امریکہ کی افغانستان میں شکست

عائشہ احمد
بیس سال بعد طالبان نے امریکہ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا ۔یہ صرف امریکہ کی شکست نہیں بلکہ انڈیا کی بھی بڑی شکست ہے۔انڈیا میں صفِ ماتم بچھ گئی ہے۔انڈیا نے دو ہزار ارب ڈالر کی افغانستان میں سرمایہ کاری کی تھی۔انڈین میڈیا اسے پاکستان کی فتح قرار دے رہا ہے۔انڈیا کے افغانستان اور پاکستان کو توڑنے کے خواب چکنا چور ہوئے ہیں۔پوری دنیا کی نظریں افغان طالبان پر لگی ہوئی ہیں کہ افغان طالبان کا اگلا لائحہ عمل کیا ہوگا۔افغان صدر اشرف غنی تاجکستان فرار ہو چکے ہیں۔طالبان صدارتی محل پر قبضہ کر چکے ہیں ۔پورے ملک پر افغان طالبان قابض ہوچکے ہیں

۱۱ ستمبر 2001 امریکہ میں ہونے والے حملوں میں تقریبا تین ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے۔امریکہ نے ان حملوں کی ذمہ داری القاعدہ تنظیم کے سر غنہ اسامہ بن لادن پر عائد کرتے ہوئے افغانستان پر حملہ کیا تھا۔اسامہ بن لادن افغانستان میں موجود تھے،امریکہ نے دعوی کیاتھا کہ اسامہ بن لادن ہلاک ہوگئے ہیں۔طالبان تب پسپا ہوئے تھے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ افغان طالبان نے خود کو منظم کیا اور ملکی اور غیر ملکی فورسز کے خلاف جد و جہد شروع کی اور امریکہ کو مشکل وقت دیا۔بیس برس بعد یہ کہنا مشکل ہوگا کہ امریکہ اپنے مقاصد میں کتنا کامیاب ہوا ہے۔کیا امریکہ وہ اہداف مکمل کرنے میں کامیاب جس کو بنیاد بنا کر افغانستان پر حملہ کیا تھا۔اس کا جواب یقینا نفی میں ہوگا۔کیونکہ اس جنگ میں صرف انسانی جانوں کا ضیاع ہوا ہے۔

افغانستان میں جنگ کے دوران امریکہ نے اربوں ڈالر خرچ کیے۔کئی ممالک کے فوجیوں نے اس جنگ میں حصہ لیا۔لیکن امریکہ کو صر ف شکست ملی۔ایک سروے کے مطابق تقریبا بیس ہزار افغان شہریوں کی ہلاکت ہوئی۔اور پینتالیس ہزار افغان سیکیورٹی اہلکار مارے گئے ہیں۔اب تک چار لاکھ کے قریباافغانی نقل مکانی پر مجبور ہوئے تھے۔افغان جنگ کے دوران ملک سے باہر اپنے فوجیوں کی ہلاکت کا سامنا کرنا پڑا۔افغان جنگ کے دوران سے اب تک چوبیس سو امریکی فوجی جان سے گئے ہیں۔اور بیس ہزار کے قریب زخمی ہوئے تھے۔

نائن الیون کے بعد نیٹو فورسز اور امریکی افواج نے افغانستان پر چڑھائی کر دی۔افغانستان کی تاریخ بتاتی ہے کہ ّج تک اس سر زمین نے کبھی شکست قبول نہیں کی۔یہاں تک کہ سویت یونین کا یہاں ڈنکہ بجتا تھا لیکن انہوں نے بھی طالبان کے سامنے پسپائی اختیار کی تھی۔اس کے باوجود امریکہ نے طالبان کو دہشت گر د قرار دے کر افغانستان پر چڑھائی کر دی اوراس کا تورا بورا بنانا چاہا۔لیکن امریکی فوج کو شاید معلوم نہیں تھا کہ وہ کن سے پنجہ آزمائی کر رہے ہیں۔افغانی ایک مضبوط پہاڑ کی مانند ہیں جن سے ٹکرا کر صرف پاش پاش ہوا جس سکتا ہے اسے ٹکڑے ٹکڑے نہیں کیا جا سکتا۔دسمبر 2020 کو متحدہ عرب امارات میں ہونے والے مذاکرات میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ اب وہاں غیر ملکی فوج نہیں رہے گی۔اور پھر دنیا نے دیکھا پندرہ اگست 2021 کوافغان حکومت نے طالبان کے سامنے ہتھیار ڈالتے ہوئے افغانستان طالبان کے حوالے کر دیا۔اور یوں پورے افغانستان کا کنٹرول طالبان کے ہاتھوں میں آگیا۔طالبان نے تمام افغانیوں کے لیے عام معافی کااعلان کیا اور ملک میں جاری سرگرمیوں کو اسی طرح جاری رکھنے کوکہا گیا ہے۔ایک افغان وفد نے پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے ساتھ ملاقات کی اور افغانستان کے موجودہ حالات پر بات کی۔پاکستان نے مکمل تعاون یقین دہانی کروائی ہے۔

ماضی میں پاکستان اور افغانستان کے تعلقات بہت خراب رہے ہیں اور افغانستان انڈیا کے دباو میں آکر ہمیشہ پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کرتا رہا ہے۔جس کی وجہ سے پاکستان اور افغانستان کے تعلقات ہمیشہ کشیدہ رہے ہیں۔لیکن اب طالبان کی طرف سے پاکستان کو امن کا پیغام دیا گیا ہے۔تو پاکستان نے بھی اس کا مثبت جواب دیا ہے اور کہا ہے کہ پاکستان افغانستان میں امن قائم رکھنے کے لیے ہر ممکن طالبان کی مدد کرے گا۔

امید ہے افغانستان اور پاکستان کے درمیان تعلقات کا ایک نیا دور شروع ہوگا۔اور طالبان ماضی میں قائم کی گئی غلطیوں کو نہیں دہرائیں گے۔اور پاکستان کے ساتھ خوشگوار تعلقات قائم کرے گا
٭٭
 

Hafiz Usman Ali
About the Author: Hafiz Usman Ali Read More Articles by Hafiz Usman Ali: 10 Articles with 7404 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.