وشو گرو کا خواب دیکھنے والے سنگھ پریوار کے لیے سب سے
زیادہ پریشانی وزیر اعظم کی گرتی ساکھ ہے ۔ اس کو سنبھالنے کی ذمہ داری بی
جے پی آئی ٹی سیل کو سونپی گئی ۔ اس نے بڑی مکاری کے ساتھ معروف امریکی
اخبار نیو یارک ٹائمز کے پہلے صفحہ پر وزیر اعظم نریندر مودی کی تصویر کے
ساتھ انہیں ’دنیا کی آخری اورسب سے اچھی امید، دنیا کا مقبول ترین اور سب
سے طاقتور رہنما‘قرار دے دیا اوریہاں تک لکھ مارا کہ وہ ’ ہمارے یہاں ہمیں
فیض پہنچانے کے لیے آئے ہیں۔‘ امریکہ کو فیض پہنچانے کی خاطر وزیر اعظم
مودی کا وہاں جانا اس صدی کا سب سے بڑا لطیفہ تھا۔ بی جے پی کے آئی ٹی سیل
کا یہ پرانا دھندا ہے لیکن اس بار ان لوگوں نے بڑا ہاتھ مارا جس کے نتیجے
میں انگلیاں جل گئیں۔ یہ جھوٹی خبر دینک جاگرن کے پہلے صفحہ پر بنائی جاتی
تو وہ شکریہ ادا کرتا بلکہ اسی کو اگلے دن نہایت سعادتمندی سے چھاپ بھی
دیتا لیکن مسئلہ نیو یارک ٹائمز کا تھا جس نے اس کی تردید شائع کرکے رنگ
میں بھنگ ڈال دیا اور رہی سہی عزت بھی خاک میں ملادی۔ ایسے میں بے ساختہ
سمپت سرل کی تازہ نظم’ اصلی چھاتے پر نقلی برسات‘ یاد آتی ہے؎
راجنیتی شاستر کی نئی پری بھاشا (تعریف) ہے
اپنے آرادھیا (معبود)کی شنک جھوٹی واہ کے لیے
واہ شبد میں ف جوڑ کر افواہ گھڑنے والا
سپھلتا بھلے ہی شارٹ کٹ سے مل جائے
پر اسپھل ہونے کے لیے کڑی محنت کرنی پڑتی ہے
وشواس نہ ہو تو آٹی سیل سے جڑے سائبر یودھاوں (جنگجو)کو دیکھ لیں
وزیر اعظم نریندر مودی سے متعلق کسی خبر کا ٹرینڈ ہونا کوئی حیرت کی بات
نہیں کیونکہ ان کےاندھے معتقدین کی ایک کثیر تعداد سوشل میڈیا پر موجود ہے
جومودی کی تعریف و توصیف کرکے اسے بامِ عروج پر پہنچا دیتی ہے۔مودی جی کی
نقلی تصویر ٹوئٹر، فیس بک اور واٹس ایپ پر اس قدر شیئر کی گئی کہ خود
نیویارک ٹائمز کو وضاحت کرنی پڑی ’یہ مکمل طور پر جعلی تصویر ہے اور یہ
مودی کی ایسی بہت سی پھیلائی گئی تصاویر میں سے ایک ہے۔‘ اس جملے کا دوسرا
حصہ شاہد ہے کہ یہ غلطی پہلی بار سرزد نہیں ہوئی بلکہ سوشیل میڈیا اس طرح
کی فرضی داستانوں سے اٹا پڑا ہے۔ مؤقر اخبار نے اپنی صفائی میں ایک لنک
شیئر کرکے ہندوستانی صارفین کو آگاہ کیا ہے کہ اگر وہ نریندر مودی پر ادارے
کی حقیقی رپورٹنگ پڑھنا چاہیں تو اس پر کلک کریں۔نیویارک ٹائمز نے مذکورہ
تصویر پر سرخ لکیر سے نشان زد کرکے لکھا کہ ’فوٹو شاپ کی ہوئی تصاویر کو آن
لائن دوبارہ شیئر کرنا یا اسے پھیلانا غلط معلومات اور عدم یقین میں اضافہ
کرتا ہے ۔ وہ بھی ایسے وقت میں جب سچی اور قابل اعتماد صحافت کی سخت ضرورت
ہو۔‘
نیویارک ٹائمز نے جس صحافت کی اہمیت کا احساس دلایا اس کی ضرورت امریکہ یا
دنیا کے دیگر ممالک میں ہوگی لیکن ہندوستان میں نہیں ہے کیونکہ یہاں پر تو
سوشل میڈیا میں بی جے پی کے حامیوں نے اس فیک نیوز کو ہاتھوں ہاتھ لے لیا
اور یہ لکھنا شروع کردیا کہ ہندوستان کے لیے یہ ’بہت فخر کی بات ہے‘ جبکہ
بہت سوں نے تو اس خود اپنے لیے بھی قابلِ فخر سمجھا ۔ اس کی ایک مثال کویتا
میئر ہیں ۔ انہوں نے لکھا کہ ’مجھے اپنے وزیراعظم پر فخر ہے۔‘ وہ ایسا کیوں
نہیں لکھتیں جبکہ ان کے ٹوئٹر ہینڈل کی ٹیگ لائن ہے کہ ’دیس سے پیار یا
مودی سے پیار۰۰۰ ایک ہی بات ہے۔‘ اسی لیے محبت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ
وہ اندھی ہوتی ہے اور کسی نابینا سے یہ توقع کرنا کہ اصلی اور نقلی میں فرق
کرسکے گی خام خیالی ہے۔ کویتا تو خیر کوئی نامعلوم صارف ہے لیکن ٹوئٹر کی
دنیا میں 75 ہزار متبعین کے قائد بی جے پی یوتھ ونگ کے قومی جنرل سیکریٹری
روہت چہل نے بھی اس کو ری ٹویٹ کرنے سے قبل جانچنا ضروری نہیں سمجھا ۔ ویسے
نیویارک ٹائمز تو دور ہندوستان کا کوئی پھکڑ اخبار بھی مودی جی کی ایسی
بھونڈی تعریف نہیں کرسکتا لیکن اس معمولی سی بات سمجھنے کی خاطر جو چھٹانک
بھر عقل کی ضرورت ہے اگر وہ موجود ہوتی تو روہت چہل کو قومی جنرل سکریٹری
کے عہدے سے کیونکرنوازہ جاتا؟
مودی بھکتوں کی جہالت پر نینا نامی صارف نے مہر لگاتے ہوئے بہت ساری تالیوں
کی ایموجی کے ساتھ لکھا کہ ’مودی جی دنیا کے سب سے محبوب اور طاقتور لیڈر
ہیں۔ یہ نیویارک ٹائمز کی شہ سرخی ہے۔‘ اپنے محبوب رہنما کی نیویارک ٹائمز
کے حوالے سے تعریف کرکے نینا دیدی توچین کی نیند سوگئیں لیکن ممکن ہے اس کے
جواب میں راشد علی کے ٹویٹ نے ان کو بے خواب کردیا ہو۔ راشد نے اپنے چشم
کشا پیغام میں لکھا کہ : 'میڈم، اتنی بڑی بھکت نہ بنیں۔ پہلے سچائی جانیں
۔اول تو یہ کہ نیویارک ٹائمز کے پہلے صفحہ پر ایسا کچھ نہیں چھپا۔ دوسرے
اخبار کے مہینے کی اسپیلنگ دیکھ لیجیے کہ ستمبر کو کس طرح لکھا ہے۔‘ اس
تبصرے کو پڑھنے کے بعد اسکول کے زمانے کی نصیحت یاد آگئی کہ ’نقل کے لیے
بھی عقل کی ضرورت پڑتی ہے‘ ۔ اس بابت یہ لطیفہ بھی مشہور ہے کہ ایک طالبعلم
تین رسولوں کے نام بھی نہیں لکھ پارہا تھا تو استاد نے مدد کرنے کی خاطر
کہا اپنے سارے چچا کا نام لکھ دو۔ اس نے عیسیٰ ، موسیٰ اور داود کے بجائے
لکھا عیسو چچا، ممو چچا اور ددوّ چچا۔ بعید نہیں کہ عباس نقوی جیسے مودی
بھکت بھی یہی جواب لکھیں ۔
مثل مشہور ہے کہ جھوٹ کے پاوں نہیں ہوتے اس لیے دو قدم بھی نہیں چل پاتا
اور اوندھے منہ گرجاتا ہے۔ اس فوٹو شاپ کرنے والے سنگھ کے مہان سیوک نے
اخبار کی تاریخ لکھنے کی کوشش میں مہینے کے نام ستمبر کی ہجے غلط یعنی
سیٹپیمبر لکھ دی ۔ اس پر مودی جی کے دشمن بھکتوں کا مذاق اڑانے لگے کہ
انھیں کم از کم بنیادی تعلیم حاصل کرلینی چاہیے۔ ویسے یہ مشورہ درست نہیں
ہے کیونکہ چوری کرتے ہوئے گھبراہٹ میں ایسی چھوٹی موٹی بھول چوک ہوجاتی ہے۔
ان غلطیوں کو جانچنے زحمت اس لیے نہیں کی جاتی کیونکہ جن بھکتوں کے لیے
ایسے پیغامات گھڑے جاتے ہیں وہ اسے غور سے پڑھنے کے بجائے تائید کرکے آگے
بڑھانے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں ۔ اس لیے کہ انہیں اسی کام کی تنخواہ
ملتی ہے ،پڑھنے اور سوچنے کا معاوضہ نہیں دیا جاتا ۔ اس کے علاوہ مودی جی
کی فوج میں پڑھنا لکھنا ناپسندیدہ ہے کیونکہ ایسے لوگ سوچنے سمجھنے لگ
جائیں تو سوال پوچھ سکتے ہیں۔ سنگھ کی ثقافت میں یہ جرم عظیم ہے اور اس کے
سبب اخراج ہوسکتا ہے اس لیے یہ خطرہ کوئی مول نہیں لیتا ۔ ایسے لوگوں پر
طنز کرتے ہوئے کسی نے’ستمبر‘ کی نئی اور صحیح سپیلنگ دینے کے لیے مودی جی
کا شکریہ بھی ادا کردیا۔ سالم حفیظی نے تو سیٹپیمبر ہیش ٹیگ کے ساتھ دو
تصاویر پیش کرکے لکھا کہ : ’فوٹو شاپ کر لیا وہ تو ٹھیک ہے۔ بھکتو تمہیں
ستمبر کی سپیلنگ بھی نہیں آتی ۔ دوسری تصویر اصل پہلے صفحے کی ہے۔‘۔ اس طرح
گویا یہ چوری ستمگر بن گئی۔
کانگریس پارٹی مودی بھکتوں کو گھیرنے کا یہ نادر موقع کیسے گنواسکتی تھی اس
کی یوتھ ونگ کے قومی صدر شری نیواس بی وی نے اپنا ہاتھ صاف کرتے ہوئے لکھا
کہ : ’بی جے پی آئی ٹی سیل اور مودی بھکتوں کے لیے انٹرنیشنل ہال آف شیم۔
اب اس بات پر جشن منانا شروع نہ کر دینا کہ نیویارک ٹائمز نے گلوبل لیڈر کے
بارے میں ٹویٹ کیا۔‘ ویسے بعید نہیں کہ نیویارک ٹائمز کے ٹویٹ کو سمجھے یا
پڑھے بغیر ہی کچھ لوگوں نے مٹھائی تقسیم کردی ہو۔ معروف صحافی رعنا ایوب نے
اس معاملے میں تحریر کیا کہ : ’کتنی شرمندگی کی بات ہے! نیویارک ٹائمز کو
یہ وضاحت دینی پڑی کہ پورے صفحے پر مودی کی تصویر اور ان کی تعریف میں دی
جانے والی شہ سرخی جسے بہت سے بی جے پی رہنماؤں نے شیئر کیا وہ جعلی ہے۔
اگر کچھ نہیں تو ہمارے سیاستدانوں کی فوٹوشاپ کرنے کی مہارت ہی بین
الاقوامی خبر بنا رہی ہے۔‘
وطن عزیز میں جھوٹی خبروں کا بازار کس قدر گرم ہے اس کا اندازہ یوں لگایا
جاسکتا ہے کہ آلٹ نیوز کے شریک بانی محمد زبیر کے پاس اس خبر کی تصدیق یا
تردید کے متعلق 25 سے زیادہ لوگوں نے فون کرکے پوچھا کہ نیویارک ٹائمز والی
کلپنگ کی اصلیت کیا ہے؟یہ تو تصویر کا ایک رخ ہے اس کے برعکس ٹوئٹر پر
نیویارک میں مودی جی کو دکھائے جانے والے ’گو بیک مودی‘ کے پوسٹر اٹھائے
مظاہرین کی تصویر منظر عام پر آگئی ۔ اس کے نیچے لکھا تھا ’یہ ہے اصل
تصویر اور اصل حقیقت۔‘ اس تصویر کے علاوہ نیویارک کے ٹائم سکوائر پر مودی
جی کے خلاف نکالے جانے والے جنوبی ایشیا اورہندوستانی برادری کے جلوس کی
تصویر بھی شائع ہوگئی۔یو ایس اے میں ہندوستانی مسلمانوں کی معروف تنظیم
آئی اے ایم سی نے ایک تصویر پوسٹ کرکے لکھا کہ ’نیویارک میں اقوام متحدہ
دفتر کے باہر وزیر اعظم نریندر مودی اور آر ایس ایس کے خلاف بڑا مظاہرہ
ہوا۔‘ بہت ممکن ہے کہ اگر مودی جی کی جھوٹی شان کے لیے نقلی تصویر نہیں
پھیلائی جاتی تو یہ اصلیت دب جاتی لیکن کہاوت مشہور ہے’چیونٹی کی جب موت
آتی ہے تو پر نکل آتے ہیں‘ ایسا کچھ مودی بھکتوں کے ساتھ ہوا۔ انہوں نے
خود اپنی ذلت کو دعوت دی۔ اس معاملے پر جاں نثار اختر کا یہ شعر معمولی
ترمیم کے ساتھ صادق آتا ہے؎
واقعہ شہر میں کل تو کوئی ایسا نہ ہوا
یہ تو اخبار کے ٹوئٹر کی خبر لگتی ہے
|