانا فضل الرحمن کی خشونت آمیز آنکھوں، کھردرے سخت چہرے اور شکن آلود پیشانی کے ساتھ فصیح اردو میں ادا کئے گئے شعلہ بار فقرے ہی ان کا بیانیہ ہیں۔ جماعت اسلامی کا بیانیہ البتہ لبوں پر مسکراہٹ بکھیر دینے والا ہوتا ہے، " اگرچہ الیکشن میں جماعت اسلامی کو شکست ہوئی، ہمیں کوئی سیٹ نہیں ملی، مگر جس استقامت کے ساتھ ہمارے امیدواروں نے مقابلہ کیا، وہ قابل ستائش ہے، کارکن اپنا حوصلہ بلند کریں اور(ووٹ نہ ملنے، سیٹ نہ جیتنے کے باوجود اگلے بیس تیس برسوں کے لئے) ایسی استقامت کا مظاہرہ کرتے رہیں۔ قوسین والا جملہ ظاہر ہے خاکسار کا ہے، ایسی حقیقت بیانی جماعت کے ترجمانوں سے توقع نہ کریں۔

مسلم لیگ ن کے میڈیااور سوشل میڈیا پر حامی پچھلے چوبیس گھنٹوں سے مسلسل یہ تجزیہ فرما رہے ہیں، " آزاد کشمیر کے الیکشن میں تو ہوتا ہی ایسے ہے، یہاں کا ووٹر مختلف انداز میں چیزوں کو دیکھتا ہے، یہاں بیانیہ کا عمل دخل نہیں اور یہ ہار مریم نواز کے بیانیہ کی ہار نہیں ہے، وغیرہ وغیرہ۔" یہ راگ سنتے سنتے جب کان پک گئے تو ایک صاحب سے پوچھا، ایمانداری سے یہ بتائیں کہ اگر اس الیکشن میں مسلم لیگ ن جیت جاتی یا کم از کم اس کی سیٹیں دگنی ہوتی اور معلق اسمبلی والی صورتحال بنتی تو کیااسے مریم نواز کے بیانیہ کی فتح نہ کہا جاتا؟ تب یہ زمینی حقائق، آزاد کشمیر کے معروضی سیاسی حالات، ووٹر کا مختلف زاویہ نظر وغیرہ یاد رہتا؟ ان صاحب کا جواب منیر نیازی کی مشہورمختصر نظم کی ایک سطر جیسا تھا، "اک لمبی چپ اور تیز ہوا کا شور"۔

ان انتخابات میں تین چار ایسے نکات اتنے واضح ہوئے کہ سیاسی کارکنوں کو ان پر توجہ دینی چاہیے۔ سب سے تشویشناک رجحان ہمارے سیاستدانوں کی تقریروں اور بیانات میں بدتمیزی، غیر شائستگی اور پھکڑ پن کا غالب آ جانا ہے۔ ہے۔ دونوں بڑی پارٹیوں کے قائدین یعنی بلاول بھٹو اور مریم نواز نے جی بھر کر تند وتیز تقریریں کیں، عمران خان پر گھٹیا ذاتی حملے کئے اور کوشش کی کہ اپنے سے دوگنا بڑے سیاستدان کی جتنی تضحیک کی جا سکے، کر ڈالیں۔ انہیں ملتے ہیں بدتمیزی کے چارٹ کے مطابق دس میں سے آٹھ نمبر۔ بلاول کو آدھا نمبر رعایتی دیا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے مخصوص مصنوعی لب ولہجہ میں منہ بھر بھر کر وزیراعظم پاکستان کو دشنام سناتے رہے۔ جوابی طور پر تحریک انصاف کے دوسری صف کے رہنمائوں علی امین گنڈا پور، مراد سعید وغیرہ نے بھی بدتمیزی، غیر شائستگی اور بازاری زبان استعمال کرنے کی تمام حدیں توڑ ڈالیں۔ گنڈا پور دوسروں سے مزید آ گے بڑھ گئے۔ بدزبانی کے سکیل پر ان کے دس میں سے نو نمبر پکے ہیں۔ کسی بھی مہذب جمہوری ملک میں ایسی زبان استعمال کرنے والوں کے لئے سیاست کرنا محال ہوجاتا۔ افسوس کہ ہمارے ان سیاستدانوں کو اتنا بھی اندازہ نہیں کہ آزاد جموں وکشمیر کی کیا حساسیت اور اہمیت ہے، وہاں کیا بات کرنی چاہیے؟

آزاد کشمیر میں بڑی جماعتوں نے اچھے جلسے کئے۔ مریم نواز شریف کے اکثر جلسے بڑے اور بھرپور تھے، کم وبیش یہی حال بلاول بھٹو کا تھا، جبکہ پی ٹی آئی کے بھی جلسے اچھے رہے، عمران خان کا جلسہ زوردار تھا۔ انتخابی نتائج سے مگراندازہ ہوا کہ جلسوں سے ووٹوں کا اندازہ لگانا ممکن نہیں۔ ن لیگ نے بعض شہروں میں بڑے جلسے کئے، وہاں کارکردگی اوسط سے بھی کم رہی۔ اس سے معلوم ہوگیا کہ کیوں پی ڈی ایم کے پاکستان میں کامیاب جلسوں کے باوجود عوام اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ کھڑے نہیں ہوئے؟ ہمارے ہاں جلسہ کامیاب کرنے کے مختلف طریقے ہیں۔ آس پاس کے مختلف علاقوں سے لوگ اکٹھے کر کے لائے جاتے ہیں۔ ووٹ ڈالنے کے لئے ہر ایک کو اپنے مخصوص حلقہ میں جانا پڑتا ہے، یوں اصلیت کھل کر سامنے آ جاتی ہے۔ نوجوان صحافیوں، بلاگرز، وی لاگرز کو اب سمجھ لینا چاہیے کہ الیکشن نتائج کی پیش گوئی کرنے کے لئے جلسوں، جلوسوں کی اہمیت فیصلہ کن نہیں۔ اصل عوامل اور ہیں۔

مریم نواز نے گلگت بلتستان میں بھی ایک خاص انداز کی جوشیلی، سخت تنقیدی تقریریں کیں۔ وہاں بھی ان کی یہ سب زبانی کلامی محنت بیکار گئی۔ آزاد کشمیر میں انہیں مزید مایوسی اور شکست خوردگی کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کے حامیوں کو امید تھی کہ ایسی تقریروں سے ان کا سیاسی قد بڑھے گا یا اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ کامیاب ہوگا، وہ اب صف ماتم بچھائے خاموش بیٹھے ہیں۔ مسلم لیگ ن میں مریم نواز اور درحقیقت نواز شریف صاحب کے بیانیہ کی پزیرائی میں کمی آئے گی۔ یہ واضح ہوگیا کہ دو سال بعد ہونے والے عام انتخابات کے لئے یہ نسخہ کام نہیں دے سکے گا۔

پیپلزپارٹی نے بلاول بھٹو کو فعال کر دیا ہے، کشمیر الیکشن میں آصفہ بھٹو بھی ایکشن میں نظر آئیں۔ بلاول نوجوان اور محنتی ہیں، گراس روٹ لیول پر ان جلسوں، کارنر میٹنگوں وغیرہ سے پارٹی کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ بلاول کو مگر کوئی نیا بیانیہ دینا چاہیے۔ ان کے جملے اتنے گھسے پٹے، روایتی اور بے رنگ، بے رس ہوتے ہیں کہ تقریر سننا آزمائش بن جاتی ہے۔ آکسفورڈ سے پڑھنے والے نوجوان سیاستدان کو اپنی تقریروں میں نیا ڈویلپمنٹ ماڈل پیش کرنا چاہیے، اقتصادی منصوبہ، تعلیم، صحت وغیرہ میں اصلاحات کی باتیں۔ پیپلزپارٹی کی کشمیر الیکشن میں کامیابی زیادہ تر تجربہ کار، مضبوط الیکٹ ایبلز کی مرہون منت ہے۔ بیشتر لوگ وہی جیتے ہیں جو پہلے کئی بار کامیاب ہوچکے، وزیر رہے اور اپنے حلقوں میں گہرا اثر رکھتے ہیں۔ اس کے باوجود ماننا چاہیے کہ پیپلزپارٹی نے کسی حد تک دم خم کا مظاہرہ کیا ہے۔ بلاول بھٹو کو پنجاب میں محنت کرنی چاہیے، مگر انہیں نئے بیانیہ اور نئے سپیچ رائٹر کے ساتھ آنا چاہیے۔ ان کے موجودہ اتالیق اور تقریر لکھ کر دینے والے ماٹھے ہیں۔

پی ٹی آئی کوبڑی کامیابی ملی ہے۔ الیکشن ہارتے تو پی ڈی ایم میں نئی جان پڑ جاتی اوروزیراعظم پاکستان سے استعفے کا مطالبہ زور پکڑ جاتا۔ اس جیت کے سہارے اگلے چند ماہ آسانی سے گزر جائیں گے۔ پی ٹی آئی کو مگر یہ سوچنا ہوگا کہ آزادجموں وکشمیر میں ان کی پارٹی تنظیمی سطح پر بہت کمزور ہے، اگر چند اچھے امیدوار انہیں نہ ملتے توسادہ اکثریت نہ بن پاتی۔ تحریک انصاف کو کشمیر میں پہلی بار موقعہ ملا ہے، عمران خان کو اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ انہیں چاہیے کہ کشمیر کے لئے بڑا پیکیج دیں اور لوگوں کی زندگیاں آسان بنانے کی کوشش کریں۔ وزیراعظم آزاد کشمیر کے لئے تقرر اہم ہے، تجربہ کاراہل آدمی کو یہ ذمہ داری سونپنی چاہیے۔ تحریک انصاف اگر کشمیر میں ڈیلیور کر سکے تو اس کا انہیں پاکستان میں بھی سیاسی طور پر فائدہ ہوگا۔

جماعت اسلامی کو اپنی انتخابی حکمت عملی اور ناکامی پر غور کرنا چاہیے۔ کیا وجہ ہے کہ یہ پارٹی ہر گزرتے دن کے ساتھ غیر متعلق اور غیر اہم ہوتی جا رہی ہے۔ اب تو حال یہ ہے کہ سیٹ تو درکنار، ان کا امیدوار پہلی پانچ پوزیشنوں میں بھی نہیں آ پاتا۔ باغ میں عبدالرشید ترابی والے معاملے کو بھی مس ہینڈل کیا گیا، واضح طور پر ذاتی مخاصمت اور عجلت آمیز جوشیلا ردعمل جماعت اسلامی کشمیر کی قیادت نے دکھایا۔ سلیقے سے یہ معاملہ سنبھالا جا سکتا تھا۔

گلگت بلتستان اور آزاد جموں وکشمیر کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ یہاں کے عوام اور ووٹراس جماعت کو ترجیح دیتے ہیں جو اسلام آباد میں حکمران ہو۔ یہاں کے باسی وفاق سے سیاسی مخالفت اور تنائو کو پسند نہیں کرتے۔ اس بار بھی پرانی روایت قائم رہی۔ س سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر بڑی اپوزیشن جماعتوں نے اسے زندگی موت کا مسئلہ کیوں بنایا؟ جب انہیں پہلے سے اندازہ تھا کہ یہ نتیجہ آئے گا تو پھر اپنی انرجی، وقت اور سیاسی قوت ضائع کرنے سے کیا حاصل ہوا؟ الٹا اپنا بھرم گنوا بیٹھے۔
 

Syed Haseeb Shah
About the Author: Syed Haseeb Shah Read More Articles by Syed Haseeb Shah: 53 Articles with 40439 views I am Student i-com part2.. View More