ہم شرمندہ ہیں

محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب کی رحلت بلا شبہ ایک قومی المیہ ہے قائد اعظم اور لیاقت علی خان کے بعد ڈاکٹر قدیر خان صاحب پہلے شخص ہیں جن کو عوامی مقبولیت کا وہ مقام ملا جو کسی کو نہ ملا قائداعظم اور اُن کے ساتھیوں کے بعد آنے والے لیڈروں کی یہ خواہش ضرور رہی کہ وہ کوچہ اقتدار پر قبضہ کر نے کے بعد دلوں کے حکمران بھی بن سکیں لیکن تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ جب عوام نے کسی لیڈر کے دلفریب جھوٹے وعدوں کے بعد اُس کو عوامی مقبولیت بخشی تو چند سال بعد ہی ایسے لیڈر کو چہ اقتدار کے ساتھ ساتھ عوام کی نظروں سے بھی گر گئے بہت سارے تو ذلت رسوائی کے گہرے غار میں اسطرح دفن ہوئے کہ آج لوگ ان کے نام تک سے واقف نہیں ہیں ماضی کی طرح موجود ہ حکمرانوں کو بھی شہرت اور عوامی مقبولیت کا بہت زیادہ زعم تھا لیکن صرف تین سال گزرنے کے بعد ہی جب عوام کے سامنے ان کا نام لیا جاتا ہے تو عوامی رد عمل میں جو غیظ و غضب پایا جاتا ہے عوام کس طرح گالی گلوچ پر اُتر آتے ہیں اس سے خوب اندازہ ہو تا ہے شہرت مقبولیت کے غبارے سے کتنی جلدی ہوا نکل چکی ہے لیکن جو عوام کی خدمت کرتے ہیں ملک کے دفاع کو ناقابل تسخیر بناتے ہیں ان کی شہرت مقبولیت کا چراغ بجھنے کی بجائے گزرے وقت کے ساتھ زیادہ سے زیادہ روشن ہو تا چلا جاتا ہے اس کانظارہ اہل وطن بلکہ اقوام عالم نے کھلی آنکھوں سے عظیم ڈاکٹر قدیر خان صاحب کے جنازے میں دیکھا جب فیصل مسجد اسلام آباد کی طرف آنے والی سڑکوں پر شریک ہونے والے پروانوں کا سیلاب آیا ہوا تھا پھر تیز آندھی بارش میں عوام نے جس گرم جوشی عقیدت سے شرکت کی یہ ڈاکٹر صاحب کی عوامی مقبولیت کا منہ بولتا ثبوت ہے آپ کے جنازے میں عقیدت و محبت کے لازوال مناظر دیکھنے میں آئے تمام آنے والوں کے تاثرات سے لگ رہا تھا جیسے اُن کا کوئی بہت قریبی چلا گیا ہو لیکن وزیر اعظم صاحب کی عدم شرکت بہت سارے سوالیہ نشان چھوڑ گئی کہ ڈاکٹر صاحب بائیس کروڑ عوام کے دلوں میں تو بستے ہی تھی لیکن اہل سیاست نے اُن کو جو گہر ے زخم دئیے وہ ہماری تاریخ کا درد ناک باب بلکہ المیہ ہے کیا کوئی اپنے قومی ہیرو محسن کے ساتھ ا ِ سطرح کا سلوک کر تا ہے کہ قومی محسن کو اُس کے گھر میں قید کر دیاگیا اُس کے میل جول پر پابندیاں لگا دی گئی یہاں تک کہ اُس کی بیٹی اور نواسوں کو بھی اپنے باپ نانا کے ملاقات کے لیے مہینوں انتظار کر نا پڑتاتھا کیا محسن پاکستان اِس طرح کے ناروا سلوک کا مستحق تھا نہیں بلکل نہیں وہ شخص جو یورپ میں کامیاب آرام دہ زندگی گزار رہا ہو جس کے پاس زندگی کی ساری آسائشیں موجود ہوں ایک شاندار پرآسائش زندگی جس کا انتظار کر رہی ہو وہ سانحہ مشرقی پاکستان کا گھاؤ لے کر پاکستان اِس لیے آتا ہے کہ دشمن پاکستان بھارت ایٹمی دھماکے کر کے اپنی طاقت کا بھرپور مظاہرہ کرتا ہے وہ دل میں یہ درد کے کر کہ اﷲ تعالیٰ نے اگر مجھے وطن عزیز کو ناقابل تسخیر بنانے کا آرٹ دیا ہے تو کیوں نہ اِس کو پاکستان کے لیے عمل میں لاؤں پھر جوان ڈاکٹر قدیر خان صاحب 1974ء میں پاکستان آکر ارباب اقتدار کو اپنی صلاحیتوں کا بتاتے ہیں کہ میں ایٹمی قوت بنانے میں اپنا کردار ادا کرسکتا ہوں پھر حکومت کے کہنے پر یور پ کا آرام دولت چھوڑ کر پاکستان منتقل ہو جاتے ہیں پھر آٹھ سال کے قلیل عرصے میں بہت تھوڑے وسائل اور مالی مدد کے حکومت کو خوشخبری دیتے ہیں کہ اﷲ کے فضل سے ہم لوگ ایٹم بنانے میں کامیاب ہو چکے ہیں لیکن سیاسی حکومت یورپ امریکہ کے خوف سے دھماکہ نہیں کرتی جو آخر کار 1998ء میں ہوتا ہے پاکستان 58اسلامی ملکوں میں پہلا ملک تھا جس نے ایٹمی دھماکہ کیا تھا بھارت کے نامور صحافی کلدیپ نئیر پاکستان آتے ہیں تو ڈاکٹر قدیر صاحب اُس کو بتا دیتے ہیں کہ پاکستان ایٹمی قوت بن چکا ہے اگر بھارت نے میلی آنکھ سے دیکھا تو اُس کو راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا جائے گا اِسی طرح کرنٹ ڈپلومیسی کے تحت جنرل ضیاالحق نے بھارت جا کر بھارتی وزیر اعظم کے کان میں کہا تھا کہ ہم ایٹمی قوت بن چکے ہیں جو ہم نے نمائش کے لیے نہیں بنایا اگربھارت نے کوئی حماقت کی تو اُس کو دنیا کے نقشے سے مٹا دیا جائے گا اِس طرح بھارت ہر قسم کی مہم جوئی سے باز آگیا دنیا کو جب پتہ چلا کہ پاکستان جیسا غریب ترقی پذیر ملک جو اپنے ملک میں سوئی قینچی بھی بنانے پر قادر نہیں اُس نے یورینیم کو عمل سے گزار کر دنیا کا بہترین ایٹم بم بنا لیا ہے اب یورپ امریکہ برطانیہ کو اپنی طاقت بقا خطرے میں نظر آنا شروع ہو گئی ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے اردگر د سازشوں کا جال بننا شروع کر دیا پھر دوبئی سے لیبیا جاتے ہوئے بحری جہاز کو راستے میں پکڑ کر اُس کی تلاشی لے کر یہ الزام لگا یا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان ایٹمی را زاور طریقہ کار کرنل قذافی کو بھیج رہے تھے لیبیا کے علاوہ ڈاکٹر صاحب پر یہ بھی الزام لگا دیا کہ انہوں نے ایران اور کوریا کو بھی ایٹمی ٹیکنالوجی منتقل کر نے میں بنیادی کردار ادا کیا پھر آپ پر الزام لگا یا گیا کہ آپ کے اربوں ڈالر باہر کے ملکوں میں پڑے ہیں برطانوی اور امریکہ خفیہ ایجنسیوں نے مختلف جھوٹ پر مبنی دستاویزات جنرل مشرف کو پاکستان بھیجی کہ یہ ثبوت ہیں کہ ڈاکٹر صاحب نے ہالینڈ سے ایٹمی راز چرائے اب اسلامی ممالک کو یہ ٹیکنالوجی دے رہے ہیں جبکہ سچ تو یہ ہے کہ ہالینڈ کی کورٹ میں بہت عرصہ تک ڈاکٹر صاحب کے خلاف مقدمہ چلا جس میں ڈاکٹر صاحب کو باعزت بری کر دیا گیا جب امریکہ برطانیہ نے مشرف پر دباؤ بڑھایا کہ ڈاکٹر قدیر صاحب کو ان کے حوالے کیا جائے تو آمر وقت مشرف نے ڈاکٹر صاحب کو بلا کر دھمکی دی کہ آپ اقرار جرم کر لیں نہیں تو آپ کو امریکہ کے حوالے یا پاکستان کی جیل میں قید کر دیاجائے گا پھر اہل وطن نے وہ رسوا کن منحوس دن دیکھاجب 4اپریل 2004ء کو ڈاکٹر صاحب محسن پاکستان پاکستان ٹیلی ویژن پر آکر سارے الزام خود پر لے کر معافی مانگتے ہیں کہ ساری غلطی میری ہے اِس اقرار کے بعد ڈاکٹر صاحب کو اُن کے گھر پر قید کر دیا گیا بیٹی اور اُس کے بچوں کو دور کر دیا گیا فوج اور سیکورٹی ایجنسیوں کا پہرہ بیٹھا دیاگیا یہ صلہ تھا جو حکومت نے دوبار نشان پاکستان اور کئی بار صدارتی ایوارڈ یافتہ محسن کو دیا ہم نے اپنے محسن کو رسوا کر کے قید میں ڈال دیا جبکہ بھارت میں ڈاکٹر ابو الاکلام کو صدر ہندوستان بنا کر عزت سے نوازا گیاڈاکٹر صاحب سے جب کسی نے پوچھا آپ کو کوئی پچھتاوا تو آپ انتہائی دکھی لہجے میں بولے کاش پاکستان کی خدمت نہ کر تا یورپ سے واپس نہ آتا مجھے میری حب الوطنی کا صلہ قید اور رسوائی کی صورت میں ملا جبکہ ڈاکو چور حکمران عزت کے تمغے سجائے سر عام پھر رہے ہیں یہ تو حکمرانوں کا ظالمانہ سلوک تھا جبکہ ہم پاکستانی ڈاکٹر صاحب سے بہت شرمندہ اور معافی مانگتے ہیں کہ محسن پاکستان کو وہ مقام نہ دے سکے جس کے وہ مستحق تھے ۔
 

Prof Abdullah Bhatti
About the Author: Prof Abdullah Bhatti Read More Articles by Prof Abdullah Bhatti: 805 Articles with 735311 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.