سر سنگھ چالک موہن بھاگوت کی تضاد بیانی

آر ایس ایس نے اس سال دسہرہ کے دن اپنا 96؍واں یوم تاسیس منایا۔ موجودہ مرکزی حکومت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ آر ایس ایس کے ریموٹ کنٹرول سے چلتی ہے ۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ سنگھ کے ایجنڈے پر سب سے زیادہ مستعدی سے اتر پردیش کے یوگی ادیتیہ ناتھ عمل کرتے ہیں حالانکہ اس سے اختلاف کی گنجائش بھی ہے کیونکہ فی الحال بی جے پی کے اندر مودی اور یوگی کے آگے کسی کی نہیں چلتی ۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ بی جے پی اب خود کفیل ہوگئی ہے یعنی اسے سنگھ کے بیساکھی کی ضرورت نہیں رہی۔ اس سچائی کا اعتراف نہیں کیا جاتا کیونکہ ایسا کرنے میں کوئی سیاسی فائدہ تو ہے نہیں مگر مخالفین کو تنقید کا موقع مل سکتا ہے۔ بعض سیاسی مفکرین کا تو یہ خیال بھی ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے بی جے پی کے ساتھ وہی کردیا جو سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی نے کانگریس کے ساتھ کیا تھا۔ ان دونوں نے پارٹی کے اصول و نظریا ت یا کیڈر(کارکنان) کی اہمیت کو ختم کرکے اپنی شخصیت کا محتاج بنادیا۔ ماضی میں ’ اندرا ہی انڈیا کا جونعرہ‘ لگا کرتا تھا اب وہ مودی کے حوالے سے لگتا ہے۔ اس لیے فی الحال کانگریس جن مسائل کا شکار ہے آگے چل کر بی جے پی کا بھی انہیں سے سابقہ پیش آئے گا۔ خیر آگے کیا ہوگا کوئی وثوق کے ساتھ نہیں کہہ سکتا ۔

آر ایس ایس کی 95 سال ہوچکی ہے اس کے باوجود اب بھی انتخاب کا نشہ اس کے سر چڑھ کر بولتا ہے۔ جن صوبوں میں الیکشن قریب آتے ہیں وہاں سنگھ کی چہل پہل میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کل اتر پردیش اور اتراکھنڈ میں سرگرمیاں بڑھ گئی ہیں ۔ کسان تحریک کے سبب پنجاب میں جانے سے اسے خوف محسوس ہوتا ہے اور گوا و منی پور اپنی ضخامت کے سبب غیر اہم ہیں۔ 12؍ اکتوبر کو اترا کھنڈ میں سرسنگھ چالک موہن بھاگوت نے’ہندو جگے تو عالم جگے گا‘کے موضوع پر ایک تقریب سے خطاب کیا اور کچھ سمجھداری کی باتیں کہیں مثلاً انہوں نے کہا ہے کہ ہمیں (ہندوؤں) اپنے بچوں کو اپنے مذہب اور عبادات کے تئیں احترام کرنا سکھانا چاہئے، جس سے وہ دوسرے مذاہب کی طرف نہ جائیں۔ انہوں نے کہا کہ چھوٹے چھوٹے مفادات اور شادیوں کے لئے مذہب تبدیل ہو جاتے ہیں۔

تبدیلیٔ مذہب کو لے کر بی جے پی کی مختلف سرکاروں نے قانون سازی کا جو ہنگامہ کھڑا کر رکھا ہے یہ بیان اس سے متضاد ہے۔ اس میں انہوں نے ایک عام رحجان کہ مذہب کی تبدیلی کے لیے زبردستی یا لالچ کی بلا واسطہ تردید کردی ۔ بھاگوت نے شرکائے مجلس کو بیرونی طاقتوں کو موردِ الزام ٹھہرانے کے بجائے داخلی اصلاح کی جانب متوجہ کیا ۔ یہ فطری بات ہے کہ اگر والدین خود اپنے مذہب کا حترام نہ کریں یا اس کی اتباع کرنا چھوڑ دیں تو بچوں سے اس کی توقع کرنا بے معنی ہے اور ان کے دیگر مذہب کی جانب نکل جانے کے لیے کسی اور کو ذمہ دار ٹھہرانا درست نہیں ہے۔ سر سنگھ چالک نے مذہب کی تبدیلی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے برملا اعتراف کیا کہ ’جو کچھ ہو رہا ہے اس کے لئے ہم (ہندو سماج)خود ذمہ دار ہیں، کیونکہ ہمارے بچے ہم ہی تیار کرتے ہیں اور ہمیں ان کو مذہبی اقدار گھر میں ہی دینے ہوں گے‘۔

اصولاً یہ بات درست ہے لیکن اگر کسی مذہب کے نظریات پریشان کن ہوں مثلاً اس میں عقیدۂ شرک موجود ہوتواس کی اندھی تقلید ممکن ہے مگر غور و فکر کے بعد اس سے وابستہ رہنا ناممکن ہوجاتا ہے۔ پونرجنم کے عقیدے پر عمل کرنے والے کی خاطر حق و انصاف کی جنگ بے معنیٰ ہوجاتی ہے کیونکہ اس کے نزدیک مظلوم پچھلے جنم کی سزا بھگت رہا ہوتا ہے۔ ورن آشرم کو موجودہ دور میں تسلیم کرکے اس کا جواز پیش کرنا ممکن نہیں ہے چاہے لوگ عملاً اس سے کتنا بھی فائدہ اٹھائیں ۔ اسی طرح سنگھ کے اپنے لٹریچر میں جس ڈھٹائی کے ساتھ ہٹلر کو سراہا گیا اور مسولینی جیسے سفاک کو آئیڈیل قرار دیا گیا ہے اس کو پڑھنے کے بعد نوجوان نسل کی خاطر سنگھ کے مذہبی نظریات سے اتفاق کرنا بھی نہایت مشکل ہے۔ آزادی کی جدوجہد میں ساوکر کا معافی نامہ اور سنگھ کی بے عملی بھی باشعور نوجوانوں کو قریب لانے کے بجائے دوری کا سبب بنتی ہے ۔

اس ذیل میں ایک مسئلہ مذہبی بدعنوانی اور اخلاقی پستی کا ہے ۔ سادھوسنتوں کی سب بڑی تنظیم کل ہند اکھاڑا پریشدکے صدر مہنت نریندر گیری پر ان کے شاگرد آنند گیری نےانتقال سے قبل جس طرح کے الزامات لگائے اور ویڈیوزپیش کیےنیزمشکو ک موت کے بعد جس طرح کی کھینچا تانی ہوئی اس کو دیکھ کر ہر کوئی بدظن ہوگا۔ آسارام باپو اور بابا رام رحیم بلکہ بی جے پی سابق مرکزی وزیرسوامی چنمیانند جیسوں پر لگنے والے جنسی استحصال کے سنگین الزامات لگتے بھی عوام کو مذہب بیزار بناتے ہیں۔ ویسے سنگھ پریوار پر بھی ایودھیا کی رام مندر معاملے میں کروڈوں کی دھوکہ دھڑی کا الزام لگ چکا ہے۔ ابھی حال میں کیلاش وجئے ورگیہ کو عصمت دری کے الزام میں ضمانت لینی پڑی ماضی میں سنجے جوشی کی ویڈیو آئی تھی ۔ سرسنگھ چالک شرکائے مجلس کو اپنے مذہب کے تئیں فخر محسوس کرنے اور اور بچوں کو تیار کرنے پر ابھارا مگران مذہبی رہنماوں کے چلتے یہ کیونکر ممکن ہے۔ ایسے میں جب کسی کے سامنے کوئی صاف ستھرا مذہب آتا ہے تو اس کا اسے قبول کرنا ایک فطری امر ہے۔ اسے روکنے کی خاطر قانون کا ڈنڈا بے سود ثابت ہوگا۔

ایک طرف تو سنگھ کے رام راجیہ میں مسلم اور عیسائی اقلیتوں کو مختلف بہانوں سے ہراساں کیا جاتا ہے دوسری جانب آر ایس ایس کے سربراہ اپنی تنظیم کے 96ویں یوم تاسیس پر کہتے ہیں کہ ’’ ہندوستانی ہونے پر یقین رکھنے والے مختلف مذاہب کے لوگ ہمارے آباؤ اجداد کے نظریات کو سمجھتے ہیں۔ کسی کو کسی زبان، عبادت کے نظام کو ترک کرنے کی ضرورت نہیں، بنیاد پرست سوچ کو چھوڑنا ضروری ہے۔ مسلمان ہونے پر کوئی اعتراض نہیں، قوم پرست سوچ ضروری ہے، ہندو سماج ہر کسی کو اپنا لیتا ہے‘‘۔ اپنائیت کا اظہار کرنے کے فوراً بعد موہن بھاگوت آبادی کےکنٹرول کا راگ الاپتے ہوئے کہتے ہیں کہ ملک کی مجموعی آبادی بالخصوص سرحدی علاقوں میں آبادی کے تناسب میں بڑھتا ہوا عدم توازن، مختلف فرقوں کی آبادی میں اضافے کی شرح میں وسیع تغیر کی وجہ سے غیر ملکی دراندازی اور تبدیلی مذہب سنگین بحران کا باعث بن سکتی ہے۔بھاگوت نے 1951 اور 2011 کے درمیان مسلم آبادی کے تناسب اضافے کا خوف دلایا جو سنگھ کا پرانا حربہ ہے۔

وطن عزیز میں مسلمانوں کو ولن کے طور پر دکھانے کے لیےیہ ہندوتوا کے حامی گروہوں کی جانب سے پھیلائی جانے والی اس قبیل کی غلط فہمیوں کو دور کرنے کی خاطر سابق چیف الیکشن کمشنرایس وائی قریشی نے اعدادو شمار کی بنیاد پر’ دی پاپولیشن متھ:اسلام، فیملی پلاننگ اینڈ پالیٹکس ان انڈیا‘ نامی کتاب تصنیف کی ہے۔ ان کے مطابق مسلمانوں نے آبادی کے معاملے میں ہندوؤں سے آگے نکلنے کے لیے کوئی منصوبہ بند سازش نہیں کی اور ان کی تعداد ملک میں ہندوؤں کی تعداد کے لیے چیلنج نہیں بن سکتی۔ ان کا دعویٰ ہے کہ دونوں معاشرے خاندانی منصوبہ بندی کے معاملے میں ’کندھے سے کندھا‘ ملاکر کھڑے ہیں۔ وہ ہندوستان کی آبادی میں ہندو- مسلم افزائش نسل سے متعلق فرق کی بنیادی وجہ خواندگی، آمدنی اور خدمات تک رسا ئی جیسے معاملوں میں مسلمانوں کا قدرے پسماندہ ہونے کو قرار دیتے ہیں ۔ اس کتاب میں خاندانی منصوبہ بندی پر تفصیل سے بحث کرنے کے بعد کثرت ازدواج کی بابت1931 سے 1960 تک کی مردم شماری سے یہ ثابت کیا گیا ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں میں اس کا چلن دیگر اقوام سے کم ہے۔

ان حقائق کی روشنی میں سنگھ کے سربراہ موہن بھاگوت نے کہا ہے کہ 1951اور 2011 کے بیچ آبادی میں اضافے کی شرح اورہندو مذاہب کےپیروکاروں کی آبادی 88 فیصد سے گھٹ کر 83.8 فیصد ہوجانا نیز مسلمانوں کی آبادی کا تناسب9.8 فیصد سے بڑھ کر14.24 فیصدہو جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ قریشی صاحب کے مطابق موجودہ شرح سے مسلمانوں کی آبادی 1000 سال میں بھی ہندوؤں سے آگے نہیں نکل سکتی۔ ان کے خیال میں یہ کسی جھوٹ کو سو بار بول کر اسے سچ بنانے کی کوشش ہےجس میں موہن بھاگوت بھی ملوث ہوگئے۔ اس باروجئے دشمی کے موقع پر پہلی بارکسی سر سنگھ چالک نے قابل نمونہ مسلمانوں کی فہرست گناتے ہوئے کہا کہ ’’ حسن خان میواتی، حکیم خان سوری، خدابخش، غوث خان اور اشفاق اللہ خان جیسے ہیرو سب کے لیے مثالی ہیں۔‘‘ سر سنگھ چالک نے تو چند مسلمان مجاہدین آزادی کا نام گنا یا حالانکہ دہلی کی انڈیا گیٹ پر تحریر شدہ تقریباً 95,300 مجاہدین آزادی میں سے 61,945 یعنی 65 فیصد مسلمان ہیں لیکن باقی 35 ؍ فیصد ہندووں میں سے ایک کا تعلق بھی آر ایس ایس سے نہیں ہے۔ اس لیے سر سنگھ چالک کا یہ کہنا کہ 15’’؍ اگست 1947 کو ملک آزاد ہوا، لیکن یہ آزادی راتوں رات نہیں ملی۔ جس دن ملک آزاد ہوا اس دن آزادی کی خوشی کے ساتھ جو تکلیف اپنے دل میں محسوس کی، وہ درد ابھی تک نہیں گیا‘‘بے معنیٰ ہےاور بی جے پی کے زیر اقتدار صوبوں میں نت نئے طریقوں سے مسلمانوں کو پریشان کرنا صاف احسان فراموشی ہے۔
(۰۰۰۰۰۰۰جاری)
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1227386 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.