امیروں کے اچھے دن،غرباء زندہ درگور

نہ رکھا امید وفا کسی پرندے سے اقبال
جب پر نکل آتے ہیں تواپنا ہی آشیانہ بھو ل جاتے ہیں
سٹیٹ بینک اور وفاقی ادارہ شماریات کے پا س ملک کے تمام وسائل ان کے پر تعینات افسریا قبضہ مالکان کا ثبوت ہوتا ہے ۔ان دونوں اداروں کی جانب سے جاری رپورٹ حقیقت پر مبنی ہوتی ہیں ۔بتایا جاتاہے کہ سٹیٹ بینک آف پاکستان نے اگلے دو ماہ کیلئے مانیٹری پالیسی کا اعلان کر دیا ہے۔ اس سلسلہ میں جاری کردہ اعلامیہ کے مطابق شرح سود 150 بیسز پوائنٹس بڑھا دی گئی ہے اور آٹھ عشاریہ فیصد کردی گئی ہے۔ یہ شرح گزشتہ 15 ماہ کی بلند ترین شرح ہے۔ بنک نے بڑھتی ہوئی مہنگائی اور جاری کھاتوں کے درمیان بڑھتے ہوئے خسارہ کو مدنظر رکھتے ہوئے شرح سود میں 1.5 فیصد اضافہ کیا ہے۔ اجناس کی عالمی قیمتوں اور مقامی سطح پر ممکنہ طور پر توانائی کے نرخوں میں اضافے کے نتیجہ میں مہنگائی مزید بڑھنے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔مہنگائی اور ادائیگیوں کا توازن خراب ہوا ہے اور یہ توازن مقامی اور عالمی وجوہات کے باعث بڑھ رہا ہے۔ بلند درآمدی قیمتیں مہنگائی کو توقعات سے زیادہ بڑھا رہی ہیں اس لئے مہنگائی قابو میں رکھنے کیلئے زری پالیسی کو سخت کرنا ہوگا۔ توانائی کی بلند قیمتوں اور خدمات کی درآمدات بڑھنے کے باعث خسارہ اکتوبر میں ایک عشاریہ 13‘ ارب ڈالر سے بڑھ کر ایک عشاریہ 65‘ ارب ڈالر ہو گیا جبکہ برآمدات اور ترسیلات زر میں ماہ بہ ماہ کمی بھی آئی۔ آئندہ مالی سال میں اوسط مہنگائی کی 7.9 فیصد شرح میں اضافے کے خدشات موجود ہیں۔

دوسری جانب وفاقی ادارہ شماریات نے بھی اپنی رپورٹ میں مہنگائی مزید بڑھنے کا عندیہ دیا ہے اور بتایا ہے کہ گزشتہ ہفتے کے دوران 27 مختلف اشیاء کے نرخوں میں اضافہ ہوا ہے۔ ان اشیاء میں گھی‘ گوشت‘ دودھ‘ دالیں‘ دہی‘ بیف اور مٹن بھی شامل ہے۔ اشیائے ضروریہ کے نرخوں میں 18 عشاریہ 34 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ ایک ہفتے کے دوران چینی سمیت دس اشیاء کے نرخوں میں کمی ہوئی جبکہ 14 اشیاء کے نرخوں میں استحکام رہا۔ ماہرین اور تجزیہ نگاروں کی رائے کے مطابق حکومت کی جانب سے ملک میں مہنگائی بڑھنے کا باعث عالمی سطح پر مہنگائی میں اضافہ قرار دیا جاتاہے اور بالخصوص پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں کا دوسرے ایشیائی اور یورپی ممالک کے ساتھ موازنہ کیا جاتا ہے۔ ہماری معیشت تو پہلے ہی اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہو پا رہی تھی چنانچہ کرونا ایس او پیز نے ہماری معیشت کو بری طرح متاثر کیا اور کاروباری سرگرمیاں بھی ٹھپ ہو کر رہ گئیں۔ اس حوالے سے عالمی مہنگائی کو پاکستان میں بڑھنے والی مہنگائی کا جواز بنایا جا سکتا ہے تاہم پاکستان کی اوسط شرح آمدنی کا دوسرے متعلقہ ممالک کی شرح آمدنی کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو ہماری شرح آمدنی کا بیرونی دنیا میں کوئی تقابل ہی نظر نہیں آتا جبکہ ہمارے ملک میں غربت کی شرح بھی دوسرے متعلقہ ممالک کی نسبت کئی درجے زیادہ ہے اور خطِ غربت سے نیچے ملک کی نصف سے بھی زائد آبادی کا چلے جانا بذاتِ خود ایک المیہ ہے۔ ہمارے ملک کے کم آمدنی والے عوام مہنگائی کے سونامیوں کے آگے بے بس ہوتے ہیں اس لئے یہاں روزافزوں مہنگائی عوام میں اضطراب بڑھانے کا باعث بنتی ہے تو اس سے حکومتی گورننس پر بھی سوال اٹھتے ہیں جبکہ بے روزگاری کے بڑھتے تناسب نے بھی عوام پر مہنگائی کا بوجھ بڑھایا ہے جو زندہ درگور ہوتے نظر آتے ہیں تو انکی جانب سے حکومتی پالیسیوں پر عدم اطمینان اور سخت ردعمل کا اظہار بھی فطری امر ہے۔ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کہ ہمارا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ قومی معیشت کو آئی ایم ایف کے قرضوں کیلئے اس عالمی مالیاتی ادارے کے پاس گروی رکھنے کا سابق حکمرانوں کو موردِالزام ٹھہرانے والی موجودہ حکومت خود بھی اسی راہ پر گامزن ہوئی اور آئی ایم ایف سے قسط وار چھ ارب ڈالر کا بیل آؤٹ پیکیج لینے کی خاطر اسکی ہر کڑی اور ناروا شرط قبول کرلی۔اورمہنگائی بڑھنے کا ایک سبب ناجائز منافع خور مافیا بھی ہے جس کی جڑیں اقتدار کی راہداریوں میں پھیلی ہوئی ہیں۔ چنانچہ وہ بلاخوف و خطر جب چاہتے ہیں اپنی اشیاء کی مصنوعی قلت پیدا کرکے من مانے نرخ مقرر کرلیتے ہیں اور مہنگائی کے بوجھ تلے دبے عوام کی حالت مزید دگرگوں ہو جاتی ہے۔

بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بدامنی کا جائزہ لیا جائے تو اس میں قومی معیشت کی ترقی و استحکام کا امکان کم ہی نظر آتا ہے ۔آئندہ انتخابات میں حکمران جماعت کے لوگ عوام کے کس غیض و غضب کا سامنا کرینگے‘ اس کا انہیں ابھی سے اندازہ لگا لینا چاہیے۔ضرورت اس امر کی ہے ،موجودہ حکومت کے پاس چند ماہ باقی ہیں ۔پھر حکمرانوں اپنے اپنے آشیانہ واپسی ہوجائے گی ۔ آج کے امیر وں کے اچھے دن،غرباء زندہ درگورکیاجارہاہے ۔ حکومت اور برسراقتدارلوگ کو اپنے فیصلوں پر نظرثانی کرنا ہوگی ۔مشہورقول ہے کہ وقت بدلتے دیر نہیں لگتی۔
 

Ghulam Murtaza Bajwa
About the Author: Ghulam Murtaza Bajwa Read More Articles by Ghulam Murtaza Bajwa: 272 Articles with 201519 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.