افغانستان میں طالبان کا دوبارہ اقتدار پر قبضہ کس حد تک
افغان عوام کی فلاح و بہبود اور سلامتی کیلئے کارآمد ہوگا اس سلسلہ میں کچھ
کہا نہیں جاسکتا ۔ لیکن اگسٹ میں امریکہ نے اپنی افواج کو راتوں رات کابل
سے نکالنے میں کامیابی حاصل کی یہی نہیں بلکہ دیگر امریکی اتحادی ممالک نے
بھی اپنی افواج اور دیگر شعبہ ہائے حیات سے تعلق رکھنے والوں افغانستان سے
نکال لیا۔ صدر اشرف غنی کا خاموشی کے ساتھ ملک سے فرار ہونا اور پھر طالبان
کی افغانستان کے شہروں اور دیہات میں پیشقدمی ، بغیر کسی خون خرابے کے
دارالحکومت کابل پر طالبان کا قبضہ عالمی سطح پر انسانیت کو حیران کرکے رکھ
دیا تھا۔ سوپرپاور کہلائے جانے والے ممالک بھی طالبان کے قبضے سے دھنگ رہ
گئے۔ طالبان جنگجوؤں کے مطابق انہو ں نے جس طرح افغانستان میں اقتدار کے
حصول کے لئے قربانیاں دیں ہیں اس کا عام لوگوں کو اندازہ نہیں۔ طالبان کی
قربانیاں ہوں کہ معصوم ، بے قصور افغان عوام کی ہلاکت ۰۰۰ افغانستان میں
کئی دہائیوں سے چین و سکون نہیں کے برابر ہے۔ افغان عوام صدر اشرف غنی کے
ملک سے فرار ہونے کے بعد اپنے آپ کو بے بس سمجھ رہے تھے اور ملک سے نکلنے
کے لئے بے قرار تھے لیکن اس میں بہت ہی کم لوگوں کو کامیابی حاصل ہوئی ۔ ان
حالات میں طالبان کا کابل پر قبضہ اور پھر مصلحت پسندی سے کام لیتے ہوئے
طالبان کی اعلیٰ قیادت نے سب کیلئے عام معافی کا اعلان کیا ۔ اس اعلان کے
بعد طالبان قیادت نے ملک کی تعمیر و ترقی اور خوشحالی کیلئے ہر افغان شہری
کو حصہ اداکرنے کی طرف توجہ دلائی اور جو ڈرو خوف طالبان کے تعلق سے افغان
عوام میں تھا اسے کم کرنے یا ختم کرنے کی کوشش کی گئی لیکن یہ کیا؟ایک طرف
طالبان عوام کے ڈرو خوف کو دور کرنے کی کوشش کررہے ہیں تو دوسری جانب شدت
پسند تنظیم داعش نے سرابھارنے لگی۔ داعش نے سب سے پہلے طالبان کے کنٹرول کے
بعد کابل ایئرپورٹ پر بم دھماکے کرکے طالبان سے اعلان جنگ کیا۔ عالمی
برادری طالبان کو قبول کرنا نہیں چاہتی تھی اور عالمی قائدین کا کہنا تھاکہ
عبوری حکومت میں طالبان دیگر تمام طبقوں کو شامل کریں اور ملک میں سب مل کر
حکومت چلانے میں آگے آئیں۔ لیکن طالبان قیادت کی جانب سے یہ اشارہ دیا
جاچکا تھاکہ ان ہی لوگوں کو اقتدار میں شامل کیا جائے گا جو متقی و
پرہیزگار ہونگے اور ایسا ہی ہوا کے طالبان نے اپنی عبوری حکومت میں صرف
طالبان سے تعلق رکھنے والوں حکومتی ذمہ داری سونپی۔ خواتین کو بااختیار
بنانے کے لئے عالمی برادری طالبان پر دباؤ ڈال رہی تھی لیکن طالبان نے شرعی
قوانین کے مطابق خواتین و لڑکیوں کو مراعات دینے کا وعدہ کیا ۔ اس طرح
طالبان قیادت نے اپنی عبوری حکومت میں کسی بھی خاتون کو حکومتی منصب پر
فائز نہیں کیا۔ لڑکیوں کی پڑھائی اور خواتین کے روزگار کے سلسلہ میں ابھی
کوئی واضح قوانین نافذ نہیں کئے گئے ہیں۔ خواتین اور لڑکیوں کو حدودِ شرعی
میں رہنے کی تلقین کی گئی ہے۔ طالبان کے فیصلوں سے عالمی برادری مایوس
دکھائی دیتی ہے ۔ طالبان کا کابل پر قبضہ ،عالمی برادری کیلئے افسوسناک
واقعہ تھا۔ طالبان کے دورِ اقتدار میں شدت پسند تنظیم داعش پھر ایک مرتبہ
افغانستان میں سراُٹھا رہی ہے۔ کابل ایئر پورٹ پر خودکش دھماکے،مساجد میں
خودکش حملوں کے بعد اب ایسی جگہ پر دہشت گردانہ حملہ کیا گیا جسے سن کر ہر
ایک انسان افسوس کے ساتھ رنج وغم کا اظہار کئے بغیر نہ رہ سکتے۔سردار محمد
داؤں خان ہاسپتل کے قریب کئے گئے حملے میں 20سے زائد افراد ہلاک اور کئی
زخمی بتائے گئے۔ واضح رہیکہ عینی شاہدین کے مطابق 400بستروں پر مشتمل سردار
محمد داؤد خان ہاسپتل پر حملے سے قبل دو دھماکے ہوئے جس کے بعد فائرنگ کی
آوازیں سنائی دینے لگیں۔ بتایا جاتا ہیکہ ایک دھماکہ ہاسپتل کے سامنے اور
دوسرا قریب ہی ہوا۔ اسکے فوری بعد فائرنگ ہونے لگی۔ عینی شاہدین کے مطابق
حملہ آور ہاسپتل میں داخل ہوگئے اور فائرنگ کا سلسلہ شروع کردیا۔ طالبان
ترجمان بلال کریمی نے ذرائع ابلاغ کو بتایاکہ دولت اسلامیہ خراسان سے تعلق
رکھنے والے شدت پسندوں نے ہاسپتل کے گیٹ پر پہلادھماکہ کیا اور ہاسپتل کے
کمپاؤنڈ میں داخل ہوگئے۔ ہاسپتل میں فائرنگ کا سلسلہ شروع کردیا گیا تھا ،
بلال کریمی کے مطابق طالبان جنگجوؤں نے دولت اسلامیہ خراسان کے پانچ دہشت
گردوں کو ہلاک کردیا ہے۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہیکہ طالبان کا اگست میں
کابل پر قبضہ اور ان ہی دنوں کابل ایئرپورٹ پر ہونے والا ایک بم دھماکہ ہے
جس میں 13امریکی فوجیوں سمیت 150افراد ہلاک ہوگئے تھے۔شدت پسند تنظیم یا
افراد ایک طرف افغانستان میں عبادتگاہ آنے والوں یا پھر مریضوں کی تیماداری
یا عیادت کیلئے آنے والوں کو نشانہ بنائی ہے تو دوسری جانب سمجھا جارہا ہے
کہ طالبان ، شدت پسند تنظیم داعش کا ملک سے خاتمہ کرنا چاہتی ہے۔ اس سلسلہ
میں ذرائع ابلاغ کے مطابق افغانستان کے شہر جلال آباد کے مضافات میں ہر چند
دن بعد نعشیں پھینکی جارہی ہے۔ ان نعشوں کے متعلق بتایا جارہا ہے کہ بعض کو
گولی مار کر یا پھانسی دے کر یا پھر سرقلم کرکے ہلاک کیاجارہا ہے۔ بتایا
جاتاہیکہ بہت سی نعشوں کی جیبوں سے ہاتھ سے لکھے ہوئے نوٹ ملتے ہیں ، جن
میں ان افراد پر شدت پسند نام نہاد تنظیم دولت اسلامیہ سے تعلق کا الزام
عائد کیا جاتا ہے۔ ان ہلاکتوں کی اب تک کسی نے ذمہ داری قبول نہیں کی لیکن
بڑے پیمانے پر طالبان کو ان کا ذمہ دار سمجھا جارہا ہے۔ اگسٹ میں کابل ایئر
پورٹ کے باہر ہونے والے خودکش حملے کی ذمہ داری داعش (آئی ایس) نے قبول کی
تھی ، اس حملے میں جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے 150افراد ہلاک ہوئے تھے۔
بتایاجاتا ہیکہ طالبان دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعدافغانستان اب زیادہ
پرُامن دکھائی دیتا ہے لیکن داعش جلال آباد میں وہی ہتھکنڈے استعمال کررہی
ہے جو طالبان صدراشرف غنی اور اس سے قبل کی حکومتوں کے خلاف استعمال کئے
تھے۔ ان ہتھکنڈوں میں سڑک کے کنارے بم نصب کرنا، خودکش حملے اور چوری چھپے
قتل و غارت شامل ہے۔ عالمی سطح پر طالبان کوشرعی قوانین کے نفاذ کے سلسلہ
میں نشانہ بنایا جاتا ہے یعنی خواتین و لڑکیوں کی تعلیم و روزگار اور دیگر
شعبہ ہائے حیات میں خواتین اور لڑکیوں کے کردار کو ختم کردیا گیا جبکہ داعش
(آئی ایس) طالبان سے زیادہ سخت گیر ہے اور داعش، طالبان کو زیادہ سخت گیر
نہ ہونے کی وجہ سے ’’منکرین‘‘ ہونے کا الزام عائدکرتی ہے جبکہ دوسری جانب
طالبان داعش کو انتہا پسند قرار دیتے ہیں۔ موجودہ حالات میں طالبان کو
انسان دشمن عناصر یا تنظیم کے خلاف مزید سخت کارروائیاں کرنی ہونگی کیونکہ
طالبان حکومت کو پہلے ہی عالمی سطح پر قبول نہیں کیا گیااور اگر ملک میں
بدامنی اور دہشت گردانہ کارروائیوں میں اضافہ ہوتا ہے تو حالات بگڑسکتے ہیں
اور ملک میں خانہ جنگی کی نوبت بھی آسکتی ہے۔ اب دیکھنا ہیکہ طالبان کس طرح
داعش کے شدت پسندوں کو ختم کرنے میں کامیابی حاصل کرتی ہے اور ملک میں امن
وسلامتی اور معاشی استحکام کیلئے کس طرح آگے بڑھتی ہے۔ افغانستان میں
لاکھوں افراد بھوک مری کا شکار ہورہے ہیں۔ معاشی تنگدستی کی وجہ سے کئی لوگ
ہلاک ہوسکتے ہیں۔ عالمی سطح پر افغانستان کو امداد کی سخت ضرورت ہے اور اس
سلسلہ اقوام متحدہ اور دیگر عالمی ترقی یافتہ ممالک نے افغانستان کو امداد
پہنچانے کا اعلان کیا ہے۔
رجب طیب اردغان اور جوبائیڈن کی ملاقات
ترک صدر رجب طیب اردغان نے جرمنی کے دورہ کے موقع پر اپنے امریکی ہم منصب
جوبائیڈن سے ملاقات کی ، ترک ذرائع ابلاغ کے مطابق یہ ملاقات خوشگوار اور
مثبت ماحول میں ہوئی۔ بتایا جاتا ہے کہ دونوں صدور نے دو طرفہ تعلقات کی
بہتری کیلئے طریقہ کار بنانے پر اتفاق کیا اور امریکہ اسٹریجٹک پارٹنر شپ
اور نیٹو اتحاد کی اہمیت پر زور دیا گیا۔ اردغان اور بائیڈن نے ترک امریکہ
تجارت کے فروغ کے طریقوں پر بھی تبادلہ خیال کیا۔ دونوں رہنماؤں کے درمیان
انسانی حقوق کے معاملے پر بھی بات چیت ہوئی۔
جی20ممالک کی جانب سے تاریخی معاہدے کی توثیق
جی 20 رہنماؤں نے کم از کم 15 فیصد کارپوریٹ ٹیکس کے عالمی معاہدے کی
باضابطہ طور پر منظوری دی ہے۔امریکی وزیر خزانہ جینٹ ییلن نے کارپوریٹ ٹیکس
سے متعلق معاہدے کو ’تاریخی‘ اقدام قرار دیتے ہوئے کہا آج جی 20 ممالک کے
سربراہان مملکت نے نئے بین الاقوامی ٹیکس قوانین پر ایک تاریخی معاہدے کی
توثیق کی ہے، جس میں کم از کم عالمی ٹیکس شامل ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ اقدام
یکطرفہ کارپوریٹ ٹیکس لگانے کی نقصاندہ دوڑ کو ختم کر دے گا۔عالمی جی ڈی پی
کے 90 فیصد سے زیادہ کی نمائندگی کرنے والے تقریباً 136 ممالک نے زیادہ
منصفانہ ٹیکس ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ساتھ او ای سی ڈی کے ذریعے ایک معاہدے
پر دستخط کیے ہیں اور عالمی کارپوریشنوں پر 15 فیصد کم از کم ٹیکس نافذ کیا
ہے۔اس کو منی انقلاب کا نام دیا گیا جو پہلی مرتبہ 2017 میں پیش کیا گیا
تھا اور اسے امریکی صدر جوبائیڈن کی حمایت حاصل رہی ہے۔ لیکن امریکی قانون
سازوں کی مزاحمت کی وجہ سے اس کا اطلاق مقررہ وقت پر نہیں ہوا۔امریکی
انٹرنیٹ کمپنیاں مثلاً گوگل، ایمیزون، فیس بک اور ایپل نے ایسے مقامات یا
ممالک کا رخ کیا جہاں انہیں ٹیکس کم سے کم دینا پڑے اور یہ ہی کمپنیاں نئے
عالمی ضابطے کا خاص ہدف ہیں۔علاوہ ازیں گلاسگو میں شروع ہونے والی اہم سی
او پی 26 کانفرنس کے موقع پر موسمیاتی تبدیلی پر اجتماعی عزم پر ابھی تک
کوئی اتفاق رائے سامنے نہیں آیا ۔اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو
گوتریس نے جمعہ کے روزان قائدین کو خبردار کیا کہ وہ ’مزید اقدام اور مزید
کارروائی‘ کا مظاہرہ کریں اور آب و ہوا کے اہداف کو آگے بڑھانے کے لئے عدم
اعتماد پر قابو پالیں۔اٹلی چاہتا ہے کہ جی 20 ممالک عالمی حدت کو 1.5 ڈگری
سینٹی گریڈ تک محدود کرنے کے اقوام متحدہ کے ہدف کی اجتماعی طور پر توثیق
کرے۔دوسری جانب جی 20 کے متعدد اراکین بہت سے اقتصادی ترقی کے مختلف مراحل
پر ہیں، 2050 تک گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو صفر تک کم کرنے کا ہدف دیگر
اہداف سے متضاد ہے۔امیر اور غریب ممالک کے درمیان کووڈ19 ویکسین کی رسائی
کے وسیع خلا کو دور کرنے کیلئے کسی نئے وعدے کی توقع نہیں ہے۔جی۔20ممالک
میں ارجنٹائنہ، آسٹریلیا، کینیڈا، چین، یورپی یونین فرانس، جرمنی، انڈیا،
انڈونیشیا، اٹلی، جاپان، میکسکو، روس، سعودی عرب، جنوبی آفریقہ، جنوبی
کوریا، ترکی، برطانیہ، اور امریکہ شامل ہیں۔
|