“فرام رشیا ودھ لؤ “ اور ظہیرالدین بابر پہلا مغل حکمران

وزیر اعظم پاکستان جناب عمران خان نے ازبکستان کے ساتھ مل کرپہلے مغل شہنشاہ ظہیر الدین بابر کے بارے میں فلم بنانے کا اعلان کیا ہے -انہوں نے یہ فیصلہ پاکستان میں ڈرامہ 'ارطغرل ' کی مقبولیت سے متاثر ہو کر کیا ہے-

یادش بخیر ---کچھ ایسی ہی بات روس میں بھی روسیوں‌نے کہی - یہ سال 2020 کی بات ہے - اس سال روس کے تاریخ دانوں ' تاریخ کے طالب علموں اور دانشوروں نے ایک تصویروں کی نمائش ولاڈی واس ٹوک کے مقام پر منعقد کی تھی -یہ تصویریں ظہیرالدین بابر کی حقیقی اورجنل تصاویر تھی جو روس نے اپنے پاس ایک عجائب گھر میں محفوظ رکھی ہوئی تھیں - ان اصلی تصاویر کی نمائش چار ماہ تک روس کے مختلف شہروں میں جاری رہی - اختتامی روز ایک کانفرنس منعقد کی گئی تھی جس میں مختلف ممالک کے منذوبین نے شرکت کی تھی- کانفرنس کے روسی سربراہ نے ظہیر الدین بابر کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ "وہ بلاشبہ مختلف اوصاف سے بھرا کامیاب فوجی سپہ سالار اور حکمران تھا - -- جو اس وقت کی عصری تعلیم اور سائنسی علوم سے خوب بہرہ ور تھا " روسیوں کا کہنا تھا کہ وہ ممالک جہاں ظہیرالدین بابر کی عمارات باقی ہیں انہیں تاریخی ورثہ قرار دے کر سیاحوں کو ان عمارات تک پہنچ دینی چاہیئے-
ظہیرالدین بابر کی عسکری اور حکم رانی کی صلاحیتوں سے مغرب کے تعلیم یافتہ افراد کافی عرصے سے متاثر تھے - اس کی خودنوشت کا ترجمہ سب سے پہلے ایک ولندیزی نے سال 1705 میں اپنی ولندیزی زبان میں کیا - خود روس میں 1857 ایک روسی ‘ نکولائی المنکسی ‘ نے ترجمہ کرکے روس کی عوام کو اس کی خداداد خوبیوں سے آگاہ کیا -ظہیرالدین بابر کی خود نوشت کی مختلف زبانوں میں تراجم کی بدولت اہل مغرب کو مغرب کو نہ صرف اس دلیر حکمران سے آشناہی ہوئی بلکہ وہ افغانستان - بھارت کے شمالی علاقے اور وسطی علاقے کی ثقافت-لوگوں کے رہنے سہنے کے انداز سے آشنا ہوئے اور کئی پہلو جن پر پردہ پڑا ہوا تھا ان کے سامنے آشکارہ ہوئے -

تاریخ بتاتی ہے کہ جب ظہیر الدین بابر نے اپنا ملک چھوڑا تھا تو اس وقت وہ روس کا حصہ نہیں تھا بلکہ ایک الگ اسلامی ریاست تھا -
البتہ جب ہم چھٹی ساتویں جماعت میں تھےتو ہمیں پہلی مرتبہ ظہیر الدین بابر کے بارے میں آگاہی حاصل ہوئی- اس وقت یہ مسلم ریاست روس کے زیر تسلط تھی - چنانچہ ہم کہا کرتے تھے کہ ظہیر الدین بابر روس سے آیا - لیکن 1991 میں یہ اسلامی ملک ازبکستان پھر آزاد ہوا اور اب ہم کہتے ہیں کہ ظہیر الدین بابر ازبکستان سے آیا - ایک فلم بھی یاد آرہی ہے --- سین کونری ( جیمز بانڈ ) کی فلم "فرام رشیا ود ھ لؤ " -لیکن ان سب یادوں کو ملتوی کرتے ہیں ورنہ اصل بات رہ ہی جائے گی-

میں نے پچھلی آٹھ نو سطریں کتنی آسانی سے لکھ لیں یا ٹائپ کردیں لیکن کیا اتنے دور دراز برفانی علاقے جہاں میلوں میل برف کی موٹی چادر بچھی ہوئی ہو اور تیز ہوا چلتی ہو تو برف کے ذرات ہوا میں چرخی کی طرح گھومتے ہوں اور کچھ نظر ہی نہ آتا ہو سے نکل کر افغانستان کے بے آب و گیا سنگلاخ پہاڑوں کے سلسلوں کو پار کرنا کیا آسان کام تھا - ظہیر الدین بابر کی لکھی ہوئی خود نوشت 'تزک بابری ' کہتی ہے
نہیں --نہیں -- نہیں ---
ایک دو واقعات لکھ دیتا ہوں -
مثلا“ ایک مقام کا تجزیہ کریں تو پتہ چلتا کہ تین کلو میٹر کا فاصلہ سات دن میں طے کیا -
تین کلومیٹر کا فاصلہ آج کے زمانے میں پیدل طے کرنا چاہیں تو کتنے منٹ لگیں گے ؟ مجھے تو 45 منٹ لگتے ہیں اور گاڑی میں جائیں تو تین سے چار منٹ اور ظہیر الدین بابر کہتا ہے کہ مجھے یہ فاصلہ طے کرنے میں سات دن لگے -ایک دن نہیں ---دو دن نہیں --

اس سفر کے دوران جو مصیبتیں آئیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اس کا تصور کرنا بھی محال ہے - برف باری متواتر ہو رہی تھی اور اس کی بلندی پانچ سے چھ فٹ تک ہو گئی تھی - بات بھی کرتے تو منۃ سے بھاپ نکلتی تھی اور اس کی لمبائی بھی دو سے تین فٹ تک ہوتی تھی - -گھوڑوں کے پیر برف میں دھنس جاتے تو باہر نہیں نکل سکتے تھے -
بابر اور اسکے ساتھی متواتر برف ہٹانے میں لگے ہوئے تھے انہوں نے اپنے سینوں‌ یعنی چھاتیوں کی بلندی تک برف ہٹا لی تھی لیکن زمین نظر ہی نہیں آرہی تھی جس پر گھوڑے پیر رکھ کر چلتے - وہ برف کھودتے رہے آخر تھک ہار کر برف پر ہی بیٹھ گئے - انہوں نے آرام کرنے کے لئے کوئی پناہ گاہ ڈھونڈنی شروع کی - ارد گرد دور تک علاقہ چھان مارا اور آخر کار ایک غار نظر آیا لیکن غار اتنا چھوٹا تھا کہ اس میں ساری فوج نہیں آسکتی تھی - بابر کو اس کے ساتھیوں نے مشورہ دیا کہ وہ اندر جا کر بیٹھ جائے لیکن بابر کو یہ بات پسند نہیں آئی کہ وہ خود تو اندر چلا جائے اور اس کے ساتھی یخ سردی میں برفیلی ہوا کے تھپیڑے کھاتے ہوئے باہر کانپتے بیٹھیں رہیں - وقت گزرنے کے ساتھ شردی کی شدت اور برف گرنے کی شدت میں اضافہ ہوتا جارہا تھا - خود ان کے سروں پر تین چار انچ کی موٹی تہہ جم گئی -آخر انہیں ایک غار مل ہی گیا جس میں سارے ساتھی سما سکتے تھے -

ہندوستان میں رانا سنگا کی فوج سے مقابلہ
ہندوستان میں رانا سانگا کی فوج نے لڑائی سے قبل اپنے بیوی بچوں کو قتل کردیا تاکہ کسی کی محبت ان کی راہ میں حائل نہ ہو

ظہیر الدین بابر -- ازبکستان سے لیکر دہلی تک فتوحات کرتا چلا گیا تھا -راستے میں جتنے بھی مقابلے ہوئے وہ سب مسلمانوں کی فوج سے ہی ہوئے تھے - ہندؤں سے پہلا مقابلہ آگرہ کے مقام پر رانا سانگا سے ہوا - راجہ سانگا راجپوت کی فوج شجاعت و بہادری کا پیکر تھی - ان راجپوتوں کے سامنے موت کی کوئی حیثیت نہیں تھی اورعزت و وقار اس سے زیادہ اونچا مقام رکھتے تھے - اور مزید یہ کہ رانا سنگا نے اطراف کے تمام راجاؤں سے مدد مانگ کر اپنی فوج ---- بابر کی فوج سے بڑی بنا لی تھی ۔ مسلمانوں کا جذبہ شہادت اور اس کے لئے جان کی قربانی دینا اپنی جگہ لیکن راجپوتوں کی اس سوچ فکر کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا تھا بابر کی فوج کے سپاہی بھی کچھ حد تک متاثر تھے اور یہ بات ظہیر الدین بابر کو بھی پریشانی میں مبتلا کر دیتی تھی -
اچانک ظہیر الدین بابر نے ایک بڑا فیصلہ کیا ---- یہ فیصلہ اس نے کیوں کیا اس کی توجیہہ اس نے اپنی کتاب میں نہیں بیان کی فیصلے کے مطابق اس نے شراب نوشی ترک کرنے کا اعلان کیا اور عملی طور پر وہ تمام شراب جو پہلے سے رکھی ہوئی تھی اور وہ شراب جو کابل سے پہنچی ہی تھی سب بہادی - وہ تمام جام ، سبو ، گلاس ،برتن جو شراب پینےمیں استعمال ہوتے تھے تڑوادئے- ٹوٹے برتن ایک طرف پڑے ہوئے تھے- دوسری جانب خالی پیپے نظر آرہے تھے -ان سب کے پیچھے اونٹ بیٹھے جگالی کر رہے - تب اس نے فوج کو جمع کیا اور انہیں خطاب کیا
شہادت کے مرتبے کی عظمت کے بارے میں بتایا - اللہ کی راہ شہید ہونے والوں کو اللہ نے کونسا مقام عطا کیا ہے -

جنگ کا طبل بجا اور جنگ شروع ہوئی - رانا سانگا کی فوج بلا شبہ بہادری اور بے جگری سے لڑی- وہ جنگ کو ہر قیمت پر جیتنے کا عزم کر کے آئے تھے - بابر کو پہلی مرتبہ ان کی ایک اصطلاح ‘جوہر‘ کا پتہ چلا یعنی جنگ میں وچن کے ساتھ داخل ہونا اور آخری سانس تک لڑنا -اس مقصد کو حاصل کر نے کے لئے انہوں نے اپنے بیوی بچوں کو جنگ سے پہلے ہی قتل کردیا تھا تاکہ کسی کی محبت اور کسی کی یاد کا دل میں شائبہ بھی نہ آئے - اس کے بعد وہ بالکل برہنہ جسم جنگ میں شامل ہوئے البتہ جن کو ذرہ بکتر پہننا ضروری تھا انہوں نے ذرہ بکتر پہنی ہوئی تھی - ایک گھمسان کا رن پڑا خاک --دھول --چیخیں -- آوازیں --- گھوڑوں کی ہنہناہٹیں --- لاشیں -- سموں کے نیچے کچلتے ہوئے جسم -- گھوڑوں کے ساتھ گھسٹتے ہوئے مردہ اجسام - بلاشبہ رانا سانگا کی فوج شجاعت کی انتہاؤں پر پہنچی ہوئی تھی - لیکن بابر کی فوج بھی پیچھے ہٹنے پر آمادہ نہیں تھی- سورج نصف النہار پار کر چکا تھا - آخر ظہیرالدین کی فوج حاوی ہونے لگی اور رانا سانگا کی فوج شکست سے ہم کنار ہوئی - پھر چشم فلک نے ایک عجب نظارہ دیکھا -رانا سانگا کی فوج نے وچن دیا تھا کہ ہم شکست نہیں کھائیں گے اور نہ دشمن کے ہاتھ قید ہوں گے یہ سورماہٹ کے خلاف ہے کہ دشمن قید کرے - انہوں نے سواروں کے جوڑے بنائے اور ایک دوسرے کی گردنیں اڑانے لگے - وہ ایک دوسرے کو قتل کررہے تھے - میدان جنگ میں را نا سانگا کے کڑیل جوانوں کے جسم تڑپ رہے تھے ظہیر الدین بابر کی فوج نے بڑی مشکل سے انہیں روکا -

ظہیر الدین بابر ہندو راجہ رانا سنگ رام سمھا جو رانا سانگا کے نام سے معروف تھا کی بہادری اور شجاعت سے بہت متاثر ہوا تھا - اس کی بہادری کا تذکرہ اپنی کتاب میں اچھے انداز میں کیا ہے - عثمان قاضی کہتے ہیں کہ بنیادی باتیں دو تھیں۔ ایک تو یہ کہ بابر کی جنگی ٹیکنالوجی رانا سانگا سے بہتر تھی جس میں سر فہرست توپ کا استعمال تھا۔ دوسرے بابر کی افواج متحد اور ایک کمان کے تحت تھیں جبکہ رانا سانگا کی قیادت میں مختلف راجپوت رجواڑوں کا ایک ڈھیلا ڈھالا اتحاد تھا جن میں سے ہر ایک کا زور شخصی شجاعت کا لوہا منوانے پر تھا۔

اب کچھ ایسے سوالات جن کے جواب میں نہیں دوں گا بلکہ خود ظہیر الدین بابر کی کتاب دے گی لیکن میں یہ ضرور سوچتا ہوں کہ آیا عمران خان جو فلم بنائیں گے اس میں ان باتوں کا تذکرہ کرین گے یا نہیں ؟
سوالات یہ ہیں
کیا ظہیر الدین بابر فتح یابی کے بعد شکست کھانے والی فوج کے مردہ سپاہیوں کے مینار بناتا تھا ؟
کیا ظہیر الدین کی فوج لوٹ مار بھی کرتی تھی ؟
کیا وہ اپنی مفتوعہ رعایا کے لئے رحم کا جذبہ بھی رکھتا تھا ؟
بابر کی سوانح عمری تینوں سوالوں کے جواب میں کہتی ہے "ہاں "
مہمند ‘ خوشاب کے لوگوں نے مقابلہ نہیں کیا اور ہتھیار ڈال دئے تو ان سے اچھا سلوک کیا -
بس میری فلم بنانے والوں سے ایک گزارش ہے کہ فلم بناتے وقت واقعات کو توڑ موڑ کر نہ پیش کریں بلکہ صحیح واقعات بتائیں تاکہ عوام ایک صحیح تاریخ سے آگاہ ہوں
Munir  Bin Bashir
About the Author: Munir Bin Bashir Read More Articles by Munir Bin Bashir: 124 Articles with 354865 views B.Sc. Mechanical Engineering (UET Lahore).. View More